شہرقائد کا کوئی پرسان حال نہیں

باران رحمت برسنا شروع ہوا تو انتظامی نااہلی کے باعث یہی رحمت اہل وطن کے لیے زحمت بن رہی ہے


محمد عارف شاہ January 20, 2017

حیرانی کم اور افسوس زیادہ ہوتا ہے کہ 2 ہفتے قبل تک بارشیں نہ ہونے کی صورت میں وطن عزیز پر قحط سالی کے خدشات منڈلا رہے تھے اور جب باران رحمت برسنا شروع ہوا تو انتظامی نااہلی کے باعث یہی رحمت اہل وطن کے لیے زحمت بن رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ پہلی بار ہوا ہے بلکہ یہ موسم ہر سال آتا ہے اور ملک بھر کے شہریوں کے لیے بہت سے مسائل کا باعث بنتا ہے، لیکن حالیہ چند برسوں سے صورتحال زیادہ گمبھیر اور پریشان کن ہوئی ہے، بالخصوص کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی ودیگر بڑے شہروں میں شدید بارش ہوجائے تو معمولات زندگی درہم برہم ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں بھی یہی صورتحال ہے۔ ویسے تو ہر جگہ ہی ایک جیسی صورتحال ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔

آج احساس ہوتا ہے کہ جون ایلیا نے کس قدرکرب واذیت سے یہ الفاظ صفحہ قرطاس پر اتارے ہوں گے کہ ''ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں اس شہر نے اپنے ہونے کا جیسا بھگتان بھگتا ہے، ایسا بھگتان بھلا کس گروہ نے بھگتا ہوگا۔ یہ شہر اپنے ہونے کے جس عذاب میں مبتلا ہے، اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں، پر اس کا اندازہ لگانا اس ملک کی ہر بستی اور ہر شہر کا فرض ہے، یہ شہروں کا شہر ہے، یہ کسی ایک زبان بولنے والے گروہ کا شہر نہیں ہے، یہ تو برادریوں کی برادری کا شہر ہے۔''روشنیوں کا شہر کراچی، جسے کبھی عروس البلاد کا درجہ حاصل تھا، جو کبھی وطن عزیز کا دارالحکومت رہا تھا، جو آج بھی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی آخری آرام گاہ ہے۔

ماضی میں کبھی اس شہرکی ہر بات نرالی ہوا کرتی تھی، کراچی ایشیا کا خوبصورت شہر ہونے کا اعزاز رکھتا تھا، ایک وقت تھا جب اس شہرکی سڑکیں روزانہ کی بنیاد پر پانی سے دھوئی جاتی تھیں، صفائی وستھرائی اس شہر کا اوڑھنا بچھونا تھی، کیا کیا خوبیاں اس شہر کی گنوائیں، الغرض پورے ملک کا تنہا بوجھ اٹھاتا تھا، مگر ہائے محرومی قسمت کہ پہلے یہاں سے دارالحکومت کو راتوں رات ایک نئی سرزمین اسلام آباد منتقل کردیا گیا، صنعتی علاقے اور سونے پر سہاگہ سمندر جیسی نایاب نعمت ٹھکرا کر ایک ہزار میل دور دارالحکومت لے جانے میں کیا مصلحتیں تھیں، یہ آج تک اجاگر نہیں ہوسکیں۔

دارالحکومت کی منتقلی سے اس شہرکی رونقیں کم کرنا مقصد تھا یا پھر کراچی والوں کو سزا دینی تھی، کیونکہ حکمرانوں کے خلاف تمام سیاسی تحریکیں اسی پڑھے لکھے شہر سے شروع ہوا کرتی تھیں۔ خیر آفرین ہے اس شہرکے باسیوں پر جنھوں نے پاکستان کی خاطر اف تک نہیں کی اور اپنے آبائی حقوق سے خاموشی سے دستبردار ہوگئے، کیونکہ کراچی کے شہری اپنے شہرکے سمندرکی طرح ہی دل وجگر بھی رکھتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب اسی شہر کی شاہراہوں کو انسانی خون سے نہلایا جانے لگا، خون ریزی کے ہنرمندوں نے بڑی سفاکی سے اس شہر کی زندگی کو لتاڑا۔ ایک عرصے تک یہ شہر بموں کے حملے، خودکش حملہ آور کے خوف و دہشت، اسٹریٹ کرائمز، ڈکیتی کی وارداتیں، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، غیر ضروری ہڑتالوں اور کاروبار کی بندش سمیت بے شمار مسائل سے دوچار رہا۔ رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد یہ سلسلہ تقریباً موقوف ہوا، یہاں کے مکینوں نے سکھ کا سانس لیا، مگر شاید اہل کراچی کی زندگی سے لفظ سکون کھو کر رہ گیا ہے اور اب کئی عشروں تک بدامنی وغارت گری کی آگ میں جلنے والا بدنصیب شہر ناپرساں کراچی گڈ گورننس سے محرومی کے عذاب سے دوچار ہے۔

گزشتہ دنوں شہر قائدکراچی میں باران رحمت ایک بار پھر زحمت بن گئی، تبدیلی کے دعوے بارش کا پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا، کئی کئی فٹ جمع ہونے والے پانی سے سڑکیں تالاب بن گئیں، میئر سکھر کے دفتر سمیت اہم تجارتی مراکزکے اطراف میں بھی پانی ہی پانی تھا، چند پوش علاقوں کے سواکوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں بارش کا پانی نہیں تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ برسوں کی بدانتظامی، سیاسی مفاد پرستی، لسانی جھگڑوں اور کرپشن نے اس شہر بے مثال کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے، شہر میں صفائی وستھرائی نکاسی آب کا نظام چلانے اور تجاوزات ختم کرنے والی انتظامی مشینری زوال پذیر ہوچکی ہے۔ آبادی کے سیلاب نے شہری منصوبہ بندی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ایک طویل عرصے تک اس شہر کی ضرورتوں کے مطابق پانی، بجلی، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے منصوبوں سمیت انفرااسٹرکچر کے بڑے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا۔

دنیا کے ہر شہر کا ماسٹر پلان ہوتا ہے، لیکن اس شہر کے لیے کوئی ماسٹر پلان نہیں بنایا گیا، ماسٹر پلان بنانے کے لیے بھی اس بدقسمت شہر کے حقیقی اعدادوشمار موجود نہیں، کیونکہ مردم شماری نہیں کی گئی ہے۔ 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد وشمار پر انحصار کیا جارہا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے کوئی ڈیولپمنٹ وژن نہیں بنایا جاسکتا۔ کراچی کی آبادی قیام پاکستان کے وقت ڈھائی لاکھ بتائی جاتی ہے، جو اب ڈھائی کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے، آبادی کے 6 سے 8 فیصد سالانہ اضافے سے کراچی کی خوبصورتی بدصورتی میں تبدیل ہوگئی ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد اگرچہ کئی محکمے اور کئی معاملات میں صوبے زیادہ بااختیار ہوچکے ہیں مگر ان کے مقابلے میں بلدیاتی اداروں کے پاس وہ اختیارات آج بھی نہیں۔ برطانیہ اور امریکا میں صحت، بجلی اور پولیس کے محکمے بلدیاتی اداروں کے ماتحت کام کرتے ہیں بلکہ لندن میں اسکول کا نظام بھی بلدیاتی ادارے چلاتے ہیں مگر ہمارے ہاں کونسلرز کو حکومت کے ادارے اور محکمے کتنی عزت دیتے ہیں؟ اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سندھ حکومت صبح وشام وفاقی حکومت کے غاصبانہ رویے اورخودمختاری کے گیت گاتے نہیں تھکتی، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے وہ کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات کا لہو ضرور پیتی ہے، موجودہ بلدیاتی نظام کو سندھ کی حکومت اپنی سوچ وسمجھ کے مطابق ایسی ہیئت میں تبدیل کردیا ہے کہ یہ حقیقی معنوں میں بلدیاتی نظام نہیں۔ میئرکراچی وسیم اخترکا نالہ کناں ہونا بجا ہے، کیونکہ ان کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی فنڈز ہے۔

بلدیاتی نظام تو جیسے تیسے قائم کردیا گیا ہے لیکن وہ امور جو بلدیاتی حکومت کو سرانجام دینے تھے اب تک صوبائی حکومت کے پاس ہیں، جسے اپنے ہی اللے تللوں سے فرصت نہیں کہ شہر قائد کی بہتری کی جانب توجہ دے سکے۔ سندھ حکومت نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیںگے، پر عمل کرتے ہوئے نہ خود کام کررہی ہے اور نہ ہی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرکے بلدیاتی نمایندوں کو کام کرنے دے رہی ہے، ایسی صورتحال میں لاوارث شہر کراچی کا وارث کون ہے؟ سندھ کے حکمرانوں کا اجلاس دبئی میں ہوتا ہے۔

جب وہ دبئی سے واپس آتے ہیں تو دبئی بلدیہ کی تعریف کرتے ہیں، اس کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ بلدیہ کراچی کے ٹیکس کی آمدنی سندھ حکومت اپنے خزانے میں کیسے ڈال لیتی ہے۔ کراچی کا پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس سندھ حکومت کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کررہے ہیں اور کونسلر و لیڈران عوام کی گالیاں کھا رہے ہیں، کراچی کو اس وقت جاگیرداروں کے اینمل فارم کی طرح چلایا جارہا ہے، جس سے پاکستان کا یہ حسین وجمیل شہر نہ صرف تباہ ہورہا ہے بلکہ اجاڑا جارہا ہے۔

اس وقت کراچی کو مضبوط مقامی حکومت کی ضرورت ہے، جو وفاقی وصوبائی حکومت کا بوجھ شیئر کرسکے تاکہ عوام کو صحت وصفائی اور دیگر بلدیاتی مسائل سے نجات مل سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ شہرکراچی ملک کا اقتصادی ہب ہونے کے ساتھ ساتھ اہل وطن کی محبتوں اور چاہتوں کا گلدستہ ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں بسنے والا ہر شخص شہر قائد کے مسائل کا حل اور اس کو ایک نئے انداز کی زندگی سے آراستہ دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں ہاتھ سے نکل رہی ہے، معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔

لہٰذا حکومت کو بلدیاتی نمایندوں کو فی الفور اختیارات اور فنڈز فراہم کرنے چاہئیں تاکہ شہرکی سیاسی، معاشی ومعاشرتی صورتحال تبدیل ہوسکے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ان غلطیوں اورکوتاہیوں کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے کراچی جیسا شہر مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہنگامی بنیادوں پر انفرااسٹرکچر کی بحالی یقینی بناکر شہری اداروں کی کارکردگی بڑھائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں