اصل قید جسمانی نہیں ذہنی ہوتی ہے
’’اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ناکامیوں کی شرح کو دگنا کردو‘‘۔
ISLAMABAD:
افلاطون کہتا ہے کہ سچ ابدی ہوتا ہے۔ ناکامی کامیابی کی شاہراہ عظیم ہے۔ دنیا کی ایک بڑی کمپنی آئی بی ایم کے ٹام واٹسن سینئر کا کہنا ہے ''اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ناکامیوں کی شرح کو دگنا کردو''۔ اگر ہم دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی کہانیاں ہیں، تاہم ہم ناکامیوں کو نہیں دیکھتے، ہم صرف آخری نتیجے کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ شخص خوش نصیب ہے، یہ شخص ضرور درست وقت پر درست مقام پر پہنچا ہوگا، یہ شخص قسمت کا دھنی ہے۔
آئیے میں آپ کو ایک مشہور تاریخی قصہ سناتا ہوں۔یہ ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جو اکیس سال کی عمر میں کاروبار میں ناکام ہوگیا تھا، اس نے بائیس سال کی عمر میں انتخابات میں شکست کھائی، چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا، چھبیس سال کی عمر میں اس کی محبوبہ کا انتقال ہوگیا، ستائیس سال کی عمر میں وہ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوگیا، چونتیس سال کی عمر میں کانگریس کا انتخاب ہار گیا، وہ باون سال کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا۔ وہ شخص ابراہم لنکن تھا۔
کیا آپ لنکن کو ناکام آدمی کہیں گے؟ وہ میدان سے بھاگ سکتا تھا، شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرسکتا تھا، وہ دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اپنا سکتا تھا، لیکن بار بار شکست اور ناکامی لنکن کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہی تھی، وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے 10 دسمبر 1903 کے اداریے میں رائٹ برادرز کو بے وقوف قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہوا سے ہلکی ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اڑ سکے۔ اس کے ایک ہفتے بعد وہ اپنی تیار کردہ مشین کو اڑانے میں کامیاب ہوگئے۔
والٹ ڈزنی کو نوجوانی میں کارٹونسٹ کی حیثیت سے بے شمار مرتبہ اخباروں کے ایڈیٹروں نے رد کیا اور کہا کہ وہ کسی قابلیت کا مالک نہیں ہے۔ ہنری فورڈ اپنی تیار کردہ پہلی کار میں ریورس گیئر نصب کرنا بھول گیا تھا۔ عظیم سائنس دان ایڈیسن کی عمر جب چار سال تھی تو وہ ایک دن جب اسکول سے گھر پہنچا تو اس کی جیب میں ایک پرچہ تھا جس پر لکھا تھا ''آپ کا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ کچھ نہیں پڑھ سکتا، اسے اسکول سے نکال لیں''۔ کیا آپ ان لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہیں؟ انھوں نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ مسائل ہوتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔
1914 میں ایڈیسن کی عمر جب 64 سال تھی تو اس کی فیکٹری آگ لگنے کی وجہ سے تباہ ہوگئی، اسے انشورنس کی بہت تھوڑی رقم ملی، اس نے اپنی عمر کی کمائی کو جلتے دیکھ کر کہا تھا ''یہ تباہی بہت قیمتی ہے، اس میں ہماری ساری غلطیاں جل گئی ہیں، خداوند کا شکر ہے کہ ہم نئے سرے سے آغاز کرسکتے ہیں۔'' اس تباہی کے تین ہفتے بعد اس نے فونوگراف ایجاد کیا۔
ایک طرف ایڈیسن ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جلتے پاکستان کو دیکھ کر دہائیاں دے رہے ہیں کہ ہم تباہ ہوگئے ہیں، برباد ہوگئے، ہمارا سب کچھ ختم ہوگیا، اب ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم سے پہلے یہی منظر امریکا، یورپ، چین، روس اور دیگر کامیاب اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بھی دیکھ چکے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے جلتے ممالک کو دیکھ کر ہمارا نہیں بلکہ ایڈیسن کا رویہ اپنایا کہ خدا کا شکر ہے ہماری ساری غلطیاںجل گئی ہیں، اب ہم نئے سرے سے آغاز کرسکتے ہیں۔کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے اور ہمارے رویے میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں۔
انسانی ارتقا کی کہانی، انسانی شعور کے ارتقا کی کہانی ہے۔ پچھلے چند ہزار سال میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ شعور حاصل ہورہا ہے کہ وہ انسان ہیں، لیکن ادھورے انسان ہیں اور ادھورے انسان سے پورے انسان بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ نجانے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جانوروں اور انسانوں میں بنیادی فرق کیا ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب بہت سے دانشوروں، فلاسفروں اور ماہرین نفسیات نے دینے کی کوشش کی ہے کہ جانور جانتے ہیں، جب کہ انسان جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں۔
بالکل یہی بنیادی فرق دنیا کے ترقی یافتہ، خوشحال اور کامیاب لوگوں کے اور ہمارے رویے میں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کر پشن ہورہی ہے، لوٹ مار ہورہی ہے، جہالت اور غربت کی حکمرانی ہے، غنڈہ گردی، اقربا پروری کا بول بالا ہے، پانی، گیس، بجلی کی شدید قلت ہے، زندگی اجیرن بن چکی ہے، ملک کے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہیں، بدنظمی اور بدانتظامی کی خاک چاروں طرف اڑتی پھرتی ہے، ہر شخص ایک دوسرے کو کاٹ رہا ہے، زخمی کررہا ہے، ایک دوسرے کو نوچ رہا ہے، لیکن یہ جاننے کے باوجود ہر زیادتی اور ظلم کو چپ چاپ ہوتے دیکھ رہے ہیں، ہر دھتکار اور ذلت کو بغیر کچھ بولے سہے جارہے ہیں۔ طاقتوروں، امیروں اور بااختیاروں سے ہر وقت سہمے سہمے رہتے ہیں، ان کی گالیوں کا کبھی جواب نہیں دیتے، اپنے تمام حقوق سے خود دستبردار ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم میں اور جانوروں میں اب کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔
اس لیے اب ہم جانوروں کی طرح صرف جانتے ہیں لیکن جب آپ انسان ہوتے ہوئے جانور نہیں بنتے تو پھر آپ جاننے کے بعد تمام خرابیوں اور برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں، ان پر قابو پاتے ہیں، انھیں شکست سے دوچار کردیتے ہیں، اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہیں، اپنی خامیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں، اپنی بزدلی کو خودکشی پر مجبور کردیتے ہیں، ناکامیوں کو قتل کردیتے ہیں۔یاد رکھیں غلطیاں بار بار انسان نہیں کرتے، جانور کرتے ہیں۔
جب آپ اس فرق کو سمجھ لیں گے تو پھر آپ جانور نہیں رہیں گے، انسان بن جائیں گے اور آپ یہ جان لیں گے کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا نصیب اور قسمت آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے اور آپ میں حالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی بات آپ سے پہلے امریکا، برطانیہ، یورپ، چین، روس اور دیگر ترقی یافتہ خوشحال اور کامیاب ممالک کے لوگ جان چکے ہیں۔ ایک بات لکھ کر اپنے آئینے پر چپکا دیں کہ انسان کبھی ناکام نہیں ہوا کرتے، جانور ناکام ہوتے ہیں۔ اور اصل قید جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے۔