اعلیٰ تعلیم سے محرومی
بدقسمتی سے ہماری نسل کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کیا جارہا ہے، اس کی بنیادی وجہ تعلیم کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔
وہ قومیں تہذیب یافتہ اور مہذب مانی جاتی ہیں جو تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں، اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہوتو وہاں علم کے حصول کو مشکل ترین بنا دیا جائے اور جہالت بھردی جائے وہ قوم خودبخود تباہ ہوجائے گی۔ اگر ہم مسلمانان ہند کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ مسلمانوں کے لیے بدترین دور تھا، ہندو تعلیم کے اعتبار سے مسلمانوں سے کئی گنا آگے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانے میں جہاں قوموں کی تباہی کے سامان کیے گئے وہیں کچھ مصلح قوم بھی پیدا ہوئے۔ سرسید بھی ایسی ہستیوں میں سے تھے۔
سرسید نے اصلاح قوم کا بیڑہ اٹھایا۔ جدید علوم و فنون کی تعلیم کا منصوبہ انھوں نے اس لیے پیش کیا اور مسلمانوں کو احساس دلایا کہ زمانہ بدل چکا ہے وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں لہٰذا مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آج ہم ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے سرسید نے پورے ملک میں اسکول و کالج کھولے تھے تاکہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کروایا جائے اور ان میں شعور پیدا کیا جائے جب کہ موجودہ دور میں ہزاروں کی تعداد میں اسکول وکالج کھلے ہوئے ہیں جن میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن ان کا مقصد نوجوانوں میں شعور و آگہی اور صحیح سوچ وسمجھ اور قابلیت پیدا کرنا نہیں بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل ہے۔ ان میں اکثریت ایسے تعلیمی اداروں کی ہے جو محض تجارتی بنیادوں پر چل رہے ہیں اور اپنے فائدے تلاش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس سرسید کے دور میں ان اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم اور اخلاقی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ افسوس آج انگریزی تعلیم پر زیادہ زور ہے۔ ہمارے بہت سے بچے مذہبی تعلیم سے بہت دور ہیں، ان بچوں کو اپنے مذہبی واقعات کا کچھ بھی علم نہیں۔
اگر آج بھی ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرلیں، تعلیم سب کے لیے عام اور یکساں کردیں تو کل پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔ یہ بچے کل جوان ہوں گے، یہی بچے اور نوجوان ہمارے ملک کا حتمی اثاثہ ہیں کیونکہ آگے جاکر انھوں نے ملک کے مختلف شعبوں سیاست، اقتصادیات، تعلیم، میڈیکل، معیشت، زراعت، سائنس ٹیکنالوجی میں کام کرنا ہے، اگر ان کی تربیت درست اور مثبت انداز میں کردی جائے تو ملک کے لیے قیمتی اثاثہ ورنہ بے کار ہجوم ثابت ہوں گے۔
بدقسمتی سے ہماری نسل کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کیا جارہا ہے، اس کی بنیادی وجہ تعلیم کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور سرکاری اسکول۔ پاکستان میں عوام اسکولوں کی تفریق سے ہی پریشان نہیں ہیں وہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی سے بھی عاجز ہیں کہ ہر شخص دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی آج کل بہت مشکل سے کرپا رہا ہے، وہ پرائیویٹ اسکول کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پیسے کا کیسے بندوبست کرے۔ ہماری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ تعلیم کا نظام آسان اور سب کے لیے یکساں کرے۔
اگر ہم موجودہ دور میں تعلیمی حالات کا جائزہ لیں تو شرم آتی ہے کہ آج کے دور میں تعلیم حاصل کرنا کس قدر مشکل ترین بنادیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم تو اب ہمارے ملک میں امیروں کے بچے ہی حاصل کرسکتے ہیں، کیونکہ تعلیم کے نام پر اسکولوں میں جو فیس لی جاتی ہے وہ مڈل کلاس یا غریب آدمی نہیں ادا کرسکتا۔ فیس کے نام پر بھاری بھرکم رقم مانگی جاتی ہے اور ایڈمیشن فیس کا تو جواب ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی کرائے کے گھر کا ایڈوانس لیا جارہا ہو، 40 ہزار، 60 ہزار ایڈمیشن فیس، جس اسکول کی فیس اتنی ہوگی وہاں غریب آدمی اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتا ہے، یعنی تعلیم کے شعبے میں بھی تفریق پیدا کردی گئی ہے۔
یہ امیروں کا اسکول ہے وہ غریبوں کا اسکول ہے، غریب آدمی حیرت سے بس اسکول کی عمارت دیکھ سکتا ہے اور سوچ سکتا ہے کہ کاش میرا بچہ بھی اس اسکول میں پڑھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتا اور ملک اور قوم کی خدمت کرسکتا۔ اگر ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے تو وہاں تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا یکساں ہوتے ہیں، امیر کا بچہ بھی اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور غریب کا بچہ بھی آپ کو اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتا نظر آئے گا۔ ہر ملک میں حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی چیزیں مہیا کرے اور تعلیم ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے، تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں بچوں کی تعلیم اور صحت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سندھ کے بجٹ برائے 2012-13 میں تعلیم کے لیے مختص رقم کو 7733 ملین روپے سے بڑھاکر 12,000 ملین روپے کردیا گیا ہے یہ اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 55 فیصد سے زائد ہے مگر پھر بھی سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر ترس آتا ہے، ٹوٹے پھوٹے اسکول اور ان اسکولوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے، جدید علوم کی کتابیں سرکاری اسکول میں پڑھنے والے طلبا کو میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں سب سے پہلے والدین سے یہ سوال کیا جاتا ہے آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ کس پوسٹ پر ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سے پرائیویٹ اسکول والے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ ہماری فیس ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں اور ایک غریب آدمی کے پاس ان کے سوالات کا نہ ہی کوئی جواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان کی فیسیں ادا کرسکتا ہے، غریب آدمی کے بچے کا بس یہ جرم ہے کہ وہ ''غریب'' ہے۔
بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، جنہوں نے آگے جا کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم کوالٹی ایجوکیشن پر فوکس کریں، چاہے امیر کا بچہ ہو یا غریب کا، تعلیم پر سب کا حق ہے، سب کو یکساں تعلیم فراہم کی جائے، ہمیں اپنے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، تعلیمی پالیسی ہی ترقی یافتہ معاشرے کی بقا اور استحکام کے لیے لازم ہوتی ہے۔ سرسید کے طرز پر اسکول اور کالج کھلنے چاہئیں جہاں سب کے لیے تعلیم یکساں ہو، جہاں بچوں اور نوجوانوںکے مستقبل کے بارے میں سوچا جاتا تھا آج ہماری آبادی کا 60% فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن ہماری سب سے بڑی قوت نوجوان ہیں، ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں، کوئی ان کے بارے میں بات نہیں کرتا، ان کے لیے اعلیٰ قسم کے کالج ہوں جہاں فیسوں کا بھاری بھرکم عذاب نہ ہو اور جب وہ پڑھ کر فارغ ہوں تو ان کو جاب آسانی سے مل جائے۔
اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام اور آسان سے آسان کرنا ہوگا، پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب یہاں کا بچہ بچہ تعلیم حاصل کرلے۔ ہمارے ملک میں کئی بچوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ہمارے ملک میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو مزدوری کرتے ہیں، جس ملک کا مستقبل اسکول جانے کے بجائے مزدوری کررہا ہو اس ملک کا مستقبل کیسے روشن ہوسکتا ہے؟ ایسے ملک کیسے ترقی کرسکتے ہیں جہاں معصوم بچے پڑھنے کے بجائے مزدوری کرتے ہوں، جہاں اعلیٰ تعلیم پر حق صرف امیروں کا ہو، ایسا ملک بھی ترقی نہیں کرسکتا بلکہ اور مسائل کا شکار ضرور ہوسکتا ہے۔
سرسید نے اصلاح قوم کا بیڑہ اٹھایا۔ جدید علوم و فنون کی تعلیم کا منصوبہ انھوں نے اس لیے پیش کیا اور مسلمانوں کو احساس دلایا کہ زمانہ بدل چکا ہے وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں لہٰذا مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آج ہم ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے سرسید نے پورے ملک میں اسکول و کالج کھولے تھے تاکہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کروایا جائے اور ان میں شعور پیدا کیا جائے جب کہ موجودہ دور میں ہزاروں کی تعداد میں اسکول وکالج کھلے ہوئے ہیں جن میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن ان کا مقصد نوجوانوں میں شعور و آگہی اور صحیح سوچ وسمجھ اور قابلیت پیدا کرنا نہیں بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل ہے۔ ان میں اکثریت ایسے تعلیمی اداروں کی ہے جو محض تجارتی بنیادوں پر چل رہے ہیں اور اپنے فائدے تلاش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس سرسید کے دور میں ان اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم اور اخلاقی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ افسوس آج انگریزی تعلیم پر زیادہ زور ہے۔ ہمارے بہت سے بچے مذہبی تعلیم سے بہت دور ہیں، ان بچوں کو اپنے مذہبی واقعات کا کچھ بھی علم نہیں۔
اگر آج بھی ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرلیں، تعلیم سب کے لیے عام اور یکساں کردیں تو کل پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔ یہ بچے کل جوان ہوں گے، یہی بچے اور نوجوان ہمارے ملک کا حتمی اثاثہ ہیں کیونکہ آگے جاکر انھوں نے ملک کے مختلف شعبوں سیاست، اقتصادیات، تعلیم، میڈیکل، معیشت، زراعت، سائنس ٹیکنالوجی میں کام کرنا ہے، اگر ان کی تربیت درست اور مثبت انداز میں کردی جائے تو ملک کے لیے قیمتی اثاثہ ورنہ بے کار ہجوم ثابت ہوں گے۔
بدقسمتی سے ہماری نسل کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کیا جارہا ہے، اس کی بنیادی وجہ تعلیم کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور سرکاری اسکول۔ پاکستان میں عوام اسکولوں کی تفریق سے ہی پریشان نہیں ہیں وہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی سے بھی عاجز ہیں کہ ہر شخص دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی آج کل بہت مشکل سے کرپا رہا ہے، وہ پرائیویٹ اسکول کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پیسے کا کیسے بندوبست کرے۔ ہماری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ تعلیم کا نظام آسان اور سب کے لیے یکساں کرے۔
اگر ہم موجودہ دور میں تعلیمی حالات کا جائزہ لیں تو شرم آتی ہے کہ آج کے دور میں تعلیم حاصل کرنا کس قدر مشکل ترین بنادیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم تو اب ہمارے ملک میں امیروں کے بچے ہی حاصل کرسکتے ہیں، کیونکہ تعلیم کے نام پر اسکولوں میں جو فیس لی جاتی ہے وہ مڈل کلاس یا غریب آدمی نہیں ادا کرسکتا۔ فیس کے نام پر بھاری بھرکم رقم مانگی جاتی ہے اور ایڈمیشن فیس کا تو جواب ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی کرائے کے گھر کا ایڈوانس لیا جارہا ہو، 40 ہزار، 60 ہزار ایڈمیشن فیس، جس اسکول کی فیس اتنی ہوگی وہاں غریب آدمی اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتا ہے، یعنی تعلیم کے شعبے میں بھی تفریق پیدا کردی گئی ہے۔
یہ امیروں کا اسکول ہے وہ غریبوں کا اسکول ہے، غریب آدمی حیرت سے بس اسکول کی عمارت دیکھ سکتا ہے اور سوچ سکتا ہے کہ کاش میرا بچہ بھی اس اسکول میں پڑھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتا اور ملک اور قوم کی خدمت کرسکتا۔ اگر ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے تو وہاں تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا یکساں ہوتے ہیں، امیر کا بچہ بھی اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور غریب کا بچہ بھی آپ کو اسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتا نظر آئے گا۔ ہر ملک میں حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی چیزیں مہیا کرے اور تعلیم ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے، تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں بچوں کی تعلیم اور صحت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سندھ کے بجٹ برائے 2012-13 میں تعلیم کے لیے مختص رقم کو 7733 ملین روپے سے بڑھاکر 12,000 ملین روپے کردیا گیا ہے یہ اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 55 فیصد سے زائد ہے مگر پھر بھی سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر ترس آتا ہے، ٹوٹے پھوٹے اسکول اور ان اسکولوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے، جدید علوم کی کتابیں سرکاری اسکول میں پڑھنے والے طلبا کو میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں سب سے پہلے والدین سے یہ سوال کیا جاتا ہے آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ کس پوسٹ پر ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سے پرائیویٹ اسکول والے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ ہماری فیس ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں اور ایک غریب آدمی کے پاس ان کے سوالات کا نہ ہی کوئی جواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان کی فیسیں ادا کرسکتا ہے، غریب آدمی کے بچے کا بس یہ جرم ہے کہ وہ ''غریب'' ہے۔
بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، جنہوں نے آگے جا کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم کوالٹی ایجوکیشن پر فوکس کریں، چاہے امیر کا بچہ ہو یا غریب کا، تعلیم پر سب کا حق ہے، سب کو یکساں تعلیم فراہم کی جائے، ہمیں اپنے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، تعلیمی پالیسی ہی ترقی یافتہ معاشرے کی بقا اور استحکام کے لیے لازم ہوتی ہے۔ سرسید کے طرز پر اسکول اور کالج کھلنے چاہئیں جہاں سب کے لیے تعلیم یکساں ہو، جہاں بچوں اور نوجوانوںکے مستقبل کے بارے میں سوچا جاتا تھا آج ہماری آبادی کا 60% فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن ہماری سب سے بڑی قوت نوجوان ہیں، ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں، کوئی ان کے بارے میں بات نہیں کرتا، ان کے لیے اعلیٰ قسم کے کالج ہوں جہاں فیسوں کا بھاری بھرکم عذاب نہ ہو اور جب وہ پڑھ کر فارغ ہوں تو ان کو جاب آسانی سے مل جائے۔
اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام اور آسان سے آسان کرنا ہوگا، پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب یہاں کا بچہ بچہ تعلیم حاصل کرلے۔ ہمارے ملک میں کئی بچوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ہمارے ملک میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو مزدوری کرتے ہیں، جس ملک کا مستقبل اسکول جانے کے بجائے مزدوری کررہا ہو اس ملک کا مستقبل کیسے روشن ہوسکتا ہے؟ ایسے ملک کیسے ترقی کرسکتے ہیں جہاں معصوم بچے پڑھنے کے بجائے مزدوری کرتے ہوں، جہاں اعلیٰ تعلیم پر حق صرف امیروں کا ہو، ایسا ملک بھی ترقی نہیں کرسکتا بلکہ اور مسائل کا شکار ضرور ہوسکتا ہے۔