وادی کالام توجہ چاہتی ہے
ایشیاء کا سویٹرز لینڈ کہلانے والے سوات میں سیاحت کی بحالی نہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ صوبائی حکومت کی
LAHORE:
جون جولائی میں سورج کی حِدت جب شہریوں کے دماغ کو پگھلا دیتی ہے تو اے سی زدہ کمروں سے باہر نکلنے میں قاصر رہتے ہیں۔ ایسے میں جب گھروں میں قید ہوکر دم گھٹنے لگتا ہے تو وادیِ سوات کی قدرتی یخ بستہ ہواؤں اور حسین نظاروں کی یاد ستاتی ہے، اور یوں شہروں کے باسی سوات کے بلند و بانگ پہاڑوں اور جھیلوں کی جانب رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
سوات بیش بہا وادیوں سے مالامال ہے جو قدرت کے حسین نظاروں کو اپنے اندر سمیٹ کر سیاحوں کی راہ تکتی ہیں، لیکن اِن تمام وادیوں میں وادیِ کالام سوات کے حسین ماتھے کا جھومر کہلاتی ہے۔ اِس لئے اگر کوئی سیاح سوات جائے اور کالام پہنچے بغیر اپنا واپسی کا سفر باندھے تو گویا اُس نے سوات دیکھا ہی نہیں۔
سوات کے حُسن و جمال کا اندازہ پچھلے سیاحتی سیزن میں 'آئی ایس پی آر' کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق چار لاکھ سیاح وادیِ سوات میں وارد ہوئے تھے۔ سوات کی معیشت کا تمام تر دار و مدار سیاحت پر ہے، اور سوات کی وادی کالام میں ریڑھی بان سے لے کر ہوٹل انڈسٹری تک کا ذریعہ آمدن سیاحتی سیزن میں آنے والے مہمانوں سے وابستہ ہے۔
مگر شومئی قسمت کہ خراب انفراسٹرکچر اور سہولیات کے فقدان کے باعث وادیِ کالام میں سیاحتی سیزن صرف جون جولائی کے دو مہینوں تک ہی محدود ہوتا جارہا ہے۔ جیسے ہی 14 اگست کو یومِ آزادی کی چھٹی ختم ہوتی ہے، ویسے ہی یہاں کے سیاحتی سیزن کا بھی ''دی اینڈ'' ہوجاتا ہے، اور جیسے ہی سیاح یہاں سے کوچ کرتے ہیں مقامی لوگ بھی اپنا بوریا بستر گول کرکے اِس حسین وادی کو تن تنہا چھوڑ کر پیٹ کی آگ بُجھانے کے لئے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔
ہر سال نوے فیصد لوگ موسمِ سرما میں شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ اِس نقل مکانی کے باعث سر اُٹھاتے تعلیم سمیت دیگر مسائل ایک الگ موضوع ہے۔ جس کا احاطہ کرنے کے لئے درجنوں صفحات سیاہ کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا اِس بحث کو چھیڑے بغیر اصل موضوع کی طرف آؤں اور آپ کو وادیِ کالام میں لے کر چلوں جسے آج کل برف کی موٹی سفید چادر نے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
لیکن جتنی تعداد میں مقامی باشندے شہروں کی طرف بھاگ نکلے ہیں، تمام تر مسائل کے باوجود ملک بھر سے سیاح برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے وادی میں امڈ آتے ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد مرکزی بازار میں چہل پہل کرتی نظر آتی ہے۔ پتلون والوں کے مقابلے میں شلوار قمیض کے اوپر سواتی شال اور سر پر سواتی پکول زیب تن کئے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر نظر آتے ہیں۔
سیاحوں کی کثیر تعداد مرکزی بازار میں دریائے سوات کے اوپر پُل پر ہجوم کی صورت میں نظر آتے ہیں، اور چاروں طرف پھیلے خاموش مگر آسمان کو چھوتے بلند پہاڑوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہاں کی مقامی آبادی شہروں کی جانب کوچ کرگئی ہے تو پھر وادیِ کالام میں ایسا کیا رکھا ہے جس کی کشش سیاحوں کو کھینچ کر یہاں لے آتی ہے؟
اِس حوالے سے پاکستانی نژاد دو برطانوی سیاحوں وسیم اور زبیر نے اپنے خیالات کچھ یوں بیان کئے۔ وسیم کہتے ہیں کہ وہ کئی سیاحتی مقامات سے ہوکر کالام پہنچے ہیں، لیکن جوں ہی انہوں نے مدین پُل عبور کیا تو ایک عجیب کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ برف سے ڈھکے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ دو رویہ چلنے والے دریائے سوات کا منظر دیکھ کر وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ کچھ لمحوں کے لئے میں نے خود کو کسی پرستان سے گزرتے ہوئے پایا، لیکن اُن کے خواب اُس وقت چکنا چور ہوگئے جب بحرین تا کالام سڑک سے گزرتے ہوئے گاڑی ہچکولے کھانے لگی۔
وسیم نے مزید بتایا کہ اُنہیں اِس ساری صورت حال میں اِس بات کا اندازہ ہوا کہ لندن میں بھی تو بیش بہا سیاحتی مقامات موجود ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کی حکومت ایسے مقامات کو مصنوعی جنگلات اور سہولیات سے مزئین کرکے سیاحوں کی دلچسپی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، لیکن بحرین تا کالام کھنڈرات پر گاڑی گزارتے ہوئے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاحت ہماری حکومت کی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں۔ ہمارے ہاں سیاحت کو ذرہ برابر اہمیت حاصل نہیں، ورنہ کالام جیسے قدرتی حُسن سے مالامال وادی تک 30 کلومیٹر کا راستہ تو حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔
اِس حوالے سے زبیر خان کہتے ہیں کہ ہمارا مزہ تب پھیکا پڑگیا جب راستے میں ہماری گاڑی کیچڑ اور برف میں گھنٹوں پھنسی رہی۔ راستے میں بہت سی مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہم کالام پہنچیں ہیں۔ منزل تک پہنچتے ہوئے ہمارے سر پر اِس خوف کی تلوار لٹکی رہی کہ اگر سڑک پر خدا نخواستہ گاڑی پھسل کر ذرا بھی ڈانواں ڈول ہوئی تو سیدھی دریائے سوات کی نذر ہوجائے گی۔ حکومت اگر 35 کلومیٹر سڑک کی تعمیر اپنے لئے کوہِ گراں پار کرنا سجمھتی ہے تو کم از کم دریائے سوات کے اطراف میں حفاظتی پشتے تو لگادینے چاہیئے تاکہ سیاحوں پر جو خوف سوار ہوتا ہے اور سیاح جس ذہنی کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں اُس میں تھوڑا افاقہ ہوسکے، اور وہ دوبارہ آنے سے نہ کترائیں۔
قارئین کرام! یہاں پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بحرین تا کالام سڑک وفاقی ادارے این ایچ اے کے اختیار میں شامل ہے، اور وفاقی حکومت نے تو خیر، کے پی کے میں ایک کوڑی کے بھی ترقیاتی کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کی ترقی بھی محض پشاور اور دوسرے بڑے شہروں تک محدود ہے۔
ایک طرف وفاقی حکومت کالام کی مرکزی شاہراہ پر نظرِ کرم ڈالنے پر تیار نہیں تو دوسری طرف کالام کے بالائی علاقوں مٹلتان، مہوڈنڈ جھیل، اتروڑ اور گبرال کی سڑکیں صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ لیکن ایشیاء کا سویٹزر لینڈ کہلانے والے سوات میں سیاحت کی بحالی نہ ہی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ صوبائی حکومت کی۔
اگر اربابِ اختیار و اقتدار کو سیاسی ہُلڑ بازی سے تھوڑی فرصت ملے تو انہیں پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ''سیاحت'' کی اہمیت بھی جانچنی چاہیئے اور اِس کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے واضح حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیئے۔ سیاحت کی بحالی کے لئے بنیادی چیز اُن مقامات تک رسائی کے لئے سڑکیں ہیں، جن کو جنگی بنیادوں پر تعمیر کرنا چاہیئے۔ اگر کالام جیسے برف پوش علاقوں کی سڑکیں بہتر ہوجائیں تو یہاں سردیوں میں سیاحت گرمی کے سیزن کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کرسکتی ہے، جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ملکی معیشت میں انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جون جولائی میں سورج کی حِدت جب شہریوں کے دماغ کو پگھلا دیتی ہے تو اے سی زدہ کمروں سے باہر نکلنے میں قاصر رہتے ہیں۔ ایسے میں جب گھروں میں قید ہوکر دم گھٹنے لگتا ہے تو وادیِ سوات کی قدرتی یخ بستہ ہواؤں اور حسین نظاروں کی یاد ستاتی ہے، اور یوں شہروں کے باسی سوات کے بلند و بانگ پہاڑوں اور جھیلوں کی جانب رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
سوات بیش بہا وادیوں سے مالامال ہے جو قدرت کے حسین نظاروں کو اپنے اندر سمیٹ کر سیاحوں کی راہ تکتی ہیں، لیکن اِن تمام وادیوں میں وادیِ کالام سوات کے حسین ماتھے کا جھومر کہلاتی ہے۔ اِس لئے اگر کوئی سیاح سوات جائے اور کالام پہنچے بغیر اپنا واپسی کا سفر باندھے تو گویا اُس نے سوات دیکھا ہی نہیں۔
سوات کے حُسن و جمال کا اندازہ پچھلے سیاحتی سیزن میں 'آئی ایس پی آر' کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق چار لاکھ سیاح وادیِ سوات میں وارد ہوئے تھے۔ سوات کی معیشت کا تمام تر دار و مدار سیاحت پر ہے، اور سوات کی وادی کالام میں ریڑھی بان سے لے کر ہوٹل انڈسٹری تک کا ذریعہ آمدن سیاحتی سیزن میں آنے والے مہمانوں سے وابستہ ہے۔
مگر شومئی قسمت کہ خراب انفراسٹرکچر اور سہولیات کے فقدان کے باعث وادیِ کالام میں سیاحتی سیزن صرف جون جولائی کے دو مہینوں تک ہی محدود ہوتا جارہا ہے۔ جیسے ہی 14 اگست کو یومِ آزادی کی چھٹی ختم ہوتی ہے، ویسے ہی یہاں کے سیاحتی سیزن کا بھی ''دی اینڈ'' ہوجاتا ہے، اور جیسے ہی سیاح یہاں سے کوچ کرتے ہیں مقامی لوگ بھی اپنا بوریا بستر گول کرکے اِس حسین وادی کو تن تنہا چھوڑ کر پیٹ کی آگ بُجھانے کے لئے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔
ہر سال نوے فیصد لوگ موسمِ سرما میں شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ اِس نقل مکانی کے باعث سر اُٹھاتے تعلیم سمیت دیگر مسائل ایک الگ موضوع ہے۔ جس کا احاطہ کرنے کے لئے درجنوں صفحات سیاہ کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا اِس بحث کو چھیڑے بغیر اصل موضوع کی طرف آؤں اور آپ کو وادیِ کالام میں لے کر چلوں جسے آج کل برف کی موٹی سفید چادر نے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
لیکن جتنی تعداد میں مقامی باشندے شہروں کی طرف بھاگ نکلے ہیں، تمام تر مسائل کے باوجود ملک بھر سے سیاح برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے وادی میں امڈ آتے ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد مرکزی بازار میں چہل پہل کرتی نظر آتی ہے۔ پتلون والوں کے مقابلے میں شلوار قمیض کے اوپر سواتی شال اور سر پر سواتی پکول زیب تن کئے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر نظر آتے ہیں۔
سیاحوں کی کثیر تعداد مرکزی بازار میں دریائے سوات کے اوپر پُل پر ہجوم کی صورت میں نظر آتے ہیں، اور چاروں طرف پھیلے خاموش مگر آسمان کو چھوتے بلند پہاڑوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہاں کی مقامی آبادی شہروں کی جانب کوچ کرگئی ہے تو پھر وادیِ کالام میں ایسا کیا رکھا ہے جس کی کشش سیاحوں کو کھینچ کر یہاں لے آتی ہے؟
اِس حوالے سے پاکستانی نژاد دو برطانوی سیاحوں وسیم اور زبیر نے اپنے خیالات کچھ یوں بیان کئے۔ وسیم کہتے ہیں کہ وہ کئی سیاحتی مقامات سے ہوکر کالام پہنچے ہیں، لیکن جوں ہی انہوں نے مدین پُل عبور کیا تو ایک عجیب کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ برف سے ڈھکے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ دو رویہ چلنے والے دریائے سوات کا منظر دیکھ کر وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ کچھ لمحوں کے لئے میں نے خود کو کسی پرستان سے گزرتے ہوئے پایا، لیکن اُن کے خواب اُس وقت چکنا چور ہوگئے جب بحرین تا کالام سڑک سے گزرتے ہوئے گاڑی ہچکولے کھانے لگی۔
وسیم نے مزید بتایا کہ اُنہیں اِس ساری صورت حال میں اِس بات کا اندازہ ہوا کہ لندن میں بھی تو بیش بہا سیاحتی مقامات موجود ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کی حکومت ایسے مقامات کو مصنوعی جنگلات اور سہولیات سے مزئین کرکے سیاحوں کی دلچسپی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، لیکن بحرین تا کالام کھنڈرات پر گاڑی گزارتے ہوئے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاحت ہماری حکومت کی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں۔ ہمارے ہاں سیاحت کو ذرہ برابر اہمیت حاصل نہیں، ورنہ کالام جیسے قدرتی حُسن سے مالامال وادی تک 30 کلومیٹر کا راستہ تو حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔
اِس حوالے سے زبیر خان کہتے ہیں کہ ہمارا مزہ تب پھیکا پڑگیا جب راستے میں ہماری گاڑی کیچڑ اور برف میں گھنٹوں پھنسی رہی۔ راستے میں بہت سی مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہم کالام پہنچیں ہیں۔ منزل تک پہنچتے ہوئے ہمارے سر پر اِس خوف کی تلوار لٹکی رہی کہ اگر سڑک پر خدا نخواستہ گاڑی پھسل کر ذرا بھی ڈانواں ڈول ہوئی تو سیدھی دریائے سوات کی نذر ہوجائے گی۔ حکومت اگر 35 کلومیٹر سڑک کی تعمیر اپنے لئے کوہِ گراں پار کرنا سجمھتی ہے تو کم از کم دریائے سوات کے اطراف میں حفاظتی پشتے تو لگادینے چاہیئے تاکہ سیاحوں پر جو خوف سوار ہوتا ہے اور سیاح جس ذہنی کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں اُس میں تھوڑا افاقہ ہوسکے، اور وہ دوبارہ آنے سے نہ کترائیں۔
قارئین کرام! یہاں پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بحرین تا کالام سڑک وفاقی ادارے این ایچ اے کے اختیار میں شامل ہے، اور وفاقی حکومت نے تو خیر، کے پی کے میں ایک کوڑی کے بھی ترقیاتی کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کی ترقی بھی محض پشاور اور دوسرے بڑے شہروں تک محدود ہے۔
ایک طرف وفاقی حکومت کالام کی مرکزی شاہراہ پر نظرِ کرم ڈالنے پر تیار نہیں تو دوسری طرف کالام کے بالائی علاقوں مٹلتان، مہوڈنڈ جھیل، اتروڑ اور گبرال کی سڑکیں صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ لیکن ایشیاء کا سویٹزر لینڈ کہلانے والے سوات میں سیاحت کی بحالی نہ ہی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ صوبائی حکومت کی۔
اگر اربابِ اختیار و اقتدار کو سیاسی ہُلڑ بازی سے تھوڑی فرصت ملے تو انہیں پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ''سیاحت'' کی اہمیت بھی جانچنی چاہیئے اور اِس کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے واضح حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیئے۔ سیاحت کی بحالی کے لئے بنیادی چیز اُن مقامات تک رسائی کے لئے سڑکیں ہیں، جن کو جنگی بنیادوں پر تعمیر کرنا چاہیئے۔ اگر کالام جیسے برف پوش علاقوں کی سڑکیں بہتر ہوجائیں تو یہاں سردیوں میں سیاحت گرمی کے سیزن کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کرسکتی ہے، جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ملکی معیشت میں انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں