چلو اٹھو زمین کھو دیں

آسمان سے روشنی کی سیڑھی سی نکلی اور جنگل کی سرسبز زمین پر جا لگی۔


Arif Anis Malik January 01, 2013
[email protected]

جنگل میں گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اوپر سے چھاجوں بارش برس رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے بجلی کڑکتی تو تاریک' پراسرار اور الجھا دینے والے عظیم الجثہ وجود پر کچھ روشنی پڑتی تھی۔ وہ نوجوان کئی بھول بھلیوں میں سے گزرتا ہوا اور ہاتھوں سے رستہ ٹٹولتا ہوا درختوں کے اس جھنڈ تک پہنچا جہاں پر کئی راستے آپس میں گڈمڈ ہوتے تھے۔ اس نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے دل کی گہرائیوں کے ساتھ اپنے رب سے رہنمائی کی درخواست کی ''میرے اللہ اگر خواجہ خضرؑ کا کوئی وجود ہے تو ان کو بھیج کہ میں رستہ کھو چکا ہوں اور اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں'' اس نے بچپن میں ماں سے سنی ہوئی حکایتوں کی روشنی میں بے ساختہ فریاد کی۔ خواجہ خضر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتے ہیں بشرطیکہ دعا قبول ہو جائے۔

شاید اس کی دعا قبول ہو گئی۔ بارش کے لپیٹے جیسے ایک دم ہلکے سے ہو گئے۔ آسمان سے روشنی کی سیڑھی سی نکلی اور جنگل کی سرسبز زمین پر جا لگی۔ براق کی روشنی میں اسے وہ شاندار' وجیہہ اور پرتمکنت بزرگ نظر آ رہے تھے جو اس کی دعا کا جواب بن کر آسمان سے اترے تھے۔ نوجوان کے جسم کا رواں رواں مسرت سے بھیگ گیا۔

''نوجوان! کہاں جانا چاہتے ہو؟'' ان کی بارعب اور گھمبیر آواز گونجی تو وہ سٹپٹا سا گیا۔ ایک دفعہ پھر بجلی کڑکی اور اردگرد کا ماحول روشن سا ہو گیا۔ نوجوان کو معلوم ہو گیا کہ وہ کسی دوراہے پر نہیں بلکہ شاید سو راہے پر کھڑا تھا۔ جنگل کے پرپیچ راستوں سے درجنوں پگڈنڈیاں وہاں گلے مل رہی تھیں اور بہت سے راستے آگے کی طرف دوڑ رہے تھے۔ نوجوان نے اپنی منزل کے بارے میں سوچا تو اس کے ذہن پر بڑا سا سوالیہ نشان ابھرا اور ایک ہالا سا تن گیا۔

''میں واقعی کہاں جانا چاہ رہا ہوں؟'' اس نے الجھن میں اپنی پیشانی مسلی جس پر ابھی بھی بارش کے قطرے اٹکے ہوئے تھے۔ ''میں یہاں سے باہر جانا چاہ رہا ہوں'' اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے' جی کڑا کے کہہ دیا۔

''باہر؟'' بزرگ کے روشن چہرے پر الجھن سی تیر گئی۔ ''یہ سارے راستے یہاں سے باہر کی طرف جاتے ہیں۔'' انھوں نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اجالا سا ہو گیا جس میں درجنوں راستے ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے کہیں نہ کہیں بھاگے جا رہے تھے۔

''میں واقعی کہاں جانا چاہ رہا ہوں؟'' نوجوان نے شاید پہلی مرتبہ اپنے آپ سے پوچھا۔ جنگل میں درندوں' سانپوں اور حشرات الارض سے بچتے ہوئے پچھلے کئی دنوں سے وہ کہیں پہنچنا چاہ رہا تھا۔ اب جب کہ اس کی فریاد سن لی گئی تھی اور راستہ دکھانے والا بھی میسر تھا' اسے یاد آیا کہ اس کی منزل کا کوئی واضح سرا' پتہ یا چہرہ موجود نہیں تھا۔ وہ کہیں پہنچنا چاہ رہا تھا مگر جانے کہاں؟ اس نے مٹھیاں بھینچیں' اپنے ہونٹ دانتوں میں دبائے اور دیر تک سوچتا رہا۔ ''مجھے معلوم نہیں کہ میں کہاں جانا چاہ رہا ہوں' میں بس یہاں سے باہر جانا چاہتا ہوں۔'' بہت مشقت کے بعد اس کی زبان سے یہی الفاظ نکل سکے۔

بزرگ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔ انھوں نے لحظہ بھر اپنی بھرپور توانا آنکھیں اس کے الجھن زدہ چہرے پر گاڑیں لیکن وہاں ایک بڑا سا سوالیہ نشان پا کر وہ ناامید سے ہو گئے۔

''نوجوان' اگر تمہیں اپنی منزل معلوم نہیں ہے تو یاد رکھو کوئی بھی راستہ تمہیں کہیں بھی لے کر نہیں جائے گا۔''

ان الفاظ کے ساتھ ہی ایک زوردار جھماکا سا ہوا اور وہ روشنی سمیت غائب ہو گئے۔ نوجوان جنگل کے اسی تاریک جھنڈ میں سو را ہے پر اکیلا کھڑا تھا۔

برسوں پرانی سنی ہوئی حکایت اس وقت یاد آئی جب 2012ء کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ 2013ء کا پہلا دن طلوع ہو چکا ہے اور شاہراہ حیات پر 365 راستے مختلف سمتوں میں دوڑتے ہوئے ہمارے منتظر ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں کسی نہ کسی راستے پر چلنا پڑے گا ورنہ کوئی راستہ ہمیں کہیں نہیں پہنچا سکے گا۔

برسوں پہلے سال کے آخری دن ڈائری لکھنے کا چسکا پڑا تھا جس میں پورے گزرے برس کا احوال لکھتا تھا۔ کامیابیاں' ناکامیاں' مسرتیں' اداسیاں' اسباق اور پھر اگلے آنے والے سال کے لیے ''نیو ایئر ریزولیوشنز'' سر اٹھا کے جینے کے لیے' زندگی کے سو راہے پر کہیں نہ کہیں پہنچنے کے لیے منزل کا پتہ ہونا ضروری ہے۔ نئے سال کے لیے بڑے بڑے پھنے خاں قسم کے خواب' ارادے اور مائل اسٹون ضروری ہیں۔ بحیثیت پاکستانی' آج 65 برس کے بعد ہم جس ''سوراہے'' پر کھڑے ہیں' منزل کا پتہ چلنا اشد ضروری ہے۔ اگر واقعی سفید براق گھوڑے پر کوئی مسیحا ہماری تلاش میں پہنچ گیا تو اسے بتانا ضروری ہے کہ ہم کہاں پہنچنا چاہ رہے ہیں۔

بحیثیت انسان ہمیں بنانے والے نے ہماری بنیادی کیمسٹری کے اجزاء بار بار اپنی آخری اور سچی کتاب میں بتلا دیے ہیں۔ ''ظالم' جاہل' مغرور' جلد باز اور ناشکرا۔'' آج ہم اپنے گریبان میں جھانکیں گے تو یہی ایکسرے نظر آئے گا۔ گزرے ہوئے سال میں ہم اسی تشخیص کی تیسری ڈگری تک جا پہنچے ہیں۔ ہم پاکستانی کمال کے ناشکرے ہیں' جلد باز ہیں اور اگر گزرے سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں تو ظلم اور جہالت میں بھی پستیوں کی گہرائیوں تک جا پہنچے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا رب ہم سے مایوس نہیں ہوا۔ ہم پر ایک اور صبح لامحدود امکانات کے ساتھ طلوع ہو چکی ہے' ہمیں بس یہ طے کرنا ہے کہ ہم جانا کہاں چاہتے ہیں۔

کچھ راستے صرف چلنے سے بنتے ہیں۔ شاید ہمارا راستہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمیں 2013ء میں اس راستے پر چلنا ہے جو ہمیں اس منزل تک پہنچا سکے۔ جہاں ہم جانا چاہ رہے ہیں۔ بس یہ ذہن میں رہے کہ اگر ہمارا مسیحا دوران سفر لاپتہ ہو جائے تو ہمارے پاس آگے بڑھنے کے لیے اپنا سفر وپیما ساتھ ہونا چاہیے۔ 65 برس سے ہم مختلف مسیحاؤں کے پیچھے چلتے چلتے کسی تاریک جھنڈ تک پہنچتے ہیں اور پھر روشنی کا سرا گم کر بیٹھتے ہیں۔

اس کے بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور۔ چینی داناؤں کا قول ہے کہ اگر چھ ماہ کا منصوبہ رکھتے ہو تو گندم کی فصل کاشت کرو۔ اگر کچھ برس کا پلان ہے تو درخت اگاؤ اور اگر کچھ نسلوں کا سوچ رہے ہو تو سو برس کا منصوبہ بناؤ۔ قومیں صدیوں میں تشکیل ہوتی ہیں۔ ہم 65 برس میں لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ باکسنگ رنگ میں موجود ہیں۔ ہر گزرتے برس کے ساتھ ہمیں پڑنے والے مکوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے چہرے کی ہڈیاں تڑخ رہی ہیں اور ناک اور منہ سے لہو کے فوارے پھوٹ رہے ہیں لیکن یہ کیا کم بات ہے کہ ہم ابھی بھی رنگ میں کھڑے ہیں۔ اگر ہم ایڑھیاں رگڑتے رہے تو یقینی بات ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا۔

تو اے اچھے پڑھنے والے آؤ ایک بڑی سی ڈائری میں بڑے بڑے سے خواب لکھیں۔ نئے سال کے عہد وپیماں کریں۔ اس یقین سے سفر کا آغاز کریں کہ یہ سال ہم نے جینا ہے۔ اس کام کا یقین کریں جو ہم خود کر سکتے ہیں۔ اس لمحے آج کے دن سے جس کی شروعات ہو سکتی ہوں کوئی ایسا عہد جو ہم اپنے آپ سے کر سکیں کچھ ایسی عادتیں' رویے' اسلوب اور برکتیں جو ہمارے اوپر ہماری وجہ سے نازل ہو سکیں۔ آؤ دنیا بھر کو نہیں' اپنے آپ کو بدلتے ہیں۔ آؤ اپنی چھوٹی سی عادت کو بدل کر دیکھتے ہیں۔ اگر ہزار سال کا سفر ایک قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے تو آج پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور مسیحا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک آنکھ کھلی رکھنی ہے اور اگر دوران سفر ہمارا مسیحا لاپتہ بھی ہو جائے تو پھر بھی چلتے رہنا ہے۔

چلو اٹھو زمین کھودیں
اور اس میں اپنے دل بو دیں
کریں آباد پھر اس کو
محبت کے پسینے سے
کہ اس بے کار جینے سے
نا تم خوش ہو
نا میں خوش ہوں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔