ذکر اک تنازعے کا
کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اندر اور باہر سے مولوی نہیں ہوں
KARACHI:
کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اندر اور باہر سے مولوی نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے نظریات مولویانہ ہیں۔ نہ میں قدامت پسند ہوں۔ میں عورت کی ترقی کا قائل ہوں۔ اور میرا یقین ہے کہ عورت کے بغیر ملک و قوم کی ترقی ممکن نہیں۔ مجھے پاکستان کی کامیاب خواتین پر فخر ہے۔ لیکن سیاست میں محض خاتون ہونے کا فائدہ اٹھانا درست طرز عمل ہے نہ اس کا تعلق خواتین کے حقوق سے ہوتا ہے' سیاست کو صنفی امتیاز سے ماورا رہنا چاہیے۔
آجکل سندھ اسمبلی میں نصرت سحر عباسی اور امداد پتافی کا تنازعہ چل رہا ہے۔ ویسے تو بیچارے امداد پتافی کے ساتھ ان کی جماعت بھی نہیں ہے۔ بختاور بھٹو نے ان کے خلاف ٹوئٹ کر دیا ہے۔ اور بلاول نے ان کو شو کاز نوٹس جا ری کر دیا ہے۔ ایسے میں ان کے پاس نصرت سحر عباسی سے معافی مانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس تنازعہ میں بھی میرٹ کو نظر انداز کر کے صرف اس بات پر فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ نصرت سحر عباسی ایک خاتون ہیں۔ نصرت سحر عباسی کو خاتون ہونے کا فائدہ دیا گیا ہے۔
کیا منظر تھا کہ امداد پتافی ایوان میں انگریزی میں لکھا ہوا جواب نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ اور نصرت عباسی ان کی کمزور انگریزی کا مذاق بنا رہی تھیں۔ نصر ت سحر عباسی کو جب یہ معلوم ہو گیا تھا کہ امداد پتافی کی انگریزی کمزور ہے اور وہ انگریزی کا جواب نہیں پڑھ سکتے تو وہ بضد ہو گئیں کہ امداد پتافی انھیں انگریزی میں ہی جواب پڑھ کر سنائیں۔
کون غلط اور کون صحیح اس بحث میں پڑے بغیر دیکھا جائے تو ہر رد عمل کسی نہ کسی عمل کا نتیجہ ہو تا ہے۔ عمل اور رد عمل کو قانون میں بہت اہمیت حا صل ہے۔ ردعمل میں کیے جانے والے عمل کو قانون بھی نرمی سے دیکھتا ہے۔ جہاں تک امداد پتافی کے معاملہ کا تعلق ہے تو اس ملک میں کتنے لوگوں کو انگریزی آتی ہے اور کتنے لوگوں کو انگریزی نہیں آتی ہے۔ کیا انگریزی ہماری قومی زبان ہے۔ کیا کسی بھی رکن اسمبلی کے لیے اچھی انگریزی بولنا اور لکھنا ضروری ہے۔ کیا ارکان اسمبلی کے کاغذات منظور کرنے سے پہلے ان کا انگریزی کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ کیا انگریزی نہ آنے کے جرم میں کسی کا مذاق بنانا جائز ہے۔ لیکن شاید امداد پتافی ان میں سے کوئی بھی سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
کسی بھی تنازعہ میں میرٹ پر فیصلہ کے لیے موقع محل اور سیچویشن کو کلیدی حیثیت حا صل ہوتی ہے۔ لیکن اسمبلی کے معاملات میں ان نکات کو کون دیکھتا ہے۔
نصرت سحر عباسی اسمبلی میں کسی نہ کسی سے الجھتی رہتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ لڑائی سے بڑی خبر بنتی ہیں۔ ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدان محض خبر بنانے کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں اور اسمبلیوں میں غیرپارلیمانی الفاظ بول جاتے ہیں' ان میں مرد ارکان اسمبلی اور خواتین ارکان اسمبلی دونوں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی ایسی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں' بہر حال اگر کوئی مرد رکن اسمبلی کسی خاتون کے حوالے سے متنازعہ بات کرتا ہے تو یہ قابل مذمت ہے' اسی طرح اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی غلط بات کرتی ہے تو اس کی بھی سرزنش ہونی چاہیے۔
ویسے تو جس دن نصرت سحر عباسی کی امداد پتافی سے لڑائی ہوئی ہے اسی دن سندھ اسمبلی میں طلال چوہدری کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے لیکن اس پر کوئی شور نہیں مچایا گیا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں مردوں کی مردوں سے لڑائی کو اور نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کے قواعد بھی الگ ہیں۔ اسی طرح خاتون کی خاتون سے لڑائی کو بھی الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ خاتون اور مرد کی لڑائی کا تو پیمانہ ہی الگ ہے۔ اس کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں بس مرد کا ہی قصور ہے۔ مزہ کی بات تو یہ ہے کہ مرد بھی مرد کو ہی قصور وار ٹھہراتا ہے۔ اس لیے پتافی کے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔
پاکستان میں خواتین کو مصنوعی طریقہ سے ترقی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسمبلیوں میں خصوصی نشستوں نے خواتین میں ترقی کے بجائے استحصال کو پروان چڑھایا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خصوصی نشستوں پر اسمبلیوں میں آنے والی خواتین جمہوری میرٹ پر نہیں بلکہ نامزدگی کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں' دوسرے لفظوں میں یہ بڑے بڑے گھرانوں کی پراکسی ہیں۔ غریب یا متوسط طبقے سے جو سیاسی کارکن خواتین آگے آئی ہیں' ان کے میرٹ پر بھی کئی سوال ہیں۔
میرے خیال میں کسی رکن اسمبلی کو چیمبر میں آنے کی دعوت دینا غلط اور معیوب بات نہیں ہے۔ چیمبر ایک سرکاری دفتر ہے کوئی ذاتی رہائش نہیں ہے۔ اکثر رکن اسمبلی سرکاری کاموں کے سلسلے میں وزرا کو ان کے چیمبر میں ملتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کو بھی ان کے چیمبر میں ملا جاتا ہے۔ مجھے پارلیمانی رپورٹنگ میں دو دہائیوں سے زائد گزر گئے ہیں میں نے کئی بار دیکھا ہے جب کوئی رکن کسی سوال کے جواب پر مطمئن نظر نہ آئے تو وزیر موصوف کہہ دیتے ہیں کہ آپ میرے چیمبر میں آ جائیں میں آپ کی تسلی کروادوں گا۔
اسپیکر بھی ایسی ہدایات دے دیتے ہیں کہ آپ دونوں میرے چیمبر میں آجائیں ۔ لیکن اس بار یہ جرم ٹھہر گیا ہے۔شاید موقع اور لہجہ نے فقرے کی منطق ہی بدل دی ہے۔ یقینا مرد ارکان اسمبلی کو ایوان میں خواتین ارکان کے ساتھ مہذب اور اخلاق کے دائرہ میں گفتگو کرنی چاہیے۔ لیکن خواتین ارکان کو بھی درگزر سے کام لینا چاہیے کیونکہ اگر اسمبلیوں میں ارکان آپس میں لڑیں گے اور الزامات عائد کریں گے تو اس سے عوام میں منتخب نمایندوں کے بارے میں اچھا تاثر نہیں جاتا۔ اسمبلیوں میں ذاتیات پر نہیں قانون سازی پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ اسمبلیاں اسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہیں۔
کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اندر اور باہر سے مولوی نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے نظریات مولویانہ ہیں۔ نہ میں قدامت پسند ہوں۔ میں عورت کی ترقی کا قائل ہوں۔ اور میرا یقین ہے کہ عورت کے بغیر ملک و قوم کی ترقی ممکن نہیں۔ مجھے پاکستان کی کامیاب خواتین پر فخر ہے۔ لیکن سیاست میں محض خاتون ہونے کا فائدہ اٹھانا درست طرز عمل ہے نہ اس کا تعلق خواتین کے حقوق سے ہوتا ہے' سیاست کو صنفی امتیاز سے ماورا رہنا چاہیے۔
آجکل سندھ اسمبلی میں نصرت سحر عباسی اور امداد پتافی کا تنازعہ چل رہا ہے۔ ویسے تو بیچارے امداد پتافی کے ساتھ ان کی جماعت بھی نہیں ہے۔ بختاور بھٹو نے ان کے خلاف ٹوئٹ کر دیا ہے۔ اور بلاول نے ان کو شو کاز نوٹس جا ری کر دیا ہے۔ ایسے میں ان کے پاس نصرت سحر عباسی سے معافی مانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس تنازعہ میں بھی میرٹ کو نظر انداز کر کے صرف اس بات پر فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ نصرت سحر عباسی ایک خاتون ہیں۔ نصرت سحر عباسی کو خاتون ہونے کا فائدہ دیا گیا ہے۔
کیا منظر تھا کہ امداد پتافی ایوان میں انگریزی میں لکھا ہوا جواب نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ اور نصرت عباسی ان کی کمزور انگریزی کا مذاق بنا رہی تھیں۔ نصر ت سحر عباسی کو جب یہ معلوم ہو گیا تھا کہ امداد پتافی کی انگریزی کمزور ہے اور وہ انگریزی کا جواب نہیں پڑھ سکتے تو وہ بضد ہو گئیں کہ امداد پتافی انھیں انگریزی میں ہی جواب پڑھ کر سنائیں۔
کون غلط اور کون صحیح اس بحث میں پڑے بغیر دیکھا جائے تو ہر رد عمل کسی نہ کسی عمل کا نتیجہ ہو تا ہے۔ عمل اور رد عمل کو قانون میں بہت اہمیت حا صل ہے۔ ردعمل میں کیے جانے والے عمل کو قانون بھی نرمی سے دیکھتا ہے۔ جہاں تک امداد پتافی کے معاملہ کا تعلق ہے تو اس ملک میں کتنے لوگوں کو انگریزی آتی ہے اور کتنے لوگوں کو انگریزی نہیں آتی ہے۔ کیا انگریزی ہماری قومی زبان ہے۔ کیا کسی بھی رکن اسمبلی کے لیے اچھی انگریزی بولنا اور لکھنا ضروری ہے۔ کیا ارکان اسمبلی کے کاغذات منظور کرنے سے پہلے ان کا انگریزی کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ کیا انگریزی نہ آنے کے جرم میں کسی کا مذاق بنانا جائز ہے۔ لیکن شاید امداد پتافی ان میں سے کوئی بھی سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
کسی بھی تنازعہ میں میرٹ پر فیصلہ کے لیے موقع محل اور سیچویشن کو کلیدی حیثیت حا صل ہوتی ہے۔ لیکن اسمبلی کے معاملات میں ان نکات کو کون دیکھتا ہے۔
نصرت سحر عباسی اسمبلی میں کسی نہ کسی سے الجھتی رہتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ لڑائی سے بڑی خبر بنتی ہیں۔ ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدان محض خبر بنانے کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں اور اسمبلیوں میں غیرپارلیمانی الفاظ بول جاتے ہیں' ان میں مرد ارکان اسمبلی اور خواتین ارکان اسمبلی دونوں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی ایسی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں' بہر حال اگر کوئی مرد رکن اسمبلی کسی خاتون کے حوالے سے متنازعہ بات کرتا ہے تو یہ قابل مذمت ہے' اسی طرح اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی غلط بات کرتی ہے تو اس کی بھی سرزنش ہونی چاہیے۔
ویسے تو جس دن نصرت سحر عباسی کی امداد پتافی سے لڑائی ہوئی ہے اسی دن سندھ اسمبلی میں طلال چوہدری کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے لیکن اس پر کوئی شور نہیں مچایا گیا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں مردوں کی مردوں سے لڑائی کو اور نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کے قواعد بھی الگ ہیں۔ اسی طرح خاتون کی خاتون سے لڑائی کو بھی الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ خاتون اور مرد کی لڑائی کا تو پیمانہ ہی الگ ہے۔ اس کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں بس مرد کا ہی قصور ہے۔ مزہ کی بات تو یہ ہے کہ مرد بھی مرد کو ہی قصور وار ٹھہراتا ہے۔ اس لیے پتافی کے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔
پاکستان میں خواتین کو مصنوعی طریقہ سے ترقی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسمبلیوں میں خصوصی نشستوں نے خواتین میں ترقی کے بجائے استحصال کو پروان چڑھایا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خصوصی نشستوں پر اسمبلیوں میں آنے والی خواتین جمہوری میرٹ پر نہیں بلکہ نامزدگی کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں' دوسرے لفظوں میں یہ بڑے بڑے گھرانوں کی پراکسی ہیں۔ غریب یا متوسط طبقے سے جو سیاسی کارکن خواتین آگے آئی ہیں' ان کے میرٹ پر بھی کئی سوال ہیں۔
میرے خیال میں کسی رکن اسمبلی کو چیمبر میں آنے کی دعوت دینا غلط اور معیوب بات نہیں ہے۔ چیمبر ایک سرکاری دفتر ہے کوئی ذاتی رہائش نہیں ہے۔ اکثر رکن اسمبلی سرکاری کاموں کے سلسلے میں وزرا کو ان کے چیمبر میں ملتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کو بھی ان کے چیمبر میں ملا جاتا ہے۔ مجھے پارلیمانی رپورٹنگ میں دو دہائیوں سے زائد گزر گئے ہیں میں نے کئی بار دیکھا ہے جب کوئی رکن کسی سوال کے جواب پر مطمئن نظر نہ آئے تو وزیر موصوف کہہ دیتے ہیں کہ آپ میرے چیمبر میں آ جائیں میں آپ کی تسلی کروادوں گا۔
اسپیکر بھی ایسی ہدایات دے دیتے ہیں کہ آپ دونوں میرے چیمبر میں آجائیں ۔ لیکن اس بار یہ جرم ٹھہر گیا ہے۔شاید موقع اور لہجہ نے فقرے کی منطق ہی بدل دی ہے۔ یقینا مرد ارکان اسمبلی کو ایوان میں خواتین ارکان کے ساتھ مہذب اور اخلاق کے دائرہ میں گفتگو کرنی چاہیے۔ لیکن خواتین ارکان کو بھی درگزر سے کام لینا چاہیے کیونکہ اگر اسمبلیوں میں ارکان آپس میں لڑیں گے اور الزامات عائد کریں گے تو اس سے عوام میں منتخب نمایندوں کے بارے میں اچھا تاثر نہیں جاتا۔ اسمبلیوں میں ذاتیات پر نہیں قانون سازی پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ اسمبلیاں اسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہیں۔