ہیپاٹائٹس
میں اس سندھ کا باسی ہوں میں اْس دیس کا باشندہ ہوں جس کو پاکستان کہتے ہیں
NEW YORK:
دیاردل کی بات پوچھیے، رویے زار زارکہ حال نا پوچھیے۔ جب ریاستیں ٹوٹنے پھوٹنے لگتی ہیں کوئی ظلم ،کوئی جبر ہورہا ہوتا ہے تو یہ ضرورجانیے کہ ایسی ریاست کے شرفاء کھوٹے سِکوں کے مانند ہوتے ہیں ۔ان کے پاس دینے لیے کچھ نہیں صرف لینے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اپنی غرض میں غلطاں رہتے ہیں اور رعایا بے حال ۔ کوئی پْرسان حال نہیں چھت ،آسمان کی ہوتی ہے دیواریں گم ہوتی ہیں آنگن مٹی کا ہوتا ہے آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہوتے، بچے برہنہ گھوم رہے ہوتے ہیں اورچولہا جس کے نصیب میں صرف ٹھنڈا رہنا ہوتا ہے۔
میں اس سندھ کا باسی ہوں میں اْس دیس کا باشندہ ہوں جس کو پاکستان کہتے ہیں۔ یوں تو بہت کچھ ہے رونے کے لیے لیکن سندھ میں جس طرح ہیپا ٹائٹس پھیل رہا ہے کوئی اور بیماری شاید ہی اتنی تیزی سے پھیل رہی ہو۔اس کے باوجود کہ سندھ کے بجٹ کا دوسرا حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے کْل آبادی سندھ کی ساڑھے پانچ کروڑ ہوگی تو شہری ڈھائی کروڑ اور باقی دیہی ہوگی۔ یوں تو ادارے اور ان کی تباہی اس تفریق سے بالاہے مگر دیہی سندھ کے اندر اداروں کی تباہی بہت تیزی سے ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں غربت وسیع و جامع ہورہی ہے اورغربت جوکہ خود ایک بیماری ہے، ہیپا ٹائٹس کی بیماری اْس کا سرتاج بن رہی ہے۔
لگ بھگ 25% دیہی سندھ کا اِس بیماری میں گھائل یا اْس کی زد میں ہے یعنی پچھتر لاکھ لوگ اِس مرض میں مبتلا اور مبتلا ہونے کے دہانے پر ہیں۔ اس بیماری اس کی بنیادی وجہ غربت ہے ۔ ریاست کا گم ہونا اداروں کی تباہی اور جاگیردرانہ نظام ، پھر بھلے چاہے کتنی ہی جمہوریتیں آئیں اورآکر چلی جائیں ۔ میری اِن وجوہات سے وہ وجوہات ٹکراؤ میں نہیں، ہیپاٹائٹس جس پرکام کرنیوالے اپنی لغت میں اس طرح کہتے ہیں کہ لاعلمی اورعطائی ڈاکٹروں کی بے احتیاطی یعنی (Injection) بار بار استعمال کرنا، حجاموں کی پاکی اور اسپتالوں کے آپریشن تھیٹر ناقص (Sterlization) وغیرہ وغیرہ۔
اب لوگوں کو آگاہی کون دے ریاست؟ ریاست ہو توآگاہی دے اور یوں ہیپا ٹائٹس بی وسی کیVaccine کے لیے مْختص فنڈز میں جتنی خْرد بْرد ہوتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ۔بچوں کی غذائی قِلت کی وجہ سے پھیلتی بیماریاں اور حاملہ عورتوں کی غذا میں کمی ، خودکمزور بچے پیدا کرنے کا سبب ایک طرف تو دوسری طرف شاید ہی کوئی گلی،عام مروج چھوٹے قصبوں گاؤں کی گلیاں، مٹی سے بھر ے اور گندے نالوں سے اْبلتے پانی، تیسری طرف پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی۔جا کر اِن سندھیوں کو چہرے کو دیکھیے اور پھر یہ ہمارے لیڈر جن کو یہ ووٹ دیتے ہیں یہ اہل ہوس اور اس پر مبنی ریاست اوراس کی نفسیات تو یہ قتل گاہیں نہیں تو اورکیا ہیں؟
خاموش و چْپ چاپ بے سراغ و مخفی مقتل گاہیں کہ ان مقتل گاہوں و قاتلوں کو کسی کورٹ میں رجوع کیا نہیں جا سکتا اور جو کل پاناما کیس میں معین حد میں 184 (3)میں جو یہ بحث چلی تھی کہ نہ وکیل کو خبر تھی نہ عدالت کی حد کا تعین کریں تو کس طرح کریں اور کتنا کریں۔ آخر ہیں تو سبھی اِسی یرقان شدہ، افلاس زدہ، بدحال ،ذلتوں کے مارے ، لوگوں کے ووٹوں پر بنے یہ رہنما۔ یہ حکومتیں یہ افسر شاہیاں سب کے سب نِیو لبرل دائیں بازو ، نیو لبرل ، سیکیولر نیو لبرل قوم پرست نیو لبرل پیسے ہیں ، پیسے چْھپاؤ آف شورکمپنیاں بناؤ۔
پلاسٹک نوٹ جیب میں رکھو آف شور کمپنیوں کے ڈائریکٹرز فرضی،اکاؤنٹ فرضی،اکاؤنٹ سے نکلے پیسے فرضی اور پھر ہماری قومی نفسیات یہ ہے کہ ہم خود غرض ہوگئے ہیں۔ ہماری اجتماعیت فرضی ہو گئی ہے ۔ سند ھ میں آخرکار زرداری بھی سردار بن گئے۔ کوئی ذات پات کے چکر میں پڑگیا، آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا۔
دیہی سندھ کی نفسیات تو لاشعوری بن گئی ہے کہ جس کی لاٹھی اْس کی بھینس۔ اقتدار لو تو تھانیدار تمھارا ، پٹواری تمہارا، جب پٹواری اور تھانیدار تمھارا تو ذلتوں کہ یہ مارے لوگ تمھارے تابع۔ یہ ماتِم شب کی گھڑی ہے کہ ایک طرف سندھ کی صوفی اقدارکے لیے نبرد آزما ہونا ہے دوسری طرف سندھ کی جاگیر دار نفسیات کے خلاف جہد میں جانا ہے۔
واپس ہیپا ٹائٹس پر آتے ہوئے یہ کہتا ہوا چلوں کہ شعور رکھنے والے یا Philanthropist ہیں اْن کو آگے آنا پڑے گا یعنی میر ا جوگاؤں ہے اس کا وڈیرہ کوئی بھی ہو مجھے جانا ہوگا ۔اپنے بچوں اور ڈاکٹربیوی کو ساتھ لے کر ۔ ہالانی میں ایک بہت بڑا کیمپ لگانا ہوگا۔
ہر بام ودرکسی مفلس کی قبا بنی ہوئی ہے کہ ہر گھڑی اس میں درد کے پیوند لگے جاتے ہیں، آئیے ہم سب اپنے ہیپاٹائٹس سی و بی کا ٹیسٹ کروائیںتو جا کے اپنے اجداد کی قبروں پر میں یہ کہہ سکوں کہ اس لحد میں جانے سے پہلے میں وہ قرض چکا دوں جس مٹی نے مجھے اتنی عزت و شہرت دی ہے۔ ریاستوں پر قفل لگ جائے اور اس کے ادارے سائیں سائیں کرنے لگیں تو شعور رکھنے والے فلانتھیراپسٹ ریاست بن جائیں یا اس فقیر کی مانند بن جائیں جس طرح فیض کہتے ہیں
آج بازار میں پہ بہ جولاں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرجاناں چلو
یہ سارا خیال مجھے اس دوست کی دی ہوئی دستک پرآیا جو ڈاکٹر ہے اورامریکا سے اپنے ایک اور ڈاکٹر دوست کو ساتھ لایا ہے ڈاکٹر سلطان لغاری،ڈاکٹر فلک شیر جوکہ اِس وقت ضلع دادو کے نواح میں سیتا روڈ پرکیمپ لگا کے بیٹھے ہیں ۔سات دن ہو چکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی کیمپوں میں جارہے ہیں اور یہ اْن کے ٹیسٹ کرواتے ہیں کْل کیے ہوئے ٹیسٹوں میں سے لگ بھگ15%کے تناسب سے ہیپاٹائیٹس بی و سی میں مبتلا لوگ شناخت ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ڈاکٹر لاؤڈ اسپیکر لے کے گلیوں میں نکل پڑے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی ہو اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نیوی و سندھ حکومت نے بھی ان سے تعاون کیا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ روایت ہر شعور رکھنے والا اپنائے گا اور سلطان لغاری کی طرح بہت سے فلانتھراپسٹ گاؤں کو لوٹ آئیں گے کہ جو عزت و شہرت ان کو ملی ہے غالب کی ان سطروں کی مانند ادا کر سکیں۔
جاں دی، دی ہوئی اْس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو
یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ہم اپنی ذات پات سے اِس اور اْس سے، تم اور میںسے نکل کے بڑے کْل میں پڑ کے،اْن دہائیوںسے کی ہوئی ناانصافیوں کا سدباب کریں۔ اپنے معصوم بچوں اورگھر سے بڑے ہو کے اڑوس پڑوس کو یا مفادِ عامہ کے لیے کام کریں۔ تْرکی کے شاعر ناظِم حکمت کے ایک شعرکا ترجمہ فیض نے اس طرح کیا ہے۔
میری جاں تجھ کو بتلاؤں کیا
بہت نازک نقطہ ہے
بدل جاتا ہے انسان جب اس کا مکاں بدلتا ہے
میں اس کے معنی کچھ اس طرح سے لوں گا کہ یہ جو سب شکل بنی ہے۔ افلاس کی ماری میری سندھ دھرتی کی خصوصی دیہی سندھ کی، یہ اْس ردعمل کا حصہ ہے، جس کی اسی ریاست نے رسم رکھی جس کی وجہ سے ادارے اْجڑ گئے اور جن کو ان اداروں کی ضرورت تھی وہ بھی اْجڑ گئے،جن کو نہ تھی جو چند تھے وہ شرفاء رہ گئے اور ریاست اِن شرفاء کے مفادات کی امین بن گئی۔
دیاردل کی بات پوچھیے، رویے زار زارکہ حال نا پوچھیے۔ جب ریاستیں ٹوٹنے پھوٹنے لگتی ہیں کوئی ظلم ،کوئی جبر ہورہا ہوتا ہے تو یہ ضرورجانیے کہ ایسی ریاست کے شرفاء کھوٹے سِکوں کے مانند ہوتے ہیں ۔ان کے پاس دینے لیے کچھ نہیں صرف لینے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اپنی غرض میں غلطاں رہتے ہیں اور رعایا بے حال ۔ کوئی پْرسان حال نہیں چھت ،آسمان کی ہوتی ہے دیواریں گم ہوتی ہیں آنگن مٹی کا ہوتا ہے آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہوتے، بچے برہنہ گھوم رہے ہوتے ہیں اورچولہا جس کے نصیب میں صرف ٹھنڈا رہنا ہوتا ہے۔
میں اس سندھ کا باسی ہوں میں اْس دیس کا باشندہ ہوں جس کو پاکستان کہتے ہیں۔ یوں تو بہت کچھ ہے رونے کے لیے لیکن سندھ میں جس طرح ہیپا ٹائٹس پھیل رہا ہے کوئی اور بیماری شاید ہی اتنی تیزی سے پھیل رہی ہو۔اس کے باوجود کہ سندھ کے بجٹ کا دوسرا حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے کْل آبادی سندھ کی ساڑھے پانچ کروڑ ہوگی تو شہری ڈھائی کروڑ اور باقی دیہی ہوگی۔ یوں تو ادارے اور ان کی تباہی اس تفریق سے بالاہے مگر دیہی سندھ کے اندر اداروں کی تباہی بہت تیزی سے ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں غربت وسیع و جامع ہورہی ہے اورغربت جوکہ خود ایک بیماری ہے، ہیپا ٹائٹس کی بیماری اْس کا سرتاج بن رہی ہے۔
لگ بھگ 25% دیہی سندھ کا اِس بیماری میں گھائل یا اْس کی زد میں ہے یعنی پچھتر لاکھ لوگ اِس مرض میں مبتلا اور مبتلا ہونے کے دہانے پر ہیں۔ اس بیماری اس کی بنیادی وجہ غربت ہے ۔ ریاست کا گم ہونا اداروں کی تباہی اور جاگیردرانہ نظام ، پھر بھلے چاہے کتنی ہی جمہوریتیں آئیں اورآکر چلی جائیں ۔ میری اِن وجوہات سے وہ وجوہات ٹکراؤ میں نہیں، ہیپاٹائٹس جس پرکام کرنیوالے اپنی لغت میں اس طرح کہتے ہیں کہ لاعلمی اورعطائی ڈاکٹروں کی بے احتیاطی یعنی (Injection) بار بار استعمال کرنا، حجاموں کی پاکی اور اسپتالوں کے آپریشن تھیٹر ناقص (Sterlization) وغیرہ وغیرہ۔
اب لوگوں کو آگاہی کون دے ریاست؟ ریاست ہو توآگاہی دے اور یوں ہیپا ٹائٹس بی وسی کیVaccine کے لیے مْختص فنڈز میں جتنی خْرد بْرد ہوتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ۔بچوں کی غذائی قِلت کی وجہ سے پھیلتی بیماریاں اور حاملہ عورتوں کی غذا میں کمی ، خودکمزور بچے پیدا کرنے کا سبب ایک طرف تو دوسری طرف شاید ہی کوئی گلی،عام مروج چھوٹے قصبوں گاؤں کی گلیاں، مٹی سے بھر ے اور گندے نالوں سے اْبلتے پانی، تیسری طرف پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی۔جا کر اِن سندھیوں کو چہرے کو دیکھیے اور پھر یہ ہمارے لیڈر جن کو یہ ووٹ دیتے ہیں یہ اہل ہوس اور اس پر مبنی ریاست اوراس کی نفسیات تو یہ قتل گاہیں نہیں تو اورکیا ہیں؟
خاموش و چْپ چاپ بے سراغ و مخفی مقتل گاہیں کہ ان مقتل گاہوں و قاتلوں کو کسی کورٹ میں رجوع کیا نہیں جا سکتا اور جو کل پاناما کیس میں معین حد میں 184 (3)میں جو یہ بحث چلی تھی کہ نہ وکیل کو خبر تھی نہ عدالت کی حد کا تعین کریں تو کس طرح کریں اور کتنا کریں۔ آخر ہیں تو سبھی اِسی یرقان شدہ، افلاس زدہ، بدحال ،ذلتوں کے مارے ، لوگوں کے ووٹوں پر بنے یہ رہنما۔ یہ حکومتیں یہ افسر شاہیاں سب کے سب نِیو لبرل دائیں بازو ، نیو لبرل ، سیکیولر نیو لبرل قوم پرست نیو لبرل پیسے ہیں ، پیسے چْھپاؤ آف شورکمپنیاں بناؤ۔
پلاسٹک نوٹ جیب میں رکھو آف شور کمپنیوں کے ڈائریکٹرز فرضی،اکاؤنٹ فرضی،اکاؤنٹ سے نکلے پیسے فرضی اور پھر ہماری قومی نفسیات یہ ہے کہ ہم خود غرض ہوگئے ہیں۔ ہماری اجتماعیت فرضی ہو گئی ہے ۔ سند ھ میں آخرکار زرداری بھی سردار بن گئے۔ کوئی ذات پات کے چکر میں پڑگیا، آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا۔
دیہی سندھ کی نفسیات تو لاشعوری بن گئی ہے کہ جس کی لاٹھی اْس کی بھینس۔ اقتدار لو تو تھانیدار تمھارا ، پٹواری تمہارا، جب پٹواری اور تھانیدار تمھارا تو ذلتوں کہ یہ مارے لوگ تمھارے تابع۔ یہ ماتِم شب کی گھڑی ہے کہ ایک طرف سندھ کی صوفی اقدارکے لیے نبرد آزما ہونا ہے دوسری طرف سندھ کی جاگیر دار نفسیات کے خلاف جہد میں جانا ہے۔
واپس ہیپا ٹائٹس پر آتے ہوئے یہ کہتا ہوا چلوں کہ شعور رکھنے والے یا Philanthropist ہیں اْن کو آگے آنا پڑے گا یعنی میر ا جوگاؤں ہے اس کا وڈیرہ کوئی بھی ہو مجھے جانا ہوگا ۔اپنے بچوں اور ڈاکٹربیوی کو ساتھ لے کر ۔ ہالانی میں ایک بہت بڑا کیمپ لگانا ہوگا۔
ہر بام ودرکسی مفلس کی قبا بنی ہوئی ہے کہ ہر گھڑی اس میں درد کے پیوند لگے جاتے ہیں، آئیے ہم سب اپنے ہیپاٹائٹس سی و بی کا ٹیسٹ کروائیںتو جا کے اپنے اجداد کی قبروں پر میں یہ کہہ سکوں کہ اس لحد میں جانے سے پہلے میں وہ قرض چکا دوں جس مٹی نے مجھے اتنی عزت و شہرت دی ہے۔ ریاستوں پر قفل لگ جائے اور اس کے ادارے سائیں سائیں کرنے لگیں تو شعور رکھنے والے فلانتھیراپسٹ ریاست بن جائیں یا اس فقیر کی مانند بن جائیں جس طرح فیض کہتے ہیں
آج بازار میں پہ بہ جولاں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرجاناں چلو
یہ سارا خیال مجھے اس دوست کی دی ہوئی دستک پرآیا جو ڈاکٹر ہے اورامریکا سے اپنے ایک اور ڈاکٹر دوست کو ساتھ لایا ہے ڈاکٹر سلطان لغاری،ڈاکٹر فلک شیر جوکہ اِس وقت ضلع دادو کے نواح میں سیتا روڈ پرکیمپ لگا کے بیٹھے ہیں ۔سات دن ہو چکے ہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی کیمپوں میں جارہے ہیں اور یہ اْن کے ٹیسٹ کرواتے ہیں کْل کیے ہوئے ٹیسٹوں میں سے لگ بھگ15%کے تناسب سے ہیپاٹائیٹس بی و سی میں مبتلا لوگ شناخت ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ڈاکٹر لاؤڈ اسپیکر لے کے گلیوں میں نکل پڑے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہی ہو اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نیوی و سندھ حکومت نے بھی ان سے تعاون کیا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ روایت ہر شعور رکھنے والا اپنائے گا اور سلطان لغاری کی طرح بہت سے فلانتھراپسٹ گاؤں کو لوٹ آئیں گے کہ جو عزت و شہرت ان کو ملی ہے غالب کی ان سطروں کی مانند ادا کر سکیں۔
جاں دی، دی ہوئی اْس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو
یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ہم اپنی ذات پات سے اِس اور اْس سے، تم اور میںسے نکل کے بڑے کْل میں پڑ کے،اْن دہائیوںسے کی ہوئی ناانصافیوں کا سدباب کریں۔ اپنے معصوم بچوں اورگھر سے بڑے ہو کے اڑوس پڑوس کو یا مفادِ عامہ کے لیے کام کریں۔ تْرکی کے شاعر ناظِم حکمت کے ایک شعرکا ترجمہ فیض نے اس طرح کیا ہے۔
میری جاں تجھ کو بتلاؤں کیا
بہت نازک نقطہ ہے
بدل جاتا ہے انسان جب اس کا مکاں بدلتا ہے
میں اس کے معنی کچھ اس طرح سے لوں گا کہ یہ جو سب شکل بنی ہے۔ افلاس کی ماری میری سندھ دھرتی کی خصوصی دیہی سندھ کی، یہ اْس ردعمل کا حصہ ہے، جس کی اسی ریاست نے رسم رکھی جس کی وجہ سے ادارے اْجڑ گئے اور جن کو ان اداروں کی ضرورت تھی وہ بھی اْجڑ گئے،جن کو نہ تھی جو چند تھے وہ شرفاء رہ گئے اور ریاست اِن شرفاء کے مفادات کی امین بن گئی۔