خوردنی تیل انڈسٹری میں 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع

تیلدار بیجوں کی کاشت بڑھانے کیلیے زرعی شعبے کومعاونت فراہم کی جائے، مقررین


Business Reporter January 22, 2017
ایڈایبل کانفرنس کا انعقاد، انڈونیشیا وملائیشیا پر پاکستان میں سرمایہ کاری کیلیے زور۔ فوٹو: فائل

MULTAN: خوردنی تیل کی صنعت کے عالمی ماہرین نے پاکستان کو چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات کے بعد دنیا کی چوتھی بڑی مارکیٹ قرار دے دیا ہے۔

پاکستان تیل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جہاں خوردنی تیل کی امپورٹ، پروسیسنگ اور اسٹوریج کی سہولتوں میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ خوردنی تیل کی مقامی صنعت نے حکومت پر زور دیا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے خوردنی تیل کی درآمد پر عائد ٹیکسوں کو مناسب سطح پرلایا جائے تاہم خوردنی تیل کی صنعت میں اب تک 50ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے جبکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے خوردنی تیل کی طلب بھی بڑھ رہی ہے اور آئندہ چند سال کے دوران مزید 50ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

پاکستان ایڈ ایبل کانفرنس (پی ای او سی) 2017 کا انعقاد گزشتہ روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں کیا گیا، کانفرنس کا مقصد خوردنی تیل کی عالمی صنعت میں پاکستان کی ممتاز حیثیت اور نمایاں مقام کو تسلیم کراتے ہوئے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات کو اجاگر کرنا تھا۔ کانفرنس میں ملائیشیا، انڈونیشیا، برطانیہ،امریکا اور جرمنی سمیت دیگر ملکوں کے ماہرین اور خوردنی تیل کی مقامی صنعت سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

دوسری جانب تقریب کے مہمان خصوص ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹوایس ایم منیر نے نمائش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایکسپو بین الاقوامی معیار کے مطابق منعقد کی گئی جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور بیرونی تجارت بڑھانے کے روشن امکانات کودنیا کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معاشی اشاریے تیزی سے بہتر ہورہے ہیں جس کا اعتراف عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی جریدوں میں بھی کیا جارہا ہے، 2017پاکستان کی ترقی کا سال ثابت ہوگا، اس لحاظ سے خوردنی تیل کی کانفرنس کا انعقاد خوش آئند امر ہے۔


ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے کہا کہ پاکستان خوردنی تیل کی فی کس کھپت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ انہوں نے پاکستان کو خوردنی تیل برآمد کرنے والے 2 بڑوں ملکوں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں جبکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں توازن تجارت بہتر بنانے کے لیے پاکستانی مصنوعات کو انڈونیشیا اور ملائیشیا کی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ رسائی فراہم کریں، لاجسٹک اور پورٹ سے متعلق سہولتوں کے اعلیٰ معیار کی بدولت پاکستان خطے میں خوردنی تیل کے ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ کا مرکز بن کر ابھرے گا۔


ادھر پاکستان ایڈایبل آئل کانفرنس کے چیف ایگزیکٹو عبدالرشید جان محمد نے کہا کہ سالانہ بنیادوںپر ایڈایبل کانفرنس کے انعقاد سے عالمی منڈی میں پاکستان کے مقام اور حیثیت کو تسلیم کرانے میں مدد ملے گی، ساتھ ہی پاکستانی سرمایہ کاروں اور صنعت سے وابستہ افراد کو عالمی رجحانات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں آگہی فراہم ہوگی، پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ درآمد 2.6ملین ٹن جبکہ تیل دار بیجوں کی درآمد 2.2ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے، خوردنی تیل کی درآمدات پر انحصارکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تیل دار بیجوں کی کاشت میں اضافے کے لیے زرعی شعبے کو معاونت فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خوردنی تیل کی درآمد پر 30فیصد کے لگ بھگ ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد ہیں جن کو مناسب سطح پرلاکر عوام کو قیمتوں میں ریلیف دیا جاسکتا ہے۔


علاوہ ازیں کانفرنس میں برطانوی تحقیقی ادارے ایل ایم سی انٹرنیشنل کے چیئرمین ڈاکٹر جیمز فرے نے پام آئل کی پیداوار پر موسمی اثرات بالخصوص بارشوں کی کمی کے اثرات، انڈونیشی حکومت کی جانب سے بائیو فیول کو دی جانے والی مالی معاونت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بائیو ڈیزل سے معلق ممکنہ پالیسی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں پام آئل کی قیمتوں کے بارے میں امکانات سے آگاہ کیااور کہاکہ رواں سال پام آئل کی پیداوار اور سپلائی میں بہتری کی امید ہے۔


امریکی ادارے کونسیلی اگرا کی منیجنگ ڈائریکٹر ایمیلی فرنچ نے خصوصی مقالہ پیش کیا جبکہ امریکی سویا بین کونسل کے چیف ایگزیکٹو جیمز ٹیڈ سٹر، انڈونیشی ادارے گی اے پی کے آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد فاضل حسن، جرمن جریدے آئل ورلڈ آئی کے ڈائریکٹر و ایڈیٹر تھامس میلکے و دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔


کانفرنس کے موقع پر تکنیکی مباحثے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں شیخ امجدرشید، شہزاد علی خان، شکیل اشفاق، پرویز حسن خان، زین محمود، عبداﷲ ذکی، عثمان احمد اور رشید جان محمد نے شرکت کی اور خوردنی تیل کی صنعت کے مختلف شعبوں کو درپیش چیلنجز اور ترقی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں