توہین عدالت ایکٹ قانون سازی میں آئینی شقوں کو نظر انداز کیا گیا چیف جسٹس

پارلیمنٹ میں قانون کو لانے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں،کوشش کررہے ہیں جمہوری نظام چلتا رہے


پارلیمنٹ میں قانون کو لانے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں،کوشش کررہے ہیں جمہوری نظام چلتا رہے فوٹو ایکسپریس

KARACHI: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اس قانون پربحث کے دوران نہ صرف آئینی شقوں کو نظراندازکیا گیا بلکہ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس قانون کو لانے کی کیا وجوہات ہیں،آئین نے ہم سب کو متحد رکھا ہوا ہے،مل جل کر جمہوری نظام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ،

برائیاں ساتھ ساتھ دور ہوتی رہیں گی۔جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا ہے کہ خود کو ملک کا مالک سمجھ بیٹھنے والے عوامی نمائندے دراصل عوامی خادم ہیں وہ عوام سے تنخواہ لیتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ ملک کے مالک ہیں، نمائندوں کو عوام کا مختارنامہ حاصل ہے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل204 کسی کو استثنٰی نہیں دیتا، ماتحت قانون کے ذریعے آئین کی شق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا،آئین کہتا ہے کہ کوئی شخص توہین عدالت کرے تو اسے سزا ہوگی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کوبھی مقدمے کی سماعت جاری رکھی ،فاضل چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کوئی نئی بات ہو تو بتائی جائیں،

پرانی باتیں نہ دہرائیں،درخواست گزار چوہدری امجد حسین کے وکیل چوہدری افراسیاب خان نے کہاکہ پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے توہین عدالت کی آئینی تعریف تبدیل نہیں کرسکتی، توہین عدالت پر آئین بہت واضح ہے اور آئین نے یہ موضوع پہلے ہی اپنا رکھا ہے عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، ہمارے آئین میں بنیادی ڈھانچے کا کوئی ذکر نہیں ، یہ صرف بنگلہ دیش میں ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عدلیہ آزاد ہو گئی ہے،آپ بنیادی ڈھانچے پر انحصار کیے بغیر بھی عدلیہ کی آزادی پر دلائل دے سکتے ہیں۔

جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ آمروں نے آئین کا حلیہ مسخ کیا، دستاویز کی اب بھی مرکزی اہمیت ہے۔ چوہدری افراسیاب ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ آئین کے کچھ حصے قانون سازی کی بلا روک ٹوک اجازت دیتے ہیں،کچھ حصوں میں قانون سازی کی محدود گنجائش جبکہ کچھ میں بالکل اجازت نہیں،توہین عدالت کا قانون اس حصے سے تعلق رکھتا ہے جہاں سادہ اکثریت سے قانون سازی نہیں ہوسکتی،۔

توہین عدالت کی تعریف آئین کے آرٹیکل 204میں ہے، اسے عام قانون کے ذریعے تبدیل نہیں کیا سکتا۔جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ آئین سازوں کے نزدیک توہین عدالت سے تحفظ اتنا مقدس ہے کہ سادہ اکثریت کے ذریعے اس کی تبدیلی کو روکا گیا۔افراسیاب کا کہنا تھا کہ صرف تاریخ میں تبدیلی کی بنیاد پر توہین عدالت کا نیا قانون کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں توہین عدالت کی تعریف کو دو تہائی اکثریت سے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ افراسیاب کا کہنا تھا کہ یہ آئین کے اہم نکات سے متعلق معاملہ ہے، دو تہائی اکثریت بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتی،

آئین میں توہین عدالت کے جرم کے اطلاق کے لیے ہر شخص کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، آئین سازوں نے اس میں عوامی عہدیدار کو کوئی استثنی نہیں دیا،آرٹیکل 248 کا استثنی صرف امور حکومت کو بلا رکاوٹ چلانے کے لیے ہے،نئے قانون میں اس آرٹیکل کے استثنی کا ذکر کر کے آرٹیکل 204 تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوا تو پھر یہ اقدام غیر آئینی ہو گا، اگر آئین ہر شخص کے خلاف کارروائی کا اختیار دیتا ہے تو عام قانون اسے کیسے روک سکتا ہے۔ افراسیاب نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ آئین کے نو گو ایریاز میں سے ہے جس میں مداخلت نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں توہین عدالت قانون پر دونوں اطراف سے اچھی بحث ہوئی، تشویش کی بات ہے کہ قانون سازی میں فہرست کے آئٹم 55کو پیش نظر نہیں رکھا گیا، اسی طرح نئے قانون کی ضرورت کے حوالے سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی،یہ پہلو بھی زیر بحث نہیں آیا کہ سادہ اکثریت سے قانون سازی آئین کو متاثر تو نہیں کر رہی۔ افراسیاب کہا کہ نیا قانون مخصوص اہداف کے حصول کے لیے بنایا گیا ہے، قانون میں جرم کی سزا کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن کسی قانون میں یہ نہیں لکھا کہ فلاں کو سزا نہیں ہوگی ۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ تو یہاں کہہ گئے ہیں

یہ مخصوص شخصیات کے لیے بنایا گیا قانون ہے،آپ کے خیال میں جو پاپڑ بیلے جا رہے ہیں وہ کسی خاص مقصد کے لیے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے جب آئین کے بنیادی نظریات پیش کرنا چاہے تو چیف جسٹس نے انہیں روک دیا اور ریمارکس دیے کہ یہ قصے کہانیوں کا وقت نہیں، چاہتے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ جمہوری نظام چلے، پارلیمانی بحث اور تقاریر بہت اچھی تھیں لیکن قانون سازی کے لیے آئین کے حوالے نہیں دیے گئے، ارکان پارلیمنٹ نے آئین کے تحت حلف لے رکھا ہے، قانون سازی کرتے وقت آئین کو مدنظر رکھنا چاہیے،

ہمیں نہیں پتہ لیکن نئے قانون سے متعلق کہاگیاکہ یہ کچھ شخصیات سے متعلق ہے، نئے توہین عدالت قانون کا موجودہ وزیراعظم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم صرف اپنی روایات کو ہی زندہ رکھیں تو توہین عدالت کے قانون کی ضرورت ہی نہیں ہے، اب اس ملک میں یہ رواج بن گیا ہے کہ ہر کام ڈنڈے سے ہی ہوگا۔بعد ازاں سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں