بازیگری

اگر ہم لسانی جھگڑوں اور صوبائیت کے رستے ہوئے ناسو روں کو دیکھیں گے تو یکجائی کہاں نظر آئے گی؟

moosaafendi@gmail.com

میں حیران ہوں کہ قدرت نے کس قدر عجیب و غریب صفات اور صلاحیتوں سے میر ی قوم یعنی پاکستانی قوم کو نوازا ہے جس کے بارے میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہ رائے رکھتی ہے کہ پاکستانی سرے سے قوم ہے ہی نہیں۔ میری قوم اِس قدر تضادات کا مجموعہ ہے کہ اس کے حقیقی خدوخال کا پتہ لگانا اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔

میری قوم اس قدر انتشار کا شکار ہے کہ بعض اوقات تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر یکجائی بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے اگر آپ فرقہ بندیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری کو ملحوظ خاطر رکھیں تو یکجائی کہاں دکھائی دے گی۔ ظاہر ہے اگر ہم لسانی جھگڑوں اور صوبائیت کے رستے ہوئے ناسو روں کو دیکھیں گے تو یکجائی کہاں نظر آئے گی؟

جس دین کے نام پر یہ ملک بظاہر بنایا گیا تھا اگر یہ قوم اس دین ہی کی کسی قابل قبول تعریف پر متفق نہ ہوسکی ہو تو اس کی یکجائی کس اندھے کو نظر آئے گی؟ جب لوگ سیدھے سادھے اور آسان سے دین کی اس قدر شکلیں بنا ڈالیں کہ ایک عام دیندار اور ایماندار آدمی کے لیے اس کی پہچان ہی مشکل ہو جائے تو وہ بیچارہ کہاں جائے گا۔ ایک طرف اس کے دین کو امن کا گہوارہ بتایا جائے گا اور دوسری طرف خودکش بمباروں کا لہراتا ہوا پھریرا تو اس قوم کا ایک عام آدمی کیا سوچ سکتا ہے اور کدھر جاسکتا ہے۔ اس قوم کا ایک فرد ہونے کے ناطے سے میر ی تو سمجھ ہی جواب دے گئی ہے۔

دوسری جانب میری قوم جس قدر ان گنت اور لا تعداد مسائل کا شکار ہے اور جس کے لوگوں کو کان کھجلانے تک کی فرصت نہیں ہے وہ قوم پھر کس طرح سے اپنی ایک ایسی پہچان منوا سکتی ہے جس کا تعلق یکسوئی اور یکجائی سے ہو۔جو قوم پولیو کے انجکشن لگانے، لڑکیوں کو تعلیم دلوانے تفریحی پروگراموں اور کھیل کود کے طور طریقوں کے بارے تک میں ایک سوچ اور ایک انداز نہ اپنا سکتی ہو جس کا زیادہ تر وقت لمبی لمبی قطاروں میں انتظار کرکے گزرتا ہو جس کے لوگ رات کی تاریکیوں میں بجلی کی روشنی اور دن کے اُجالے میں گیس کی بندش کا عذاب جھیلنے کے عادی ہو چکے ہوں۔

جب ایسی بد نصیب قوم کی کرکٹ کی ٹیم دشمن ملک کے میدان میں اترے تو اس کے عزم اور اعتماد کی حالت قابل رحم ہوگی یا کہ نہیں؟ اس کے عزم اور اس کے اعتماد کی حالت قابل رحم ہوگی کہ نہیں وہ صرف دو اووروں میں اپنے تین کھلاڑی واپس پویلین میں بھیج دینے پر مجبور ہوگی یا نہیں؟


اس عظیم کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا ہم قوم ہونے کے ناطے سے درد میں اچھی طرح محسوس کرسکتا ہوں کہ ان کی حالت کس قدر قابل رحم تھی جب کہ ان کے مقابل جو ٹیم تھی وہ شہزادوں کی ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کھلاڑیوں کی فکرات میں کھیل اور صرف کرکٹ کے کھیل کے دائو پیچ کے بارے سوچ بچار کے سوا اور کوئی فکر لاحق نہیں تھی۔ ہر طرح سے آسودہ حالوں کا مقابلہ بیچاروں اور لاچاروں سے تھا اور آفرین ہے ان عظیم کھلاڑیوں پر جو اس بے چارگی اور لاچارگی کے باوجود اپنے ہوش و حواس قائم رکھنے میں کامیاب رہی اور دھیر ے دھیرے خود کو سنبھالا دیتے ہوئے پورے عزم اور کامل اعتماد کے ساتھ اپنی عظمت کا لوہا منوانے اور اپنے بد نصیب ملک کا نام اُونچا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ میں اپنے ان حقیقی شیروں پر جس قدر بھی اِترائوں کم ہے میں اپنے ان بھائیوں پر جس قدر بھی ناز نخرے کروں مجھے اس کا حق حاصل ہے۔

مجھے اپنے کرکٹ کے کھلاڑیوں پر کیوں فخر ہے اور کیوں ناز ہے؟ اس لیے نہیں کہ وہ کھیل کے میدان میں کامیاب ہوئے ۔کھیل میں ہار جیت ایک یقینی امر ہوتا ہے۔ کھیل کھیل ہو۔ تا ہے اسے جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ میں اس قدر خوشی اور فخر کا اظہار ہر گز نہ کرتا اگر میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو برابر کے پلڑے میں دیکھتا۔ میرے فخر و اعتماد اور بے پناہ خوشی کی وجہ یہی ہے کہ یہ مقابلہ برابر کے کھلاڑیوں میں نہ تھا۔ مقابلہ شہزادوں اور لاچاروں کے درمیان تھا۔

یہ مقابلہ خوشحالوں اور بے کسوں کے درمیان تھا۔ یہ مقابلہ بڑی بڑی جائیدادوں کے وارثوں اور لاوارثوں کے درمیان تھا اور بے کسوں کے درمیان تھا۔ میری ٹیم کے عظیم کھلاڑی گھر سے خود کش دھماکوں اور ہلاکتوں کے دل ہلا دینے والے آسیبو ں کے سائے میں گھر سے نکلے تھے۔ گھر والوں نے ضرور بلائیں لی ہونگی۔ صدقہ خیرات بھی کیا ہوگا، دعائیں دی ہوں گی، قرآن پاک کے سائے تلے سے بھی گزارا ہوگا لیکن اس سب کے باوجود اندر کے حوصلے جو ایک آسودہ پُرامن اور مسلسل ترقی پذیر ملک کا شہری اور باشندہ ہونے کے ناطے کسی کو حاصل ہوتا ہے اُس سے میرا کھلاڑی ہمیشہ عاری ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر میرا کھلاڑی جیت جاتا ہے اور اپنی کامیابی بھرے میدان میں منوا لیتا ہے تو اس کا اعزاز اور افتخار میرے نزدیک اُس کے مدمقابل کے افتخار اور اعزاز سے کہیں زیادہ بلند اور قابل ستائش ہونا چاہیے۔

میرے اسنوکر کے چیمپئن کے پاس غیر ملک کا سفر کرنے کے لیے ٹکٹ تک کے پیسے نہ تھے ۔ زاد راہ نہیں تھا۔ جو کچھ بھی اسے دیا گیا یار لوگوں نے چندہ کرکے دیا اس کے باوجود اگر وہ چیمپئین کی ٹرافی لے کر لوٹا ہے تو اس کی عظمت کو ہمیں پیسوں میں نہیں تولنا چاہیے اور انعام و اکرام کی شکل میں چند لاکھ روپے دیکر اس کی عظمت کی توہین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کی قیمت لگ ہی نہیں سکتی۔

ہمارے بچوں نے ہاکی کا میدان بھی مار لیا ہے جتنا بھی ان پر اُن کے والدین بیوی بچوں اور گھر والوں پر ان کے اساتذہ پر ان کے کوچوں پر اور جس جس نے حوصلہ افزائی کے ساتھ انھیں سراہا ہے اور اپنایا ہے ان سب پر سلام ہو۔ پاکستان انھی بچوں پر ہی فخر کر سکتا ہے کیونکہ اور تو اب میرے ملک کے پاس فخر کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ یہی ہمارے بچوں کی اصلی بازیگری ہے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو آمین۔
Load Next Story