دو چار برس کی بات نہیں آخری حصہ

سولہ برس کی اس کتھا میں کئی بار ایسے مقامات بھی آئے کہ حد درجہ دل برداشتہ ہونا پڑا


Raees Fatima January 22, 2017
[email protected]

سولہ برس کی اس کتھا میں کئی بار ایسے مقامات بھی آئے کہ حد درجہ دل برداشتہ ہونا پڑا، لیکن قارئین کے فون اور ای میل حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ایک بار ایک گمنام خط ملا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے ای میل ایڈریس دینا شروع نہیں کیا تھا، تمام ڈاک دفتر سے ایک پیکٹ میں آ جاتی تھی۔ ایک خط میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر میں نے کالم لکھنا بند نہ کیا تو انجام بہت برا ہو گا۔

2001ء میں ایک فون ''سب تیرے سوا کافر'' والے عنوان سے لکھے جانے والے کالم کے حوالے سے آیا۔ اس میں بھی دھمکیاں ہی دھمکیاں تھیں۔ میں نے مرحوم شمیم نوید اور طاہر نجمی کو باخبر کیا، انھوں نے ہنس کر کہا ''اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں''۔ جب آپ کسی کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھیں گے تو وہ چلائے گا تو ضرور۔

اس کالم میں ظاہری حلیے کے مسلمانوں اور ان کے رویوں پہ بات کی گئی تھی، عبادت گاہوں کے اطراف دکانوں کی بات کی گئی تھی، سب سے بڑھ کر یہ کہ زمینوں پہ قبضہ کر کے عبادتگاہیں بنانے کی مذمت کی گئی تھی۔ یہی بات چند حضرات کو بہت ناگوار گزری تھی۔ اتنا عرصہ گزر گیا، میں آج بھی اپنی بات پہ قائم ہوں کہ متعدد عبادت گاہیں دوسروں کی زمینوں پہ قبضہ کرکے بنائی گئی ہیں۔ یہ بھی ایک مافیا ہے جس کے خلاف کوئی بولتا نہیں۔

2010ء کی بات ہے کہ ایک دن صبح گیارہ بجے بیل بجی، ملازمہ نے دروازہ کھولا اور مجھے اطلاع دی کہ ایک خاتون اور مرد آئے ہیں۔ اس نے بغیر مجھے بتائے ڈرائنگ روم میں بٹھادیا۔ کہنے لگی کہ وہ آپ کو جانتے ہیں۔ میں نے جاکر دیکھا تو دونوں اجنبی شکلیں ۔ مجھے دیکھتے ہی دونوں کھڑے ہوگئے اور بیگم بولیں۔ ''معاف کیجیے گا ہم نے ملازمہ سے غلط کہا تھا کہ آپ ہمیں جانتی ہیں۔

دراصل آپ کو دو خط ہم نے لکھے تھے کہ ہمیں امداد کی ضرورت ہے۔ ہماری بیٹی کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ ہماری مدد کردیں اور جہیز کے فرنیچر کی ذمے داری لے لیں۔ ایک کالم لکھ دیں تاکہ لوگ ہماری مدد کردیں۔ میں عجیب مشکل میں تھی، چہرے سے دونوں ہی مجھے مشکوک لگ رہے تھے۔ اس وقت میں اکیلی تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ گرمیوں کے دن تھے، ملازمہ نے شربت لاکر دیا، پھر میں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ان کے موبائل نمبر نوٹ کیے۔ پتہ لکھا جوکہ اورنگی ٹاؤن کا تھا اور انھیں پورا یقین دلاکر بمشکل رخصت کیا کہ عنقریب کالم لکھ دوں گی۔

ان کے جانے کے بعد ملازمہ کی تو شامت آنی ہی تھی کہ بغیر مجھ سے پوچھے اجنبیوں کو گھر میں بلالیا۔ لیکن تین چار دن بعد میرے فون پر ان کا تقاضا تھا، ہفتہ دس دن بعد انھوں نے فرنیچر کی لسٹ بھیج دی اور تقاضا کیا کہ میں فرنیچر کی رقم فلاں دکاندار کو ادا کردوں تاکہ وہ سامان اٹھا سکیں۔ اب معاملہ خراب ہوگیا تھا۔ جب قاضی اختر صاحب نے انھیں فون کرکے ٹھیک ٹھاک خبر لی تب جا کر پیچھا چھوٹا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھیں گھر کا پتہ کہاں سے ملا تو فرمایا کہ ویلکم بک پورٹ سے کتاب خریدی تھی ''شاخ نہال غم'' اس پہ پتہ اور فون نمبر درج تھا۔

اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، ہوا یوں کہ ایک دن دروازے پہ دستک ہوئی، کھولا تو ہماری پڑوسن کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے ایک درمیانی عمر کے صاحب قمیص پتلون میں ملبوس کھڑے تھے۔ پڑوسن نے مجھے بتایاکہ ''باجی یہ صاحب لاہور سے آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں، یہ کسی ادبی پرچے کے مدیر ہیں۔ انھوں نے غلطی سے میری ڈور بیل بجادی تھی۔ پھر انھوں نے درخوست کی کہ میں آپ سے ملوادوں۔ آپ جانتی ہیں انھیں؟'' نہیں بھئی میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا۔

یہ سن کر وہ صاحب التجا کرنے لگے کہ ''اندر تو آنے دیں میں بڑی مشکل سے آپ تک پہنچا ہوں۔ پہلے اس پتے پر گیا جو کتاب پر درج ہے۔ وہاں سے پتہ چلا کہ آپ نے گھر تبدیل کرلیا۔ تب یہاں آیا ہوں۔ کم از کم ایک گلاس پانی تو پلادیں'' بادلِ نخواستہ انھیں اندر بلایا، ملازمہ نے پانی اور کولڈ ڈرنک دونوں لاکر رکھ دیے، میں نے پڑوسن کو بھی روک لیا۔ اب وہ صاحب اپنی تعریف میں مصروف کہ کسی پرچے کے مدیر ہیں۔ عنقریب ایک ادبی پرچہ نکال رہے ہیں اور میرا افسانہ انھیں درکار ہے۔ میں اس دن گھر کی صفائی میں مصروف تھی، چاہ رہی تھی کہ موصوف جلدی جان چھوڑیں لہٰذا ان سے کہاکہ آپ اپنا پتہ دے جائیں، اگر ممکن ہوا تو افسانہ بھیج دوںگی۔ فی الحال اجازت چاہتی ہوں کہ مزید وقت دینا ممکن نہیں۔

یہ سن کر وہ بڑی مشکل سے اٹھے۔ دروازے تک گئے اور باہر نکلنے سے پہلے کہنے لگے ''میڈم دراصل میرے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں، میں بندر روڈ سے بس میں لٹک کر آیا ہوں۔ لاہور کا کرایہ نہیں ہے۔ میری ایک عزیزہ کراچی ہی میں رہتی ہیں لیکن ان کا موبائل نمبر کھوگیا ہے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ ازراہ کرم چار ہزار کی رقم بطور قرض مجھے دے دیجیے، میں لاہور جاکر واپس بھجوادوں گا''۔

یہ کہانی سن کر ہماری پڑوسن آگے بڑھیں اور بولیں ''چلیں آپ باہر تو نکلیں پھر کچھ سوچتے ہیں''۔ وہ صاحب دروازے سے باہر نہ نکلے تو پڑوسن نے کہا ''بھائی اگر ہم چاہیں تو ابھی گارڈ کے ذریعے آپ کو باہر نکلوا سکتے ہیں لیکن آپ شریف آدمی لگتے ہیں، اس لیے ایسا نہیں کررہے، ازراہ کرم باہر نکلیے اور اپنی رشتے دار خاتون سے جاکر کرایہ مانگ لیجیے۔ فون نمبر کھوگیا ہے لیکن ان کا پتہ تو آپ کے پاس ضرور ہوگا۔ اتنا کہہ کر انھوں نے دروازہ بند کرکے ٹھنڈی سانس لی۔

کچن کی کھڑکی سے جب وہ صاحب جاتے دکھائی دیے تو میں نے کہا ''رابعہ! تم نے چوکیدار کو کیوں نہیں بلایا'' وہ بولی ''باجی جو شخص اتنی عیاری اور چالاکی سے گھر میں گھس سکتا ہے اور ہم دو عورتیں بے وقوف بن سکتی ہیں تو نجانے اس کے ارادے کیا ہوں، اسی لیے میں نے نرم لہجہ اختیار کیا۔ اور پھر شام کو جب اختر بھائی آپ کی خبر لیںگے تو بھی مجھے بلالیجیے گا''۔ شام کو جب قاضی اختر تشریف لائے اور سارا قصہ سنا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بولے ''حیرت ہے، تعجب ہے، اگر کوئی واردات ہوجاتی تو؟ تم سے اتنے احمقانہ رویے کی امید نہیں تھی''۔

حقیقت یہ تھی کہ جیسے ہمیں ہپناٹائز کردیا گیا ہو کہ ہم نے اس بہروپیے کو اندر بلاکر تواضع بھی کی۔ شکر ہے کہ رابعہ ساتھ تھی، ملازمہ بھی موجود تھی اور گیٹ پر چوکیدار بھی تھا۔ بعد میں جب چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بتایاکہ وہ شخص ہاتھ میں ایکسپریس اخبار لیے ہوئے تھا، جس میں ہمارا کالم تھا، وہ دکھاکر اس نے چوکیدار سے فلیٹ کا نمبر پوچھا تھا۔ اس کے بعد بھی بعض مواقع آئے جہاں لوگوں نے کام نکالنے کی کوشش کی، لیکن تب ہم خاصے محتاط ہوچکے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں