دھول مٹی بن کر رہ جائیں گے
پاکستان کے لوگ بھی سر دھڑ کی بازی لگانے والے محنتی اور بے پناہ دماغی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں
ماضی کے وہ تمام اسباق جو کتابوں میں ہیں، جو تاریخ کا حصہ ہیں، جن سے قوموں نے سبق حاصل کیا، سیکھا اور اپنے حال پر نظر رکھی، ان قوموں نے ترقی کی۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھے کی متلاشی رہتی ہے، مگر ہلنا جلنا شرط ہے، اچھائی بھی تب ہی حاصل ہوتی ہے جب خواہش ہو اور حاصل کرنے کی لگن ہو۔ برائی سے انسان اسی وقت نکل سکتا ہے جب وہ خود برائی کو برائی محسوس کرے اور اس سے نکلنے کی کوشش کرے۔
جس کو خود پتا ہے کہ وہ برائی میں مبتلا ہے اور اس کو اچھا بھی سمجھیں، تو اس کو کیا کہیے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں تعلیم و تربیت کے لیے مناسب انتظامات تاحال نہیں ہوسکے ہیں اور تعلیم ہمارے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ کھانا پینا، یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ جب تک چھوٹے سے بڑے تک کے پاس مناسب تعلیم نہیں ہوگی وہ کسی بھی پیغام کو، کسی بھی سبق کو اس کی اصلی روح کے ساتھ نہیں سمجھ سکے گا، بھینس کے آگے بین بجاتے جائیں، کوئی فائدہ حاصل نہیں۔
یہی حال ہماری سوسائٹی کا ہے، دنیا بھر کی جدید ایجادات ہماری انگلیوں پر ہیں مگر جب تک ہمیں ان کا صحیح استعمال سکھایا نہیں جائے گا، اس کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جو ہونے چاہئیں، بلکہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا، جیساکہ ہو بھی رہا ہے۔
بدقسمتی ہماری یہی رہی ہے کہ پاکستان عالیشان اللہ کی نعمتوں سے بھرپور وہ سرزمین ہے جس میں سونا اگلنے کی صلاحیت موجود ہے، پاکستان کے لوگ بھی سر دھڑ کی بازی لگانے والے محنتی اور بے پناہ دماغی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں، مگر جس کو یہ لوگ ووٹ دے کر لے کر آئے ان ہی لوگوں نے صرف اپنی دکانیں چمکانے کا کام کیا، اپنی آنے والی سات نسلوں تک کے لیے یا شاید اس سے بھی آگے کے لیے دولت سمیٹنے کا کام کیا اور کروڑوں لوگوں کو جو ان کو لے کر آئے جن کی بدولت وہ عزت کے منصب پر فائز ہوئے ان کے لیے یہ لوگ شرمساری کا باعث بن گئے۔
لالچ خون کی روانی بن گیا، آنکھوں پر دولت کی ایسی پٹی چڑھی کہ کرسی سے اٹھنا محال ہوگیا، نسل در نسل دولت کے انبار لگ گئے، خاندان مستحکم اور ملک کمزور ہونے لگا، کیا اسی کا نام حب الوطنی ہے، کیا اسی کو وطن کی محبت کہتے ہیں۔
چند لوگ، چند خاندان کیا کروڑوں کی زندگیوں پر بھاری ہوسکتے ہیں؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا ہے، دنیا میں کچھ بھی انسان کرلے، کتنا ہی شاطر اور کتنا ہی اسمارٹ کہلائے، وہ ذرہ برابر بھی اللہ کے قانون کو ہلا نہیں سکتا ہے، بدلنا تو دور کی بات ہے۔ چند لوگوں کی تجوریاں آخر کب تک بھری رہ سکتی ہیں، ہزاروں، کروڑوں لوگ آخر کب تک صبر کا دامن تھام کر چل سکتے ہیں، آج ایک عمران خان ہے، کل نہ جانے کتنے عمران خان ہوں گے۔
کے پی کے میں تعلیم بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے، نمل یونیورسٹی آکسفورڈ کی ڈگریاں دے رہی ہے۔ جب یہ سیکڑوں کی تعداد میں کھلی آنکھوں والے، کھلے ذہنوں والے تعلیم یافتہ لوگ فرنٹ پر ہوں گے اور حساب کتاب کا رجسٹر کھلے گا تو کیا خبر کتنے قارون کے خزانوں کو شکست فاش ہوگی اور کتنے فرعون عبرت ناک بنیں گے۔ انسان کو اپنے نصیب پر ایمان ہو تو وہ کبھی حرام کی طرف نہ جائے، جب نصیب میں روٹی ایک ہی ہے تو ایک ہی ملے گی، آپ لوٹیں گے، چھینیں گے تو ایک روٹی کے بعد حلق سے دوسری انڈیلنا مشکل ہوگا۔
اگر آپ نے اس مشکل کو بھی آسان کرلیا تو آہستہ آہستہ یہ زنبیل بڑھتی ہی جائے گی اور انجام وہی ہوگا جو ہم سے پہلوں کا تھا۔شہریوں کی بنیادی ضروریات ان کی پہنچ سے دور کردینا، ان کی آسان زندگی کو مشکل بنانا، نئے نئے نظام کو متعارف کرانا اور اسے اسمارٹ زندگی کا نام دینا، بزرگوں، خواتین، بچوں، تمام ہی شہریوں کو ٹیکسوں کی نذر کرنا، اور اپنے آپ کو زیادہ سے چالاک سمجھ و بوجھ کے ساتھ عوام کو رگڑا لگانا، چاہے وہ دنیا کے بہترین کنسلٹنٹ کے مشوروں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، بہت زیادہ دن چلنے والا نہیں۔ پاکستان کیونکہ ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں رہنے والے بھی زیادہ تر مسلمان، اللہ کے قانون کو ماننے والے، مشکلات میں استغفار اور آیت کریمہ کا ورد کرنے والے، چھوٹے سے لے کر بڑے بڑے اجتماعات میں اللہ ہو اور لا الہ الااللہ کا ورد کرنے والے، بھلا کیسے زیادہ دیر تک شکست کھا سکتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں نے اپنا خون دیا، رشتے دیے، دولت و جائیداد قربان کی اور یہ ملک حاصل کیا، اس تھوڑی مقدار سے اب ہم کہیں زیادہ ہوگئے ہیں، دلوں میں ایمان بھی پختہ ہے اور امام اور شیخ بھی ایمان سے مالا مال ہے۔
پھر ہم چند بدبختوں کے ہاتھوں میں مجبور کیوں۔ اللہ ہم سب کو دکھا رہا ہے، سکھا رہا ہے کہ کیسے یورپ اور امریکا ہماری روایات اور ہمارے نبیؐ کو امین اور صادق مانتا ہے، کیسے بے ایمانی کو، چوری کو، جھوٹ کو برا سمجھتا ہے اور اگر ان کا صدر یا وزیراعظم کسی ایک غلطی میں بھی پکڑا جاتا ہے تو اس کو معافی نہیں۔ فوراً عہدہ چھوڑے، قوم سے معافی مانگے اور گھر جائے کہ یہی بہترین عمل ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔ ہم تو ان شاندار لوگوں میں سے ہیں جن کے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رہے، جن کی خلافت، جن کے قانون پوری دنیا کے لیے مثل راہ ہیں، یورپ اور امریکا سمیت کتنے ممالک حضرت عمرؓ کے دور کو اور ان کی سمجھ بوجھ کو بہترین مانتے ہیں۔
اور ہم 2017 میں اپنے آپ کو زیادہ چالاک اور ہوشیار سمجھ رہے ہیں، اور یہ ایسی غلط فہمی ہے جس کا انجام بالکل اچھا نہیں ہوسکتا، چاہے ہم اور آپ کچھ بھی کرلیں مگر دن کو رات اور رات کو دن کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، زندگی دینا، موت دینا اور رزق دینا یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا کام ہے، جن انسانوں نے گردن اکڑائی اسی پر برائی آئی، جس ملک میں ماہ رمضان کو اللہ کا مہینہ سمجھا جائے، عبادتوں پر زور کیا جائے، پورا سال نہ سہی اسی مہینے مساجد بھری بھری ہوجائیں، 10 دن کے لیے لوگ دنیا چھوڑ کر مساجد میں اعتکاف کرنے، جہاں نوجوان نسل داڑھی کے ساتھ نظر آئے ایسے لوگوں سے بے امیدی نہ رکھی جائے کہ جذبے صادق ہیں، ایمان پختہ ہے تو پھر کچھ دیر ہی سہی مگر ہوگا وہی جو اللہ کا حکم ہے۔
جس نے جمع کیا، تہہ خانے بنائے، حق مارا، لوٹ مار کی، وہی بے بسی کی تصویر نظر آئے، ان کا آخر ہمیشہ عبرت ناک رہا۔ جنھوں نے بانٹا، حقوق العباد ادا کیے، غرور اور تکبر سے دور رہے، وہی پھلتے رہے، وہی پاکستان کے پرچموں میں دفنائے گئے۔بے شک ہم سب کو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے اپنے اعمالوں کے ساتھ جانا ہے، تمام جائیداد، گاڑیاں، ہیرے جواہرات سب کا سب یہیں رہ جانا ہے، سفید کفن اور ایک گہرا گڑھا، منزل آخر۔ ضد نہ کیجیے مان لیجیے اللہ کے احکام، بندوں کے حقوق کہ اللہ کہتا ہے کہ حقوق العباد میں ظلم کرنے والے کبھی بھی اپنے انجام سے نہیں بچ سکے گا۔ یہ بہترین لوگ اور بہترین قوم ہے۔ اس کو سنوارنا، مضبوط کرنا اور تعلیم اور علم سے روشناس کرنا ہے، فرض ہے ان تمام لوگوں پر جن کو یہ عوام اپنے ووٹ دے کر بھروسہ کرکے لاتی ہے۔ مت توڑیے ان کے بھروسے کو، ان کے مان کو، ان کی امیدوں کو، کہ یہ تو اپنی منزل پا ہی لیں گے مگر مان اور بھروسہ تو آنے والے دھول مٹی بن کر رہ جائیں گے۔
جس کو خود پتا ہے کہ وہ برائی میں مبتلا ہے اور اس کو اچھا بھی سمجھیں، تو اس کو کیا کہیے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں تعلیم و تربیت کے لیے مناسب انتظامات تاحال نہیں ہوسکے ہیں اور تعلیم ہمارے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ کھانا پینا، یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ جب تک چھوٹے سے بڑے تک کے پاس مناسب تعلیم نہیں ہوگی وہ کسی بھی پیغام کو، کسی بھی سبق کو اس کی اصلی روح کے ساتھ نہیں سمجھ سکے گا، بھینس کے آگے بین بجاتے جائیں، کوئی فائدہ حاصل نہیں۔
یہی حال ہماری سوسائٹی کا ہے، دنیا بھر کی جدید ایجادات ہماری انگلیوں پر ہیں مگر جب تک ہمیں ان کا صحیح استعمال سکھایا نہیں جائے گا، اس کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جو ہونے چاہئیں، بلکہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا، جیساکہ ہو بھی رہا ہے۔
بدقسمتی ہماری یہی رہی ہے کہ پاکستان عالیشان اللہ کی نعمتوں سے بھرپور وہ سرزمین ہے جس میں سونا اگلنے کی صلاحیت موجود ہے، پاکستان کے لوگ بھی سر دھڑ کی بازی لگانے والے محنتی اور بے پناہ دماغی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں، مگر جس کو یہ لوگ ووٹ دے کر لے کر آئے ان ہی لوگوں نے صرف اپنی دکانیں چمکانے کا کام کیا، اپنی آنے والی سات نسلوں تک کے لیے یا شاید اس سے بھی آگے کے لیے دولت سمیٹنے کا کام کیا اور کروڑوں لوگوں کو جو ان کو لے کر آئے جن کی بدولت وہ عزت کے منصب پر فائز ہوئے ان کے لیے یہ لوگ شرمساری کا باعث بن گئے۔
لالچ خون کی روانی بن گیا، آنکھوں پر دولت کی ایسی پٹی چڑھی کہ کرسی سے اٹھنا محال ہوگیا، نسل در نسل دولت کے انبار لگ گئے، خاندان مستحکم اور ملک کمزور ہونے لگا، کیا اسی کا نام حب الوطنی ہے، کیا اسی کو وطن کی محبت کہتے ہیں۔
چند لوگ، چند خاندان کیا کروڑوں کی زندگیوں پر بھاری ہوسکتے ہیں؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا ہے، دنیا میں کچھ بھی انسان کرلے، کتنا ہی شاطر اور کتنا ہی اسمارٹ کہلائے، وہ ذرہ برابر بھی اللہ کے قانون کو ہلا نہیں سکتا ہے، بدلنا تو دور کی بات ہے۔ چند لوگوں کی تجوریاں آخر کب تک بھری رہ سکتی ہیں، ہزاروں، کروڑوں لوگ آخر کب تک صبر کا دامن تھام کر چل سکتے ہیں، آج ایک عمران خان ہے، کل نہ جانے کتنے عمران خان ہوں گے۔
کے پی کے میں تعلیم بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے، نمل یونیورسٹی آکسفورڈ کی ڈگریاں دے رہی ہے۔ جب یہ سیکڑوں کی تعداد میں کھلی آنکھوں والے، کھلے ذہنوں والے تعلیم یافتہ لوگ فرنٹ پر ہوں گے اور حساب کتاب کا رجسٹر کھلے گا تو کیا خبر کتنے قارون کے خزانوں کو شکست فاش ہوگی اور کتنے فرعون عبرت ناک بنیں گے۔ انسان کو اپنے نصیب پر ایمان ہو تو وہ کبھی حرام کی طرف نہ جائے، جب نصیب میں روٹی ایک ہی ہے تو ایک ہی ملے گی، آپ لوٹیں گے، چھینیں گے تو ایک روٹی کے بعد حلق سے دوسری انڈیلنا مشکل ہوگا۔
اگر آپ نے اس مشکل کو بھی آسان کرلیا تو آہستہ آہستہ یہ زنبیل بڑھتی ہی جائے گی اور انجام وہی ہوگا جو ہم سے پہلوں کا تھا۔شہریوں کی بنیادی ضروریات ان کی پہنچ سے دور کردینا، ان کی آسان زندگی کو مشکل بنانا، نئے نئے نظام کو متعارف کرانا اور اسے اسمارٹ زندگی کا نام دینا، بزرگوں، خواتین، بچوں، تمام ہی شہریوں کو ٹیکسوں کی نذر کرنا، اور اپنے آپ کو زیادہ سے چالاک سمجھ و بوجھ کے ساتھ عوام کو رگڑا لگانا، چاہے وہ دنیا کے بہترین کنسلٹنٹ کے مشوروں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، بہت زیادہ دن چلنے والا نہیں۔ پاکستان کیونکہ ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں رہنے والے بھی زیادہ تر مسلمان، اللہ کے قانون کو ماننے والے، مشکلات میں استغفار اور آیت کریمہ کا ورد کرنے والے، چھوٹے سے لے کر بڑے بڑے اجتماعات میں اللہ ہو اور لا الہ الااللہ کا ورد کرنے والے، بھلا کیسے زیادہ دیر تک شکست کھا سکتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں نے اپنا خون دیا، رشتے دیے، دولت و جائیداد قربان کی اور یہ ملک حاصل کیا، اس تھوڑی مقدار سے اب ہم کہیں زیادہ ہوگئے ہیں، دلوں میں ایمان بھی پختہ ہے اور امام اور شیخ بھی ایمان سے مالا مال ہے۔
پھر ہم چند بدبختوں کے ہاتھوں میں مجبور کیوں۔ اللہ ہم سب کو دکھا رہا ہے، سکھا رہا ہے کہ کیسے یورپ اور امریکا ہماری روایات اور ہمارے نبیؐ کو امین اور صادق مانتا ہے، کیسے بے ایمانی کو، چوری کو، جھوٹ کو برا سمجھتا ہے اور اگر ان کا صدر یا وزیراعظم کسی ایک غلطی میں بھی پکڑا جاتا ہے تو اس کو معافی نہیں۔ فوراً عہدہ چھوڑے، قوم سے معافی مانگے اور گھر جائے کہ یہی بہترین عمل ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔ ہم تو ان شاندار لوگوں میں سے ہیں جن کے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رہے، جن کی خلافت، جن کے قانون پوری دنیا کے لیے مثل راہ ہیں، یورپ اور امریکا سمیت کتنے ممالک حضرت عمرؓ کے دور کو اور ان کی سمجھ بوجھ کو بہترین مانتے ہیں۔
اور ہم 2017 میں اپنے آپ کو زیادہ چالاک اور ہوشیار سمجھ رہے ہیں، اور یہ ایسی غلط فہمی ہے جس کا انجام بالکل اچھا نہیں ہوسکتا، چاہے ہم اور آپ کچھ بھی کرلیں مگر دن کو رات اور رات کو دن کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، زندگی دینا، موت دینا اور رزق دینا یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا کام ہے، جن انسانوں نے گردن اکڑائی اسی پر برائی آئی، جس ملک میں ماہ رمضان کو اللہ کا مہینہ سمجھا جائے، عبادتوں پر زور کیا جائے، پورا سال نہ سہی اسی مہینے مساجد بھری بھری ہوجائیں، 10 دن کے لیے لوگ دنیا چھوڑ کر مساجد میں اعتکاف کرنے، جہاں نوجوان نسل داڑھی کے ساتھ نظر آئے ایسے لوگوں سے بے امیدی نہ رکھی جائے کہ جذبے صادق ہیں، ایمان پختہ ہے تو پھر کچھ دیر ہی سہی مگر ہوگا وہی جو اللہ کا حکم ہے۔
جس نے جمع کیا، تہہ خانے بنائے، حق مارا، لوٹ مار کی، وہی بے بسی کی تصویر نظر آئے، ان کا آخر ہمیشہ عبرت ناک رہا۔ جنھوں نے بانٹا، حقوق العباد ادا کیے، غرور اور تکبر سے دور رہے، وہی پھلتے رہے، وہی پاکستان کے پرچموں میں دفنائے گئے۔بے شک ہم سب کو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے اپنے اعمالوں کے ساتھ جانا ہے، تمام جائیداد، گاڑیاں، ہیرے جواہرات سب کا سب یہیں رہ جانا ہے، سفید کفن اور ایک گہرا گڑھا، منزل آخر۔ ضد نہ کیجیے مان لیجیے اللہ کے احکام، بندوں کے حقوق کہ اللہ کہتا ہے کہ حقوق العباد میں ظلم کرنے والے کبھی بھی اپنے انجام سے نہیں بچ سکے گا۔ یہ بہترین لوگ اور بہترین قوم ہے۔ اس کو سنوارنا، مضبوط کرنا اور تعلیم اور علم سے روشناس کرنا ہے، فرض ہے ان تمام لوگوں پر جن کو یہ عوام اپنے ووٹ دے کر بھروسہ کرکے لاتی ہے۔ مت توڑیے ان کے بھروسے کو، ان کے مان کو، ان کی امیدوں کو، کہ یہ تو اپنی منزل پا ہی لیں گے مگر مان اور بھروسہ تو آنے والے دھول مٹی بن کر رہ جائیں گے۔