پاناما کیس سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا اب فیصلے کا انتظار کریں سپریم کورٹ
پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پاناما کا دفاع کررہی ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ
پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے اور سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا لیکن اب فیصلے کا انتظار کریں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملا جیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سوالات فیصلہ نہیں ہوتے، سوالات پوچھنے کا مقصد وضاحت طلب کرنا ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم پہلے کہتے تھے کہ ہر چیز کلیئر کرنا چاہتا ہوں، معاملہ عدالت آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا، وزیراعظم نے اپنا کیس وکیل سمیت بچوں سے الگ کر دیا اور دستاویزات پیش کرنے کے بجائے استحقاق کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزراء عدالت آ رہے ہیں، حکومتی مشینری کیس کا دفاع کررہی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی، منگل کا دن اسمبلی میں نجی کارروائی کے لئے مختص ہوتا ہے لیکن انہوں نے منگل کو نہیں پیر کو تقریر کی۔ اگر وزیراعظم کو ذاتی وضاحت دینا تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ رولز معطل کرکے کوئی کارروائی کرے، کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی، اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہاہے، آپ آرٹیکل 69 پڑھیں اور اس پر دلائل دیں، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی، وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے بتایا کہ اپوزیشن نے تقریر کے بعد واک آؤٹ کیا۔
توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی، کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اس دن تقریر نہیں ہو سکتی۔ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے۔ ہم آپ کی جمع کروائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں، جس پر توفیق آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے، ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ نواز شریف کے نہیں، اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے، انہوں نے ثبوتوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ قانونی نکات کا انبار لگا دیا، پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پانامہ کا دفاع کررہی ہے، میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے، جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا، اب فیصلے کا انتظار کریں۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے جھوٹ بولا، پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے قبل سچ ثابت کرنا پڑتا ہے، سچ ثابت کرنے کے لیے انکوائری کرنا ہوتی ہے۔ جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملا جیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سوالات فیصلہ نہیں ہوتے، سوالات پوچھنے کا مقصد وضاحت طلب کرنا ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم پہلے کہتے تھے کہ ہر چیز کلیئر کرنا چاہتا ہوں، معاملہ عدالت آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا، وزیراعظم نے اپنا کیس وکیل سمیت بچوں سے الگ کر دیا اور دستاویزات پیش کرنے کے بجائے استحقاق کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزراء عدالت آ رہے ہیں، حکومتی مشینری کیس کا دفاع کررہی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی، منگل کا دن اسمبلی میں نجی کارروائی کے لئے مختص ہوتا ہے لیکن انہوں نے منگل کو نہیں پیر کو تقریر کی۔ اگر وزیراعظم کو ذاتی وضاحت دینا تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ رولز معطل کرکے کوئی کارروائی کرے، کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی، اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہاہے، آپ آرٹیکل 69 پڑھیں اور اس پر دلائل دیں، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی، وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے بتایا کہ اپوزیشن نے تقریر کے بعد واک آؤٹ کیا۔
توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی، کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اس دن تقریر نہیں ہو سکتی۔ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے۔ ہم آپ کی جمع کروائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں، جس پر توفیق آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے، ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ نواز شریف کے نہیں، اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے، انہوں نے ثبوتوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ قانونی نکات کا انبار لگا دیا، پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پانامہ کا دفاع کررہی ہے، میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے، جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا، اب فیصلے کا انتظار کریں۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے جھوٹ بولا، پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے قبل سچ ثابت کرنا پڑتا ہے، سچ ثابت کرنے کے لیے انکوائری کرنا ہوتی ہے۔ جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا۔