2016ء میں سوشل میڈیا زیادہ مؤثر ذریعہ ابلاغ ثابت ہوا
مصباح کے پُش اپس،چائے والا کی شہرت، قندیل کی سیلفی،شیخ رشید کی دوڑ،امجد صابری اور جنید جمشید ٹاپ ٹرینڈ رہے
ISLAMABAD:
سال دوہزار سولہ میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی زیادہ سرگرمی دیکھی گئی ۔فیس بک ، ٹوئیٹر اور انسٹا گرام پر پوسٹ ہونے والی بعض تصاویر نے جہاں بڑے پیمانے پر مباحثوں کو جنم دیا وہیں کچھ گمنام افراد کو شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچایا ۔
سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے کئی ایشوزکو بعد میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر بھرپور پذیرائی ملی۔قومی سطح کی اہم شخصیات کی جدائی پر سوشل میڈیا پر سوگ کا سماں بھی طاری رہا۔گزشتہ برس سوشل میڈیا نے خود کو پہلے کی نسبت زیادہ مؤثر ذریعہ ابلاغ کے طور پر منوایا اور روایتی میڈیا کو کئی بار پچھاڑنے میں کامیاب رہا ۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے چند ایسے واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو گزشتہ برس سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔
چائے والے کی نیلی آنکھوں نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا
اسلام آباد میں چائے کے ڈھابے پر کام کرنے والے ارشد خان کی قسمت بدلنے میں سوشل میڈیا نے حیرت انگیز کردار ادا کیا۔ ارشد خان کی تصویر اسلام آباد کی ایک فوٹو جرنلسٹ جویریہ علی نے اس وقت بنائی جب وہ چائے بنا رہا تھا اور پھر نیلی آنکھوں والے اس اٹھارہ سالہ نوجوان کی یہ تصویر پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔گمنام چائے کی دکان پر کا م کرنے والے ارشد خان کو ''چائے والا'' کے نئے نام سے بے پناہ شہرت ملی اور پھر مختلف ٹی وی چینلز اس کے انٹرویو کرنے لگے۔اشتہاری کمپنیوں نے اس سے رابطہ شروع کر دیا۔اب ارشد خان ملبوسات سے متعلق برانڈز کے لیے بطور ماڈل کام کر رہا ہے اور اس طرح سوشل میڈیا نے اس کی زندگی کا رخ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔
بے گھر بوڑھے کی داستانِ الم زندگی کااہم سنگ میل بن گئی
پاکستانی اداکار احسن خان نے کراچی کی کسی سڑک کے کنارے ایک ایسے عمر رسیدہ آدمی سے بات چیت کی جو بہت خستہ حال تھا۔ میلے کچیلے کپڑوں اوربڑھی ہوئی بے ہنگم داڑھی والا یہ بے گھر شخص انتہائی رواں اور خوبصورت انگریزی میں اپنی دُکھ بھری داستان سناتا ہے۔ احسن خان نے اس بزرگ کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کی تو کچھ ہی گھنٹوں میں یہ وائرل ہو گئی اور پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے اس ویڈیو کو نشر کیا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ ایک کار حادثے میں اپنا پورا خاندان کھو چکا ۔اب وہ صرف ملازمت چاہتا ہے لیکن وہ ملازمت کسی ایسے آفس میں نہ ہو جہاں کمپیوٹر پر کام ہوتا ہے کیونکہ وہ کمپیوٹر سے قطعی نابلد ہے۔ اسے آفس اسسٹنٹ کی جاب چاہئے جہاں فوٹو کاپی کرنے اور ٹیلی فون وغیرہ کے کام ہوں ۔ احسن خان نے بعد میںبتایا کہ ان سے کئی لوگوں نے رابطہ کرکے اس بے گھر بزرگ شخص کی مدد کی خواہش ظاہر کی ہے تاہم اسے ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی سیلیوشن کمپنی(Amtech Systems) نے پُرکشش مراعات کے ساتھ ملازمت دینے کااعلان کر دیا تھا۔
دیوار پر لگنے والے سنیٹری پیڈز نے ایک زبردست مباحثے کو جنم دیا
سوشل میڈیا پر ایک طوفان اس وقت دیکھنے میں آیا جب بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہورکی کچھ طالبات نے خواتین کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والے 25عدد سنیٹری پیڈز یونیورسٹی کی دیوار پر چپکا دیے اور ان پر انگریزی میں ایسے جملے لکھے جن سے خواتین کی ماہواری کو معمول کی چیز سمجھنے پر زور دیا گیا تھا ۔ مدیحہ طاہر نامی ایک خاتون نے اس کی تصویر بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کر دی اور اس کے بعد ملک بھر کے اخباروں اور نیوز ویب سائٹس پر لکھے جانے والے مضامین اور بلاگز میں واضح طور پر ایک تقسیم دیکھنے کو ملی ۔ روشن خیال کہلوانے والے افراد نے اس اقدام کو خواتین کے معاملے میں ماحول کے جبر کے خلاف ایک علامت قرار دیا جبکہ روایت پسند حلقوں نے اسے بے راہ روی ، فحاشی اور سستی شہرت حاصل کرنے کا بھونڈا طریقہ قرار دیا۔یہ تصویر کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا پرکافی گرما گرم مباحثوں کا باعث بنی رہی اور اس کا دائرہ قومی اخبارات کے سنجیدہ مضامین تک پھیلتے دیکھا گیا۔
کرکٹر مصباح الحق کے پُش اَپس نے مقبولیت کی حدوں کو چھوا
انگلینڈ کے خلاف لارڈز میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح کے کپتان مصباح الحق نے ٹیم کے ساتھ ُپش اَپس لگائے تو انہیں پاکستانی ٹیلی وژن چینلز اور سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی ۔ مصباح ان پُش اَپس کے ذریعے اپنے ناقدین کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ابھی تک کھیل کے لیے مکمل طور پر فٹ ہیں ۔اس کے بعد ٹیلی وژن کے اسپورٹس پروگراموں میں پُش اَپس کا مظاہرہ شروع ہو گیا اور سوشل میڈیا پر عام لوگ بھی اسی قسم کی مزاحیہ ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ یہ پُش اَپس پاکستانی سیاست کے کھیل کا حصہ بھی بن گئے ۔ عمران خان نے پانامہ اسیکنڈل کے معاملے پر اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا تو ایک دن صبح بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکنوں کے سامنے انہوں نے مسلسل 40کے لگ بھگ پُش اَپس لگا کر ڈھلتی عمرمیں بھی اپنے جسمانی طور پر چاک وچوبند ہونے کا مظاہرہ کیا اور یہ ویڈیو خوب وائرل ہوئی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس قومی کرکٹ ٹیم کی جسمانی فٹنس کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایک تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا تھا اور انگلینڈ کے خلاف پہلے میچ میں فتح کے بعد مصباح کے پُش اَپس کو بہت سے لوگوں نے ان کی جانب سے اپنے فوجی استادوں کے لیے مثبت پیغام کے طور پر بھی دیکھا۔
قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز کے ذریعے شہرت پانے والی ڈیرہ غازی خان کی رہائشی ماڈل قندیل بلوچ گزشتہ برس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے علاوہ اخبارات اور ٹیلی وژن پر زیر بحث رہنے والا ایک بڑا کردار تھی ۔ قندیل بلوچ کو ملتان کے ایک مذہبی عالم مفتی عبدالقوی نے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران اپنی کراچی آمد پر ملاقات کی دعوت دی تھی جس کے بعد قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کی کراچی کے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی مختصر ویڈیو اور مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی قندیل نے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کر دی۔ اس کے بعد ملک بھر میں ایک نئی دھواں دھار بحث نے جنم لیا تاہم مفتی عبدالقوی کو یہ سیلفی کافی مہنگی پڑی اور انہیں فوری طور پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے الگ کر دیا گیا۔اس کے بعد ٹی وی مباحثوں میں مفتی عبدالقوی اور قندیل آمنے سامنے دیکھے گئے۔ انہی دنوں ایک بڑے نیوز چینل کے معروف اینکر نے قندیل بلوچ کے ساتھ ایک پروگرام بھی کیا ۔ یہ پیچیدگی بعد میں اس حد تک بڑھی کہ قندیل بلوچ کو عزت کے نام پر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ ڈیرہ غازی خان کے قریب کسی گمنام گاؤں میں منوں مٹی تلے دفن ہوگئی۔
مومنہ مستحسن کے گانے کی ویڈیو پر منفی تبصرہ اور جواب
گزشتہ برس کوک اسٹوڈیو میں نئے انداز میں ''آفریں آفریں'' گانے کے ذریعے شہرت پانے والی مومنہ مستحسن بھی رواں سال سوشل میڈیا پر دیکھا جانے والا اہم نام تھی۔اس گانے کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد گانے کی دُھن کے علاوہ مومنہ کی جسمانی ہیئت بھی سوشل میڈیا مکالموں کا موضوع بنی ۔ ایک سوشل میڈیا صارف ہاشم بیگ نے اپنے تبصرے میں ناصرف یہ کہ مومنہ کو ایک معمولی ڈیل ڈول لڑکی کہا بلکہ انہیں اپنے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی کے ساتھ تشبیہہ دے دی۔ مومنہ نے اس تبصرے کا کافی شائستگی سے جواب دیتے ہوئے کہا ''آپ کی نوکرانی سے مشابہت کوئی بُری بات نہیں۔مجھے خوشی ہے کہ میں کسی ایسے شخص کی مانند دکھائی دیتی ہوں جو محنت کرنے کا عادی ہو، چاہے وہ کسی کے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی ہی کیوں نہ ہو۔سب کا احترام کیا جانا چاہئے'' ۔ معاشرے میں مختلف کاموں سے جڑے لوگوں کو گھٹیا سمجھنے کی روایت پر اس منفی تبصرے کے بعد کئی دن تک خوب تنقید کی گئی اور بحث کے کئی نئے رخ سامنے آئے ۔
پاکستانی خاتون کی شوہر کے بغیر ہنی مون منانے کی داستان نے دنیا کی توجہ حاصل کی
ایک اور غیر معمولی واقعہ جس نے سوشل میڈیا پر کافی رش لیا وہ ہما مبین نامی پاکستانی خاتون کے یونان کے سفر کی تصویری رُوداد ہے ۔ہمامبین اپنے خاوند ارسلان کے ساتھ ملک سے باہر ہنی مون پر جارہی تھی کہ اس کے شوہر کا گرین پاسپورٹ کی بناء پر ویزہ مسترد کر دیا گیا ۔ ہمامبین نے اس کے بعد ایک تصویر پوسٹ کی جس کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ ''سُسر جی اور ساسوماں!میں جارہی ہوں ، خاوند کے بغیر ہنی مون کا تصور کیسا ہو سکتا ہے'' ۔اس سفر کو ہما مبین نے یادگار بنانے کے لیے ہر موقع پر ایسی تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس سفر میں اپنے شوہر کی بہت کمی محسوس کر رہی ہیں۔ یہ تصاویر سوشل میڈیا پر خوب ڈسکس ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ کے حوالے سے پائے جانے والے تعصب آمیز رویے کے خلاف ایک طرح کے احتجاج کا محرک بنیں۔ ہما مبین کی حسںِ مزاح اور آئیڈیے کو عالمی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور پذیرائی ملی ۔صرف اس پر بس نہیں ہوئی بلکہ انہیں انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل کی جانب سے نئے سال میں شادی کی سالگرہ پر یورپ کے دورے کے لیے اسپانسر بھی کیا گیا ہے۔
نرگس فخری کا ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے لیے اشتہار
گزشتہ برس سوشل میڈیا پر ایک زبردست بحث اس وقت دیکھنے میں کو ملی جب ملک کے قومی اخبارات کے صفحۂ اول پر ایک موبائل فون ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا اشتہار شائع ہوا جس میں معروف بھارتی ماڈل نرگس فخری کو لال لباس پہنے ہوئے پیٹ کے بل لیٹا ہوا دکھایا گیا ۔ اس اشتہار کے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر روایت پسند حلقوں کی جانب سے زبردست تنقید کی گئی ۔ بہت سے لوگوں نے اس اشتہار کو مذہبی و مشرقی روایات کے متصادم قرار دیا ۔ یہ بحث ابھی تھمی نہیں تھی کہ ایک اور موبائل فون ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے اداکار فیصل قریشی کو اسی انداز میں اخباری اشتہار میں پیش کر دیا جس سے بحث میں مزاح کا عنصر بھی در آیا اور دوسری کمپنی نے اس بروقت اشتہاری حربے سے خوب فائدہ اٹھایا ۔
شیخ رشید کی پنڈی کی گلیوں میں دوڑ کی عالمی شہرت
جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاناما اسیکنڈل کے حوالے سے احتجاج اور اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا تو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ 'اسلام آباد شٹ ڈاؤن' سے ایک دن قبل شیخ رشید نے کمیٹی چوک راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کیا تو حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی ۔ شیخ رشید روپوش ہو گئے اور پھر اگلی صبح شیخ رشید کی ایک ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی جس میں انہیں راولپنڈی کی تنگ وتاریک گلیوں میںموٹر سائیکل پر سوار دیکھا گیا اور پھر ایک ویڈیو میں وہ بھاگتے ہوئے کمیٹی چوک پہنچتے دکھائی دیے۔ شیخ رشید نے وہاں ایک ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر بیٹھ کر اپنے مخصوص انداز میںسگار سلگایا اور مختصر خطاب کیا ۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے ان تصاویر اور ویڈیوز نے اس دن ٹیلی وژن کی نشریات کا بڑا حصہ حاصل کیا اور رات کے پہلے پہر تک شیخ رشید ٹوئیٹر کے ورلڈ ٹاپ ٹرینڈز میں آٹھویں نمبر پر تھے۔
عبدالستار ایدھی،امجد صابری اور جنید جمشید کی جدائی پر مداحوں کے آنسو
سوشل میڈیا پر ممتاز بزرگ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی وفات پر سوشل میڈیا پر سوگ کا سماں دیکھنے کو ملا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر موجود افراد نے ایدھی کو خراج تحسین پیش کیا ۔اس کے بعد معروف قوال امجد صابری کے کراچی میں قتل کا واقعہ پیش آیا جس پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید ردعمل دیکھا گیا۔گزشتہ برس کے اواخر میں پیش آنے والے فضائی حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47ء مسافروں کی موت کے بعد ایک بار بھر سوشل میڈیا پر ہر شخص رنج والم کی تصویر بنا نظر آیا ۔محدود تعداد میں کچھ لوگوں نے فرقہ وارانہ بحث کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی لیکن مجموعی طور پر ان تینوں مشہور شخصیات کی خدمات کو سراہا گیا ۔فیس بک اور ٹوئیٹر پر کئی دن تک یہ شخصیات زیر بحث رہیں۔
سال دوہزار سولہ میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کافی زیادہ سرگرمی دیکھی گئی ۔فیس بک ، ٹوئیٹر اور انسٹا گرام پر پوسٹ ہونے والی بعض تصاویر نے جہاں بڑے پیمانے پر مباحثوں کو جنم دیا وہیں کچھ گمنام افراد کو شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچایا ۔
سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے کئی ایشوزکو بعد میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر بھرپور پذیرائی ملی۔قومی سطح کی اہم شخصیات کی جدائی پر سوشل میڈیا پر سوگ کا سماں بھی طاری رہا۔گزشتہ برس سوشل میڈیا نے خود کو پہلے کی نسبت زیادہ مؤثر ذریعہ ابلاغ کے طور پر منوایا اور روایتی میڈیا کو کئی بار پچھاڑنے میں کامیاب رہا ۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے چند ایسے واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو گزشتہ برس سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔
چائے والے کی نیلی آنکھوں نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا
اسلام آباد میں چائے کے ڈھابے پر کام کرنے والے ارشد خان کی قسمت بدلنے میں سوشل میڈیا نے حیرت انگیز کردار ادا کیا۔ ارشد خان کی تصویر اسلام آباد کی ایک فوٹو جرنلسٹ جویریہ علی نے اس وقت بنائی جب وہ چائے بنا رہا تھا اور پھر نیلی آنکھوں والے اس اٹھارہ سالہ نوجوان کی یہ تصویر پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔گمنام چائے کی دکان پر کا م کرنے والے ارشد خان کو ''چائے والا'' کے نئے نام سے بے پناہ شہرت ملی اور پھر مختلف ٹی وی چینلز اس کے انٹرویو کرنے لگے۔اشتہاری کمپنیوں نے اس سے رابطہ شروع کر دیا۔اب ارشد خان ملبوسات سے متعلق برانڈز کے لیے بطور ماڈل کام کر رہا ہے اور اس طرح سوشل میڈیا نے اس کی زندگی کا رخ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔
بے گھر بوڑھے کی داستانِ الم زندگی کااہم سنگ میل بن گئی
پاکستانی اداکار احسن خان نے کراچی کی کسی سڑک کے کنارے ایک ایسے عمر رسیدہ آدمی سے بات چیت کی جو بہت خستہ حال تھا۔ میلے کچیلے کپڑوں اوربڑھی ہوئی بے ہنگم داڑھی والا یہ بے گھر شخص انتہائی رواں اور خوبصورت انگریزی میں اپنی دُکھ بھری داستان سناتا ہے۔ احسن خان نے اس بزرگ کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کی تو کچھ ہی گھنٹوں میں یہ وائرل ہو گئی اور پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے اس ویڈیو کو نشر کیا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ ایک کار حادثے میں اپنا پورا خاندان کھو چکا ۔اب وہ صرف ملازمت چاہتا ہے لیکن وہ ملازمت کسی ایسے آفس میں نہ ہو جہاں کمپیوٹر پر کام ہوتا ہے کیونکہ وہ کمپیوٹر سے قطعی نابلد ہے۔ اسے آفس اسسٹنٹ کی جاب چاہئے جہاں فوٹو کاپی کرنے اور ٹیلی فون وغیرہ کے کام ہوں ۔ احسن خان نے بعد میںبتایا کہ ان سے کئی لوگوں نے رابطہ کرکے اس بے گھر بزرگ شخص کی مدد کی خواہش ظاہر کی ہے تاہم اسے ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی سیلیوشن کمپنی(Amtech Systems) نے پُرکشش مراعات کے ساتھ ملازمت دینے کااعلان کر دیا تھا۔
دیوار پر لگنے والے سنیٹری پیڈز نے ایک زبردست مباحثے کو جنم دیا
سوشل میڈیا پر ایک طوفان اس وقت دیکھنے میں آیا جب بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہورکی کچھ طالبات نے خواتین کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والے 25عدد سنیٹری پیڈز یونیورسٹی کی دیوار پر چپکا دیے اور ان پر انگریزی میں ایسے جملے لکھے جن سے خواتین کی ماہواری کو معمول کی چیز سمجھنے پر زور دیا گیا تھا ۔ مدیحہ طاہر نامی ایک خاتون نے اس کی تصویر بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کر دی اور اس کے بعد ملک بھر کے اخباروں اور نیوز ویب سائٹس پر لکھے جانے والے مضامین اور بلاگز میں واضح طور پر ایک تقسیم دیکھنے کو ملی ۔ روشن خیال کہلوانے والے افراد نے اس اقدام کو خواتین کے معاملے میں ماحول کے جبر کے خلاف ایک علامت قرار دیا جبکہ روایت پسند حلقوں نے اسے بے راہ روی ، فحاشی اور سستی شہرت حاصل کرنے کا بھونڈا طریقہ قرار دیا۔یہ تصویر کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا پرکافی گرما گرم مباحثوں کا باعث بنی رہی اور اس کا دائرہ قومی اخبارات کے سنجیدہ مضامین تک پھیلتے دیکھا گیا۔
کرکٹر مصباح الحق کے پُش اَپس نے مقبولیت کی حدوں کو چھوا
انگلینڈ کے خلاف لارڈز میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح کے کپتان مصباح الحق نے ٹیم کے ساتھ ُپش اَپس لگائے تو انہیں پاکستانی ٹیلی وژن چینلز اور سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی ۔ مصباح ان پُش اَپس کے ذریعے اپنے ناقدین کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ابھی تک کھیل کے لیے مکمل طور پر فٹ ہیں ۔اس کے بعد ٹیلی وژن کے اسپورٹس پروگراموں میں پُش اَپس کا مظاہرہ شروع ہو گیا اور سوشل میڈیا پر عام لوگ بھی اسی قسم کی مزاحیہ ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ یہ پُش اَپس پاکستانی سیاست کے کھیل کا حصہ بھی بن گئے ۔ عمران خان نے پانامہ اسیکنڈل کے معاملے پر اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا تو ایک دن صبح بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکنوں کے سامنے انہوں نے مسلسل 40کے لگ بھگ پُش اَپس لگا کر ڈھلتی عمرمیں بھی اپنے جسمانی طور پر چاک وچوبند ہونے کا مظاہرہ کیا اور یہ ویڈیو خوب وائرل ہوئی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس قومی کرکٹ ٹیم کی جسمانی فٹنس کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایک تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا تھا اور انگلینڈ کے خلاف پہلے میچ میں فتح کے بعد مصباح کے پُش اَپس کو بہت سے لوگوں نے ان کی جانب سے اپنے فوجی استادوں کے لیے مثبت پیغام کے طور پر بھی دیکھا۔
قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز کے ذریعے شہرت پانے والی ڈیرہ غازی خان کی رہائشی ماڈل قندیل بلوچ گزشتہ برس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے علاوہ اخبارات اور ٹیلی وژن پر زیر بحث رہنے والا ایک بڑا کردار تھی ۔ قندیل بلوچ کو ملتان کے ایک مذہبی عالم مفتی عبدالقوی نے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران اپنی کراچی آمد پر ملاقات کی دعوت دی تھی جس کے بعد قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کی کراچی کے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی مختصر ویڈیو اور مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی قندیل نے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کر دی۔ اس کے بعد ملک بھر میں ایک نئی دھواں دھار بحث نے جنم لیا تاہم مفتی عبدالقوی کو یہ سیلفی کافی مہنگی پڑی اور انہیں فوری طور پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے الگ کر دیا گیا۔اس کے بعد ٹی وی مباحثوں میں مفتی عبدالقوی اور قندیل آمنے سامنے دیکھے گئے۔ انہی دنوں ایک بڑے نیوز چینل کے معروف اینکر نے قندیل بلوچ کے ساتھ ایک پروگرام بھی کیا ۔ یہ پیچیدگی بعد میں اس حد تک بڑھی کہ قندیل بلوچ کو عزت کے نام پر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ ڈیرہ غازی خان کے قریب کسی گمنام گاؤں میں منوں مٹی تلے دفن ہوگئی۔
مومنہ مستحسن کے گانے کی ویڈیو پر منفی تبصرہ اور جواب
گزشتہ برس کوک اسٹوڈیو میں نئے انداز میں ''آفریں آفریں'' گانے کے ذریعے شہرت پانے والی مومنہ مستحسن بھی رواں سال سوشل میڈیا پر دیکھا جانے والا اہم نام تھی۔اس گانے کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد گانے کی دُھن کے علاوہ مومنہ کی جسمانی ہیئت بھی سوشل میڈیا مکالموں کا موضوع بنی ۔ ایک سوشل میڈیا صارف ہاشم بیگ نے اپنے تبصرے میں ناصرف یہ کہ مومنہ کو ایک معمولی ڈیل ڈول لڑکی کہا بلکہ انہیں اپنے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی کے ساتھ تشبیہہ دے دی۔ مومنہ نے اس تبصرے کا کافی شائستگی سے جواب دیتے ہوئے کہا ''آپ کی نوکرانی سے مشابہت کوئی بُری بات نہیں۔مجھے خوشی ہے کہ میں کسی ایسے شخص کی مانند دکھائی دیتی ہوں جو محنت کرنے کا عادی ہو، چاہے وہ کسی کے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی ہی کیوں نہ ہو۔سب کا احترام کیا جانا چاہئے'' ۔ معاشرے میں مختلف کاموں سے جڑے لوگوں کو گھٹیا سمجھنے کی روایت پر اس منفی تبصرے کے بعد کئی دن تک خوب تنقید کی گئی اور بحث کے کئی نئے رخ سامنے آئے ۔
پاکستانی خاتون کی شوہر کے بغیر ہنی مون منانے کی داستان نے دنیا کی توجہ حاصل کی
ایک اور غیر معمولی واقعہ جس نے سوشل میڈیا پر کافی رش لیا وہ ہما مبین نامی پاکستانی خاتون کے یونان کے سفر کی تصویری رُوداد ہے ۔ہمامبین اپنے خاوند ارسلان کے ساتھ ملک سے باہر ہنی مون پر جارہی تھی کہ اس کے شوہر کا گرین پاسپورٹ کی بناء پر ویزہ مسترد کر دیا گیا ۔ ہمامبین نے اس کے بعد ایک تصویر پوسٹ کی جس کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ ''سُسر جی اور ساسوماں!میں جارہی ہوں ، خاوند کے بغیر ہنی مون کا تصور کیسا ہو سکتا ہے'' ۔اس سفر کو ہما مبین نے یادگار بنانے کے لیے ہر موقع پر ایسی تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس سفر میں اپنے شوہر کی بہت کمی محسوس کر رہی ہیں۔ یہ تصاویر سوشل میڈیا پر خوب ڈسکس ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ کے حوالے سے پائے جانے والے تعصب آمیز رویے کے خلاف ایک طرح کے احتجاج کا محرک بنیں۔ ہما مبین کی حسںِ مزاح اور آئیڈیے کو عالمی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور پذیرائی ملی ۔صرف اس پر بس نہیں ہوئی بلکہ انہیں انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل کی جانب سے نئے سال میں شادی کی سالگرہ پر یورپ کے دورے کے لیے اسپانسر بھی کیا گیا ہے۔
نرگس فخری کا ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے لیے اشتہار
گزشتہ برس سوشل میڈیا پر ایک زبردست بحث اس وقت دیکھنے میں کو ملی جب ملک کے قومی اخبارات کے صفحۂ اول پر ایک موبائل فون ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا اشتہار شائع ہوا جس میں معروف بھارتی ماڈل نرگس فخری کو لال لباس پہنے ہوئے پیٹ کے بل لیٹا ہوا دکھایا گیا ۔ اس اشتہار کے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر روایت پسند حلقوں کی جانب سے زبردست تنقید کی گئی ۔ بہت سے لوگوں نے اس اشتہار کو مذہبی و مشرقی روایات کے متصادم قرار دیا ۔ یہ بحث ابھی تھمی نہیں تھی کہ ایک اور موبائل فون ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے اداکار فیصل قریشی کو اسی انداز میں اخباری اشتہار میں پیش کر دیا جس سے بحث میں مزاح کا عنصر بھی در آیا اور دوسری کمپنی نے اس بروقت اشتہاری حربے سے خوب فائدہ اٹھایا ۔
شیخ رشید کی پنڈی کی گلیوں میں دوڑ کی عالمی شہرت
جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاناما اسیکنڈل کے حوالے سے احتجاج اور اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا تو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ 'اسلام آباد شٹ ڈاؤن' سے ایک دن قبل شیخ رشید نے کمیٹی چوک راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کیا تو حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی ۔ شیخ رشید روپوش ہو گئے اور پھر اگلی صبح شیخ رشید کی ایک ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی جس میں انہیں راولپنڈی کی تنگ وتاریک گلیوں میںموٹر سائیکل پر سوار دیکھا گیا اور پھر ایک ویڈیو میں وہ بھاگتے ہوئے کمیٹی چوک پہنچتے دکھائی دیے۔ شیخ رشید نے وہاں ایک ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر بیٹھ کر اپنے مخصوص انداز میںسگار سلگایا اور مختصر خطاب کیا ۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے ان تصاویر اور ویڈیوز نے اس دن ٹیلی وژن کی نشریات کا بڑا حصہ حاصل کیا اور رات کے پہلے پہر تک شیخ رشید ٹوئیٹر کے ورلڈ ٹاپ ٹرینڈز میں آٹھویں نمبر پر تھے۔
عبدالستار ایدھی،امجد صابری اور جنید جمشید کی جدائی پر مداحوں کے آنسو
سوشل میڈیا پر ممتاز بزرگ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی وفات پر سوشل میڈیا پر سوگ کا سماں دیکھنے کو ملا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر موجود افراد نے ایدھی کو خراج تحسین پیش کیا ۔اس کے بعد معروف قوال امجد صابری کے کراچی میں قتل کا واقعہ پیش آیا جس پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید ردعمل دیکھا گیا۔گزشتہ برس کے اواخر میں پیش آنے والے فضائی حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47ء مسافروں کی موت کے بعد ایک بار بھر سوشل میڈیا پر ہر شخص رنج والم کی تصویر بنا نظر آیا ۔محدود تعداد میں کچھ لوگوں نے فرقہ وارانہ بحث کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی لیکن مجموعی طور پر ان تینوں مشہور شخصیات کی خدمات کو سراہا گیا ۔فیس بک اور ٹوئیٹر پر کئی دن تک یہ شخصیات زیر بحث رہیں۔