آپ کو کس نے روکا ہے
وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے کے ترقیاتی ، مالی اور انتظامی معاملات کو بذات خود مانیٹر کرتے ہیں
حال ہی میں کراچی جانے کا اتفاق ہوا، شہر کو دیکھ کر ایسا لگا کہ شاید جنگل نما کسی شہر میں آگیا ہوں۔ ہر جگہ وحشت کوفت اور بے بسی نظر آئی۔ ایک کزن کو بولا کہ یار تمہارا شہر تو بہت گندا ہو گیا ہے ، کیا بات ہے کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے روایتی کچرا کلچر شہروں سے بھی زیادہ شہر کراچی گندہ لگ رہا ہے ۔ تو وہ بھائی صاحب بولے کہ تم لندن سے آئے ہو اس لیے لگ رہا ہوگا ۔ (معذرت کے ساتھ ) یعنی کراچی کے شہری گند اور کوڑے سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ ان کو گند اب کراچی کا لازمی حصہ لگنے لگا ہے ۔
میں نے جواب دیا جناب فی الحال تو لندن سے نہیں لاہور سے آیا ہوں، جہاں آجکل رات کو سڑکیں دھلتی ہیں ۔ کزن صاحب کہنے لگے ہاں تو کراچی کاسارا ریونیو ، سارا پیسہ وہاں ہی لگ رہا ہے ۔ ہم بھی خاموش نہ رہ سکے اور ان کو بولا کہ قبلہ لاکھ سیاسی اختلافات ہونے چاہئیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے کے ترقیاتی ، مالی اور انتظامی معاملات کو بذات خود مانیٹر کرتے ہیں ، ان معاملات میں شوق کی حد تک ''Interest'' لیتے ہیں ۔ محنت سے کام کرتے ہیں ۔ آخر سندھ کے وزیر اعلیٰ کو کام کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ دلچسپی اور دلجمعی سے کس نے روکا ہے ۔
یہ میں نہیں کہہ رہا کزن صاحب ! عدالت عالیہ کے آنریبل ججز کے ریمارکس ہیں کہ ڈائن بھی 7گھر چھوڑ کر بچوں کو کھاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگر پنجاب کا وزیر اعلیٰ اچھے کام کر رہا ہے تو یہ اچھائی ہے کوئی برائی تو نہیں ۔ جہاں تک پیسوں کی بات ہے تو پورے پاکستان سے پیسہ جمع ہوتا ہے ، پھر اس کے اعداد وشمار بنتے ہیں ، دفاعی اور وفاقی سطح کے ملازمین کے اخراجات نکال کر NFCایوارڈ کے تحت تمام صوبوں اور انتظامی یونٹس کو برابری کی سطح (جو آئین میں درج ہے ) پر تقسیم کر دیے جاتے ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی صوبے پر لگاتا ہے اور کوئی کھا جاتا ہے ۔
میں نے یہ بھی کہا کہ کزن بھائی اگر اختلاف صرف اسی بنیاد پر رکھنا ہے کہ کراچی کیا پیسے دیتا ہے سندھ سے پاکستان کو کتنا پیسہ پہنچتا ہے تو دوسرے صوبے بھی تو اللہ کی کسی نہ کسی نعمت پر بند باندھ سکتے ہیں ۔ مگر نہیں ، ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی ہونی چاہیئے ۔ پاکستان سب کا ہے سب شہر پاکستانیوں کے ہیں ۔ ہمیں ذہنوں سے تعصب کو نکالنا ہوگا ۔ آگے چل کر کزن نے پوچھا آپ کیا سمجھتے ہیں کیا یہ غلط نہیں کہ اختیارات کے معاملے میں کراچی کو محروم رکھا جاتا ہے ۔
اختیارات شہری سطح کے ہوں یا صوبائی سطح کے ، محروم تو رکھا جا رہا ہے نا؟ میں نے کہا کہ کسی حد تک آپ کی بات درست ہے ۔ مگر اس کے لیے بھی آپ کو پنجاب کی ترقی کو گھورنے کے بجائے اس کی ترقی پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ لاہور میں سڑکیں کیسے دھلتی ہیں ، اور وہ ایسے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت انسانی آزادی اور عوامی ترقی کے تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ کو آخر کس نے روکا ہے ؟ کہ وہ کام نہ کریں ۔
سندھ کی صوبائی حکمران جماعت کو ترجیحات بدلنے کی ضرورت تھی انھوں نے وزیر اعلیٰ ہی بدل دیا۔ آنے والے نئے نویلے وزیر اعلیٰ نے شروع شروع میں جوش دکھایا کہ کچرا اُٹھاؤ تجاوزات ہٹاؤ وغیرہ وغیرہ مگر صاحب کو بھی آئے ہوئے 4/6مہینے ہوگئے مگر تبدیلی کا ایک نکتہ تک نظر نہیں آرہا ۔ اور تو اور مصطفی کمال اور نعمت اللہ خان کے دور میں ہونے والے کاموں کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔ پھر میں نے کہا کہ آگے سنئیے سندھ کی صوبائی حکمراں جماعت نے ہی یہ 18ویں ترمیم کا سہرا باندھا ہوا ہے کہ صوبائی خود مختاری لازمی چیز ہے تو انھی سے تو پوچھ رہا ہوں کہ ''آپ کو کس نے روکا ہے ؟''
قارئین کرام ! کراچی کے بارے میں ، میں نے کہا کہ وحشت کوفت اور بے بسی نظر آئی ۔ آپ یہ دیکھئے کہ جگہ جگہ کچروں کے ڈھیر غلاظت بدبو تعفن سڑکوں کا ایسا حال لگتا ہے کہ جیسے صدیوں پہلے بنائی گئی تھیں ۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ کراچی کو کچراچی بنانے میں آج کی اس تباہی میں خود کراچی کے باسیوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ حکومتیں تجاوزات کے خلاف مہم شروع بھی کرتی ہیں ، سڑکوں پر سے ٹریفک جام کے بھوت کو ختم کرنے کے لیے مارکیٹوں پر سے پتھارے اور اسٹالز وغیرہ بھی ہٹائے جاتے ہیں مگر اہلیان ِ کراچی پھر سے اسی ڈگر پر چلے جاتے ہیں ۔ماناجا سکتا ہے کہ اس طرح کے دیگر مسائل پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ہیں لیکن کراچی والوں کو تو اپنے اس دعوے کا ''پاس'' رکھنا چاہیئے کہ کراچی پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے ۔ مگر نہیں صاحب گندگی اور کچروں نے ثابت کچھ اور ہی کر نا ہے اور کچھ اور ہی ثابت ہو رہا ہے کہ سارا معاملہ اختیارات کا نہیں دال میں کچھ اور ہی کالا ہے ۔
میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے سوال کر نا چاہوں گا کہ سائیں کراچی سے لے کر کشمور تک گزشتہ آٹھ سالوں کے حساب سے انسانی ترقی کی کونسی اعلیٰ مثال آپ اگلے 2018کے الیکشن میں رکھنا چاہیں گے ۔ صرف کراچی ہی نہیں شکار پور جیکب آباد، میر پور خاص ،ٹھٹھہ، حیدرآباد اور آپ کا سیاسی دارالخلافہ لاڑکانہ ہڑپہ ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ میرے ذرایع یہ بتاتے ہیں کہ گاڑیوں کے لیئے سڑک نہیں ، کھیلنے کو گراؤنڈز نہیں ، سیر کے لیے پارکس نہیں ، پڑھنے کو اچھے اسکول کالجز نہیں ، شفایابی کے لیے اچھے اسپتال نہیں ، پینے کو صاف پانی نہیں لیکن ووٹ آج بھی آپکا زندہ ہے ۔ سائیں کچھ کیجیے خالی خولی باتوں سے ، میڈیا کو سڑکوں پر لیجا کر ویڈیوز بنوانے سے اور اسمبلیوں میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے دکھانے سے کچھ نہیں ہونا عملاً لوگ بے حال ہیں بد حال ہیں برے حال ہیں۔
پاکستان کے بہت سارے وفاقی ادارے کراچی اور سندھ سے ہی شرو ع ہو تے ہیں ۔ ریلوے ، شپنگ ، ڈاک کا محکمہ اور دیگر وفاقی ادارے شروع کراچی سے ہی ہوتے ہیں وفاقی حکومت کو ان کے وسیلے سے کراچی کا خاص خیال رکھنا ہوگا ۔ آپ جو آیندہ سندھ سے بھی منتخب ہو کر آنے کی اُمید کر رہے ہیں ،اس کے لیے عملاً کچھ کیجیے ۔
وفاقی بجٹ اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات سے کراچی کے کچرے اور سڑکوں کی تعمیر کے مسائل حل کروا دیجیے ۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کراچی انسانوں کے مابین ہم آہنگی کا ایک باغ ہے یہاں ہر طرح کی قومیت اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں ۔ سرائیکی، پختون پنجابی ہزار وال سندھی، بلوچی ،کشمیری، گلگتی ( اور بھی بہت لوگ ہیں ) ان سب نے کراچی کو اپنا معاشی حب بنائے رکھا ہوا ہے ، تو ہم سب کو بھی چاہیئے کہ مل کر کراچی کی خدمت بھی کریں کراچی کو خوبصورت بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ ہر ایک کو چاہیئے کہ صفائی کا تجاوزات کا اور امن و امان کا خاص خیال رکھے ۔ اسی میں کراچی کی، سندھ کی، پاکستان کی، ہم سب کی بقاء ہے ۔ آئیے کہ گیٹ وے آف پاکستان کو خوبصورت بنانے میں حکومتوں کو اپنا اپنا تعاون پیش کریں ۔ سوال اہلِ کراچی سے بھی ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے کراچی کی ہی خدمت سے ''آپ کو کس نے روکا ہے ''
میں نے جواب دیا جناب فی الحال تو لندن سے نہیں لاہور سے آیا ہوں، جہاں آجکل رات کو سڑکیں دھلتی ہیں ۔ کزن صاحب کہنے لگے ہاں تو کراچی کاسارا ریونیو ، سارا پیسہ وہاں ہی لگ رہا ہے ۔ ہم بھی خاموش نہ رہ سکے اور ان کو بولا کہ قبلہ لاکھ سیاسی اختلافات ہونے چاہئیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے کے ترقیاتی ، مالی اور انتظامی معاملات کو بذات خود مانیٹر کرتے ہیں ، ان معاملات میں شوق کی حد تک ''Interest'' لیتے ہیں ۔ محنت سے کام کرتے ہیں ۔ آخر سندھ کے وزیر اعلیٰ کو کام کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ دلچسپی اور دلجمعی سے کس نے روکا ہے ۔
یہ میں نہیں کہہ رہا کزن صاحب ! عدالت عالیہ کے آنریبل ججز کے ریمارکس ہیں کہ ڈائن بھی 7گھر چھوڑ کر بچوں کو کھاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگر پنجاب کا وزیر اعلیٰ اچھے کام کر رہا ہے تو یہ اچھائی ہے کوئی برائی تو نہیں ۔ جہاں تک پیسوں کی بات ہے تو پورے پاکستان سے پیسہ جمع ہوتا ہے ، پھر اس کے اعداد وشمار بنتے ہیں ، دفاعی اور وفاقی سطح کے ملازمین کے اخراجات نکال کر NFCایوارڈ کے تحت تمام صوبوں اور انتظامی یونٹس کو برابری کی سطح (جو آئین میں درج ہے ) پر تقسیم کر دیے جاتے ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی صوبے پر لگاتا ہے اور کوئی کھا جاتا ہے ۔
میں نے یہ بھی کہا کہ کزن بھائی اگر اختلاف صرف اسی بنیاد پر رکھنا ہے کہ کراچی کیا پیسے دیتا ہے سندھ سے پاکستان کو کتنا پیسہ پہنچتا ہے تو دوسرے صوبے بھی تو اللہ کی کسی نہ کسی نعمت پر بند باندھ سکتے ہیں ۔ مگر نہیں ، ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی ہونی چاہیئے ۔ پاکستان سب کا ہے سب شہر پاکستانیوں کے ہیں ۔ ہمیں ذہنوں سے تعصب کو نکالنا ہوگا ۔ آگے چل کر کزن نے پوچھا آپ کیا سمجھتے ہیں کیا یہ غلط نہیں کہ اختیارات کے معاملے میں کراچی کو محروم رکھا جاتا ہے ۔
اختیارات شہری سطح کے ہوں یا صوبائی سطح کے ، محروم تو رکھا جا رہا ہے نا؟ میں نے کہا کہ کسی حد تک آپ کی بات درست ہے ۔ مگر اس کے لیے بھی آپ کو پنجاب کی ترقی کو گھورنے کے بجائے اس کی ترقی پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ لاہور میں سڑکیں کیسے دھلتی ہیں ، اور وہ ایسے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت انسانی آزادی اور عوامی ترقی کے تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ کو آخر کس نے روکا ہے ؟ کہ وہ کام نہ کریں ۔
سندھ کی صوبائی حکمران جماعت کو ترجیحات بدلنے کی ضرورت تھی انھوں نے وزیر اعلیٰ ہی بدل دیا۔ آنے والے نئے نویلے وزیر اعلیٰ نے شروع شروع میں جوش دکھایا کہ کچرا اُٹھاؤ تجاوزات ہٹاؤ وغیرہ وغیرہ مگر صاحب کو بھی آئے ہوئے 4/6مہینے ہوگئے مگر تبدیلی کا ایک نکتہ تک نظر نہیں آرہا ۔ اور تو اور مصطفی کمال اور نعمت اللہ خان کے دور میں ہونے والے کاموں کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔ پھر میں نے کہا کہ آگے سنئیے سندھ کی صوبائی حکمراں جماعت نے ہی یہ 18ویں ترمیم کا سہرا باندھا ہوا ہے کہ صوبائی خود مختاری لازمی چیز ہے تو انھی سے تو پوچھ رہا ہوں کہ ''آپ کو کس نے روکا ہے ؟''
قارئین کرام ! کراچی کے بارے میں ، میں نے کہا کہ وحشت کوفت اور بے بسی نظر آئی ۔ آپ یہ دیکھئے کہ جگہ جگہ کچروں کے ڈھیر غلاظت بدبو تعفن سڑکوں کا ایسا حال لگتا ہے کہ جیسے صدیوں پہلے بنائی گئی تھیں ۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ کراچی کو کچراچی بنانے میں آج کی اس تباہی میں خود کراچی کے باسیوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ حکومتیں تجاوزات کے خلاف مہم شروع بھی کرتی ہیں ، سڑکوں پر سے ٹریفک جام کے بھوت کو ختم کرنے کے لیے مارکیٹوں پر سے پتھارے اور اسٹالز وغیرہ بھی ہٹائے جاتے ہیں مگر اہلیان ِ کراچی پھر سے اسی ڈگر پر چلے جاتے ہیں ۔ماناجا سکتا ہے کہ اس طرح کے دیگر مسائل پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ہیں لیکن کراچی والوں کو تو اپنے اس دعوے کا ''پاس'' رکھنا چاہیئے کہ کراچی پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے ۔ مگر نہیں صاحب گندگی اور کچروں نے ثابت کچھ اور ہی کر نا ہے اور کچھ اور ہی ثابت ہو رہا ہے کہ سارا معاملہ اختیارات کا نہیں دال میں کچھ اور ہی کالا ہے ۔
میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے سوال کر نا چاہوں گا کہ سائیں کراچی سے لے کر کشمور تک گزشتہ آٹھ سالوں کے حساب سے انسانی ترقی کی کونسی اعلیٰ مثال آپ اگلے 2018کے الیکشن میں رکھنا چاہیں گے ۔ صرف کراچی ہی نہیں شکار پور جیکب آباد، میر پور خاص ،ٹھٹھہ، حیدرآباد اور آپ کا سیاسی دارالخلافہ لاڑکانہ ہڑپہ ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ میرے ذرایع یہ بتاتے ہیں کہ گاڑیوں کے لیئے سڑک نہیں ، کھیلنے کو گراؤنڈز نہیں ، سیر کے لیے پارکس نہیں ، پڑھنے کو اچھے اسکول کالجز نہیں ، شفایابی کے لیے اچھے اسپتال نہیں ، پینے کو صاف پانی نہیں لیکن ووٹ آج بھی آپکا زندہ ہے ۔ سائیں کچھ کیجیے خالی خولی باتوں سے ، میڈیا کو سڑکوں پر لیجا کر ویڈیوز بنوانے سے اور اسمبلیوں میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے دکھانے سے کچھ نہیں ہونا عملاً لوگ بے حال ہیں بد حال ہیں برے حال ہیں۔
پاکستان کے بہت سارے وفاقی ادارے کراچی اور سندھ سے ہی شرو ع ہو تے ہیں ۔ ریلوے ، شپنگ ، ڈاک کا محکمہ اور دیگر وفاقی ادارے شروع کراچی سے ہی ہوتے ہیں وفاقی حکومت کو ان کے وسیلے سے کراچی کا خاص خیال رکھنا ہوگا ۔ آپ جو آیندہ سندھ سے بھی منتخب ہو کر آنے کی اُمید کر رہے ہیں ،اس کے لیے عملاً کچھ کیجیے ۔
وفاقی بجٹ اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات سے کراچی کے کچرے اور سڑکوں کی تعمیر کے مسائل حل کروا دیجیے ۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کراچی انسانوں کے مابین ہم آہنگی کا ایک باغ ہے یہاں ہر طرح کی قومیت اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں ۔ سرائیکی، پختون پنجابی ہزار وال سندھی، بلوچی ،کشمیری، گلگتی ( اور بھی بہت لوگ ہیں ) ان سب نے کراچی کو اپنا معاشی حب بنائے رکھا ہوا ہے ، تو ہم سب کو بھی چاہیئے کہ مل کر کراچی کی خدمت بھی کریں کراچی کو خوبصورت بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ ہر ایک کو چاہیئے کہ صفائی کا تجاوزات کا اور امن و امان کا خاص خیال رکھے ۔ اسی میں کراچی کی، سندھ کی، پاکستان کی، ہم سب کی بقاء ہے ۔ آئیے کہ گیٹ وے آف پاکستان کو خوبصورت بنانے میں حکومتوں کو اپنا اپنا تعاون پیش کریں ۔ سوال اہلِ کراچی سے بھی ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے کراچی کی ہی خدمت سے ''آپ کو کس نے روکا ہے ''