سیاستدان اخلاقی اقدار ملحوظ رکھیں
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدانوں کے انتخاب اور تربیت کے لیے نہ تو ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی تربیتی پروگرام
پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی امداد پتافی نے اجلاس کے دوران فنکشنل لیگ کی رہنما نصرت سحر عباسی کی نشست پر جاکر ان سے جھک کر معافی مانگی اور انھیں بہن کہہ کر سندھی روایات کے مطابق چادر اوڑھائی۔ نصرت سحر نے رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلخیاں بھلا کر معافی قبول کرلی ہے۔ یہ ایک خوش آیند پہلو ہے، دونوں ارکان اسمبلی کو آپس کی تلخیاں بھلا کر ملک و قوم کے لیے کام کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
لیکن اس تمام معاملے میں جو تلخی تھی اس نے پوری قوم کو بدمزہ کیے رکھا۔ قوم اپنے لیڈروں کی پیروی کرتی ہے، سیاسی لیڈران اور منتخب وزرا بھی اسی زمرے میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ حکومتی ایوانوں کی کارروائیاں ہوں یا دیگر مواقع، تمام سیاسی حضرات کو اپنے طرز عمل سے اخلاقیات کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے لیکن گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران جس طرح کی نازیبا گفتگو اور فحش کلامی کی گئی وہ پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ یہ ایک عمومی رویہ بن گیا ہے، سیاستدانوں میں اخلاقیات کے اعلیٰ اوصاف شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
عوامی اجتماعات، ٹاک شوز اور اسمبلی اجلاس تک میں اکثر اصحاب کی عامیانہ گفتگو، اخلاقی اقدار کی پامالی، بازاری الفاظ میں الزام تراشیاں بلکہ بسا اوقات ہاتھا پائی کی نوبت جیسی صورت حال ایسے لوگوں کی سیاسی تربیت، بصیرت، نظم و ضبط اور اخلاق کے معیار کی غماز ہے۔ قومی اسمبلی میں خواجہ آصف اور شیریں مزاری کے درمیان بھی افسوسناک نوک جھونک ہوئی تھی، ایسی صورت حال سامنے آنے پر عام آدمی ان سیاستدانوں سے بدظن ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدانوں کے انتخاب اور تربیت کے لیے نہ تو ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی تربیتی پروگرام۔کیا عجب امر ہے کہ اداروں میں چپڑاسی جیسی معمولی جاب کے لیے تو باقاعدہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے جب کہ سیاستدانوں کے لیے ایسی کوئی قید نہیں۔ نتیجتاً ہر کچھ عرصے بعد ہمیں اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ سندھ اسمبلی میں ہوا۔اس واقعے سے یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ رکھنے والے سیاستدان عورت کو اب بھی اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں، اس رویے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ خود ہمارا مذہب ہمیں صنفی امتیاز برتنے سے گریز کی تلقین کرتا ہے۔
دوسری جانب نان ایشوز کی سیاست سے بھی گریز کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے، اسمبلی کے کتنے ہی اجلاس آپس کی بحث اور تلخیوں کی نذر ہوجاتے ہیں، جب کہ عوامی مسائل اپنے حل کے منتظر ہیں، سیاستدانوں کو اخلاقی اقدار ملحوظ رکھنے کے ساتھ اجلاسوں میں عوامی مسائل کے حل کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یہی راست رویہ ہوگا۔
لیکن اس تمام معاملے میں جو تلخی تھی اس نے پوری قوم کو بدمزہ کیے رکھا۔ قوم اپنے لیڈروں کی پیروی کرتی ہے، سیاسی لیڈران اور منتخب وزرا بھی اسی زمرے میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ حکومتی ایوانوں کی کارروائیاں ہوں یا دیگر مواقع، تمام سیاسی حضرات کو اپنے طرز عمل سے اخلاقیات کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے لیکن گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران جس طرح کی نازیبا گفتگو اور فحش کلامی کی گئی وہ پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ یہ ایک عمومی رویہ بن گیا ہے، سیاستدانوں میں اخلاقیات کے اعلیٰ اوصاف شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
عوامی اجتماعات، ٹاک شوز اور اسمبلی اجلاس تک میں اکثر اصحاب کی عامیانہ گفتگو، اخلاقی اقدار کی پامالی، بازاری الفاظ میں الزام تراشیاں بلکہ بسا اوقات ہاتھا پائی کی نوبت جیسی صورت حال ایسے لوگوں کی سیاسی تربیت، بصیرت، نظم و ضبط اور اخلاق کے معیار کی غماز ہے۔ قومی اسمبلی میں خواجہ آصف اور شیریں مزاری کے درمیان بھی افسوسناک نوک جھونک ہوئی تھی، ایسی صورت حال سامنے آنے پر عام آدمی ان سیاستدانوں سے بدظن ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدانوں کے انتخاب اور تربیت کے لیے نہ تو ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی تربیتی پروگرام۔کیا عجب امر ہے کہ اداروں میں چپڑاسی جیسی معمولی جاب کے لیے تو باقاعدہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے جب کہ سیاستدانوں کے لیے ایسی کوئی قید نہیں۔ نتیجتاً ہر کچھ عرصے بعد ہمیں اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ سندھ اسمبلی میں ہوا۔اس واقعے سے یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ رکھنے والے سیاستدان عورت کو اب بھی اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں، اس رویے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ خود ہمارا مذہب ہمیں صنفی امتیاز برتنے سے گریز کی تلقین کرتا ہے۔
دوسری جانب نان ایشوز کی سیاست سے بھی گریز کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے، اسمبلی کے کتنے ہی اجلاس آپس کی بحث اور تلخیوں کی نذر ہوجاتے ہیں، جب کہ عوامی مسائل اپنے حل کے منتظر ہیں، سیاستدانوں کو اخلاقی اقدار ملحوظ رکھنے کے ساتھ اجلاسوں میں عوامی مسائل کے حل کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یہی راست رویہ ہوگا۔