دہشت گردی کے خلاف عزم
آج کا کراچی سماجی و معاشی اعتبار سے اگرچہ پرامن ہے تاہم اس کی سیاسی بے چینی ختم نہیں ہوئی
اس بات سے بلاشبہ کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ کراچی کی سیاسی اور معاشی صورتحال ماضی کے مقابلہ میں کافی اطمینان بخش ہے اور ملکی و مقامی حلقوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی شہر قائد میں دہشتگردی کے خلاف کارروائی کو نہ صرف جنگ جیتنے سے تعبیر کیا گیا بلکہ قتل و غارت کے گراف گرنے کو سراہتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن پر مامور اہلکاروں، رینجرز اور پولیس کی کارکردگی کی بے حد تعریف کی۔ برطانوی جریدہ ''سپکٹیٹر''کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف شاندار فتح حاصل کی ۔
چنانچہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ عزم کہ قیادت کی تبدیلی سے پالیسی تبدیل نہیں ہو گی، کراچی میں دہشتگردوں کو دوبارہ سر اٹھانے نہیں دیں گے، کوئی بھی غلط فہمی نہ رہے، انھوں نے کہا کہ شہر میں قیام امن کے لیے کارروائیاں پوری قوت کے ساتھ جاری رہیں گی، پاک فوج تمام حکومتی اداروں، پولیس اور انتظامیہ سے مکمل تعاون جاری رکھے گی۔ درحقیقت شہر میں امن و امان کی مکمل بحالی سے جڑا ہوا ہے اور یہ شہریوں سے تجدید عہد کے مترادف ہے جو نہ صرف کراچی بلکہ ملک کی ترقی و استحکام سے بھی منسلک ہے۔
آرمی چیف کو گزشتہ روز اپنے دورہ کراچی کے دوران کور ہیڈکوارٹرز اور سندھ رینجرز ہیڈکوارٹرز میں امن و امان سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی اس کے بعد انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قبل ازیں کراچی پہنچنے پر کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔ انھوں نے اس موقع پر رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروںکی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں پر انھیں سراہا۔ انھوں نے کہا آپریشن کے نتیجے میں نہ صرف کراچی میں معمولات زندگی بحال ہوئے بلکہ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ وصولی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
آرمی چیف نے جوانوں اور آفیسرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ان کی جرأت اور بہادری کی وجہ سے شہر کو بڑی حدتک دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد سے نجات ملی ہے۔ جنرل باجوہ سے کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں پر مشتمل 40 رکنی وفد نے کور ہیڈکوارٹرز میں ملاقات کی جس میںکراچی کے مسائل اور موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران تاجر رہنماؤں نے آرمی چیف سے شکایت کی کہ شہر کے حالات تاجروں کے لیے سازگار نہیں، کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔
میڈیا کے مطابق حکومتی سطح پر تاجروں کی اس ملاقات پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے جو اس اعتبار سے بلا جواز ہے کہ یہی طریقہ تاجر برادری نے پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں بھی اختیار کیا تھا، شہر کی حالت مخدوش تھی، جرائم پیشہ عناصر اور سیاسی لبادے میں درجنوں مسلح گروپوں کی بھتہ شاہی سے تجارتی مراکز، صرافہ مارکیٹ، شاپنگ مالز اور شہری عاجز آچکے تھے چنانچہ دہشتگردوں، کالعدم تنظیموں، ٹارگٹ کلرز اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو روکنے کے لیے بالآخر وفاقی حکومت کو مداخلت کرنا پڑی اور 2013ء کو وزیراعظم نواز شریف نے کراچی آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی، اسی سال صرف کراچی میں 2,789 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تھے ۔
اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا، بینک ڈکیتیاں ہوئیں، لیاری میں گینگ وار کے ذریعے علاقے کے مکینوں پر قیامت ڈھائی گئی، کئی نوجوان اور ان کے گھر جلائے اور لوٹے گئے، شہر میں رہزنی، منی بسوں، کوچز، دکانوں، اسپتالوں، اسکولوں تک میں ڈکیتیاں کی گئیں، نائن ایم ایم پستول سے سیکڑوں شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، یہ سب حکومتوں کی بے حسی کی درد انگیز داستانوں کا شرم ناک باب ہے، یہی وہ لمحہ تھا جب پاک فوج حرکت میں آئی، رینجرز نے کراچی کو امن کی سوغات دی، رات دن ایک کر کے پولیس اور رینجرز نے ان طاقتور قاتلوں کو گرفتار کیا یا انھیں مقابلہ میں مار دیا جو شہریوں کی جان ومال، انسانیت، شرافت اور جمہوریت کے لیے خطرہ بن چکے تھے، مگر المیہ یہ ہے کہ ان عفریتوں کی پرورش بھی حکومتی قوتوں نے خود کی، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز بے نقاب کیے۔
یقیناً آج کا کراچی سماجی و معاشی اعتبار سے اگرچہ پرامن ہے تاہم اس کی سیاسی بے چینی ختم نہیں ہوئی، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے مابین کشمکش جاری ہے، جو کسی بھی وقت مہلک رخ اختیار کر سکتی ہے، سندھ حکومت تاجروں کی آرمی چیف سے ملاقات کے اسباب تلاش کرتے ہوئے اپنی گورننس اور سیکیورٹی پیراڈائم کے تناظر میں کوتاہی کا ازالہ کرے جب کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کو صد فیصد یقینی بنانا چاہیے تا کہ امن مستحکم ہو، صائب فیصلہ ہوا جس کے تحت رینجرز کی مدت میں توسیع کی گئی۔
پر امن کراچی بدستور خاموش آتش فشاں ہے، سندھ حکومت کے لیے شہر کی تقدیر بدلنے کا سنہری موقع ہے۔ اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رہنمائی کرنی چاہیے تا کہ کوئی قانون شکن اور دہشتگرد تنظیم سر نہ اٹھا سکے۔ لیکن اس کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ مفاہمانہ مکالمہ اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے اشتراک عمل ناگزیر ہے۔ یہ شہر کبھی عالم میں انتخاب تھا اور اب اسی اجڑے ہوئے شہر کی تعمیر و بحالی کے لیے ابھی بہت سا کام باقی ہے۔