5سال گزرنے کے بعد بھی سندھ یوتھ پالیسی منظور نہ ہو سکی

نوجوان بیروزگاری اور تفریحی سرگرمیوں کی کمی سے مایوسی کا شکار، ذہنی امراض میں مبتلا ہونے لگے

محتاط اندازے کے مطابق آبادی کا 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
سندھ یوتھ پالیسی 5 سال سے منظور نہ ہوسکی،سندھ میں نوجوان طبقہ بیروزگاری اور تفریحی سرگرمیوں کے فقدان کے باعث مایوسی کا شکار ہیں،جس کی وجہ سے نوجوان ذہنی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں یوتھ پالیسی2012 مرتب گئی تھی جس کی منظوری کے لیے صوبائی وزیر اعلیٰ کو ارسال کی گئی تھی لیکن مذکورہ پالیسی درپیش خدشات کے باعث5سال سے تاحال منظور نہ ہوسکی۔

سندھ یوتھ پالیسی کے مطابق 18 تا 29 سال کی عمر کا فرد نوجوان سمجھا جائے گا جس کے تحت نوجوانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا، جس کے مطابق اگر ایک18سال کا نوجوان ووٹ ڈال سکتا ہے تو صوبائی اسمبلی کی سیٹ پرانتخابات بھی لڑسکتا ہے۔


نوجوانوں میں سماجی شعور کو اجاگر کرنے اور اپنے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگاہی کی فراہمی کے لیے سرٹیفکیٹ کورسز،ورکشاپ اور سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ معاشرے میںامن کے فروغ کے لیے لسانی اور قومیت کی بنیاد پر فرقہ ورانہ تصادم کا خاتمہ ہو اور اس کے علاوہ مختلف مذاہب اور قومیت کے مابین باہمی ہم آہنگی اور یگانگت کو فروغ مل سکے۔ کم تعلیم یافتہ نوجوان جن کی تعلیمی قابلیت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک ہو ان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے ایلیمنٹری اسکولوں میں مختلف ووکیشنل ٹریننگ دی جائے اور مزید مہارت حاصل کرنے کے لیے پریکٹس کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

دوسری جانب ملک بھر میں مردم شماری نہ ہونے کے باعث نوجوان طبقہ کی شرح کا حقییقی بنیاد پر تعین کرنا مشکل ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق آبادی کا 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، امن وامان کی ابتر صورتحال، توانائی کا بحران، انسانی حقوق کی پامالی،مفت اور معیاری تعلیم کے مواقعوں کی کمی، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے عوامل نوجوانوں کے سماجی سطح پر مسائل کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔

واضح رہے کہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل کے انتخاب کا تعین کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ملک بھر میں نوجوانوں کی فنی تربیت کیلیے ووکیشنل ٹریننگ پروگرام بھی کارآمد ثابت نہ ہوئے۔ بے نظیر یوتھ اسکلز ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت کروڑوں کی لاگت سے نوجوانوں کو تربیتی کورسز کرائے گئے لیکن مزید پریکٹس کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔
Load Next Story