کیڑے کا نام ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ رکھ دیا گیا
اسے دریافت کرنے والے سائنسداں کا کہنا ہے کہ کیڑے کے سر کی رنگت ڈونلڈ ٹرمپ کے بالوں سے مشابہت رکھتی ہے۔
نئے دریافت ہونے والے ایک کیڑے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر سائنسی نام دے دیا گیا ہے جبکہ یہ کیڑا ایک قسم کا پروانہ ہے۔
کیڑے کا مکمل سائنسی نام ''نیوپالپا ڈونلڈٹرمپی'' (Neopalpa donaldtrumpi) ہے جس کی دریافت اور شناخت کا سہرا ڈاکٹر وزرک نذاری کے سر ہے جو امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک آزاد تحقیق کار ہیں یعنی ان کا کسی تحقیقی ادارے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے اس نودریافتہ کیڑے کی مکمل سائنسی وضاحت ''زُوکیز'' نامی آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع کروائی ہے جس کے مطابق یہ پروانہ جنوبی کیلیفورنیا اور میکسیکو میں پایا جاتا ہے جب کہ اب تک اسے پروانوں کی ایک اور متعلقہ نوع کا فرد سمجھا جاتا تھا۔ البتہ زیادہ باریک بینی کے ساتھ کیے گئے تفصیلی مطالعات سے انکشاف ہوا کہ یہ ایک جداگانہ نوع ہے جس کے سر کی رنگت سفیدی مائل پیلی ہے جو دیکھنے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بالوں جیسی لگتی ہے۔
البتہ نذاری کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مذاق اُڑانا نہیں بلکہ ان کی توجہ ان جانداروں کی طرف مبذول کروانا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آلودگی کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور اس وقت جنہیں بچانے کی اشد ضرورت ہے۔
کیڑے کا مکمل سائنسی نام ''نیوپالپا ڈونلڈٹرمپی'' (Neopalpa donaldtrumpi) ہے جس کی دریافت اور شناخت کا سہرا ڈاکٹر وزرک نذاری کے سر ہے جو امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک آزاد تحقیق کار ہیں یعنی ان کا کسی تحقیقی ادارے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے اس نودریافتہ کیڑے کی مکمل سائنسی وضاحت ''زُوکیز'' نامی آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع کروائی ہے جس کے مطابق یہ پروانہ جنوبی کیلیفورنیا اور میکسیکو میں پایا جاتا ہے جب کہ اب تک اسے پروانوں کی ایک اور متعلقہ نوع کا فرد سمجھا جاتا تھا۔ البتہ زیادہ باریک بینی کے ساتھ کیے گئے تفصیلی مطالعات سے انکشاف ہوا کہ یہ ایک جداگانہ نوع ہے جس کے سر کی رنگت سفیدی مائل پیلی ہے جو دیکھنے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بالوں جیسی لگتی ہے۔
البتہ نذاری کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مذاق اُڑانا نہیں بلکہ ان کی توجہ ان جانداروں کی طرف مبذول کروانا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آلودگی کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور اس وقت جنہیں بچانے کی اشد ضرورت ہے۔