کشمیریوں کی ناراضگی کو سنجیدگی سے لیں
بی جے پی کے سنیئر سیاستدان ایل کے ایڈوانی کے اس بیان نے پاکستان کے لیے تو خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں
بی جے پی کے سنیئر سیاستدان ایل کے ایڈوانی کے اس بیان نے پاکستان کے لیے تو خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں کہ سندھ کی بھارت میں شمولیت کے بغیر بھارت جغرافیائی طور پر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں انھوں نے مودی کو طاقت کے استعمال کا مشورہ بھی دیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم مودی بلوچستان کے حوالہ سے بھی متنازعہ بیان دے چکے ہیں۔بی جے پی کی قیادت کے ان بیانات کی روشنی میں بی جے پی کی پاکستان کے حوالہ سے پالیسی سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
دوسری طرف کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ علی گیلانی سمیت ساری کشمیری قیادت پابند سلاسل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی درندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کشمیر کی جیلیں بھر گئی ہیں ، بھارتی درندگی سے کشمیر کے اسپتال بھر گئے ہیں لیکن کشمیریوں کا جذبہ کم نہیں ہوا۔ کشمیر یوں نے اپنے خون سے کشمیر کی آزادی کی جنگ کو زندہ رکھا ہے۔لیکن اس سب کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔ ہم پاکستان میں بیٹھ کر کشمیریوں کی جانب سے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی خبر اور ویڈیو کو دیکھ کر خوش تو ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں کہ کشمیری پاکستان سے اپنی اس محبت کی کیا قیمت چکاتے ہیں۔
بھارتی فوج کی نئی پالیسی کے تحت جو بھی کشمیری پاکستانی جھنڈا لہراتا ہے اس کو گرفتار کرنے کے بجائے اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے جاتے ہیں اور اس کا کسی بھی اسپتال میں علاج نہیں ہونے دیا جاتا۔ اس طرح وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتا ہے۔ لیکن ا س کے باوجود بھی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر میں آزادی کی جنگ کو نئی جدت ملی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بھارت ابھی تک برہان وانی کی شہادت سے کشمیر کی آزادی کو ملنے والی نئی جدت پر قابو پانے میں نا کام رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے حوالہ سے بھارتی قیادت کے بیان بھی اسی ناکامی کے عکاس ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے سی پیک کی وجہ سے بھی بھارت پریشان ہے اور سندھ اور بلوچستان کی سی پیک میں اہمیت کی وجہ سے ہی بھارت ان علاقوں پر ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ بھارت کی صورتحال تو سمجھ آرہی ہے ۔
کشمیر کی صورتحال بھی سمجھ آرہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشمیری قیادت کی پاکستانی حکومت سے ناراضگی بھی سامنے آرہی ہے۔ سید علی گیلانی کا کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے حوالہ سے بیان بھی خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ پاکستان سے بے انتہا محبت کرنے والی کشمیری قیادت حکومت پاکستان کی کشمیر پر کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔لیکن حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی سے تو حافظ سعید بھی خوش نہیں ہیں۔ وہ بھی علی گیلانی کی تائید کر رہے ہیں کہ کشمیر یوں کی جدو جہد کو حکومت پاکستان دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان نے برہان وانی کی شہادت کے بعد گو کہ دنیا بھر میں 22 پارلیمانی وفود بھیجے ہیں۔ لیکن ان وفود کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ دنیاکے مختلف ممالک میں بھیجے گئے وفود کو مسئلہ کشمیر سے مکمل آگاہی ہی نہیں تھی ۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے بھارتی پراپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔ ان وفود نے کشمیر کے مقدمہ کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کیا۔ شائد علی گیلانی اور حافظ سعید کو زیادہ غصہ انھی وفود کی کارکردگی پر ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں برہان وانی کی شہادت اور کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر کیا تھا۔لیکن کشمیریوں کا موقف ہے کہ اس کے بعد حکومت پاکستان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔
کشمیریوں کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما نذیر گیلانی نے موجودہ صورتحال پر کہا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اصل وارث عام کشمیری ہے۔ اس کی حمایت میں پاکستانی عوام اور حکومت پاکستان کا اہم معاونتی اور امدادی رول ہے ۔ اور حق خود ارادیت کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ انھوں نے کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے کیس کی صداقت پر ہر مشکل گھڑی میں ڈٹے رہیں ۔ انھیں ثابت قدم رہنا ہو گا۔ انسان کے حق اور صداقت کی امداد کے لیے آخر ابابیل آہی جاتے ہیں۔
اللہ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہر پاکستانی کو مقبوضہ کشمیر سے آنے والی آوازیں سنجیدگی سے سننا ہو نگی۔حافظ سعید نے 2017 کو کشمیر کا سال قرار دیا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے حو الہ سے پاکستان میں وہ یکسوئی نظر نہیں آرہی جس کی کشمیری ہم سے ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی پالیسی مختلف نظر آتی ہے۔ خود حکومت وقت بھی بھارت سے تعلقات کے حوالہ سے دو عملی کا شکار ہے۔ ہم کشمیر پر بات بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ یہ دونوں کام بیک وقت ممکن نہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم کشمیر کے بغیر بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن اب ہم کشمیر کے بغیر بھی بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس ضمن میں حافظ سعید کی یہ تجویز قابل عمل ہے سب سیاسی جماعتوں کو کشمیر پر قائد اعظم کے افکار پر یکسو ہونا چاہیے۔ کشمیر پر جو قائد اعظم دے گئے ہیں وہی ہمارا قومی موقف ہونا چاہیے۔
یہ بھی عجیب مشکل ہو گئی ہے کہ پاکستان میں کشمیر کی بات حافظ سعید کے بغیر نا مکمل ہو گئی ہے۔لیکن جب ایڈوانی سندھ کو بھارت کا حصہ قرار دے رہا ہو۔ مودی بلوچستان پر ہرزہ سرائی کر رہا ہوَ اور ہم حافظ سعید کی زبان بند کر رہے ہوں۔ تو یہ پالیسی بھی کوئی قابل فہم نظر نہیں آتی۔مودی اور ایڈوانی کو ان کی زبان میں صرف حافظ سعید ہی جواب دے سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حافظ سعید کو علی گیلانی سمیت مقبوضہ کشمیر کی قیادت کا اعتماد بھی حا صل ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے تو خلاف ہیں لیکن حافظ سعید کے ساتھ ہیں۔
ایسے میں حافظ سعید کو واقعی 2017 کو کشمیر کا سال منانے کے لیے مربوط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے ایک خوف ہے۔ کہ اگر ہم نے کشمیریوں کی محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو کیا ہوگا۔ اگر کشمیری بھارت کی طرح پاکستان کے بھی خلاف ہو گئے تو کیا ہوگا۔ اگر کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ کسی اور نعرہ میں بدل گیا تو کیا ہو گا۔ میں ایسے کسی منظر سے ڈر جاتا ہوں ۔ مجھے خوف آتا ہے۔ اگر ہم اسٹبلشمنٹ کی ڈیماند پر وزرا سے استعفیٰ لے لیتے ہیں تو پھرکشمیریوں کی ڈیمانڈ پر مولانا فضل الرحمٰن کوکشمیر کمیٹی کی سربراہی سے کیوں نہیں تبدیل کیا جا سکتا۔ اگر کشمیر واقعی ہماری شہ رگ ہے۔ تو شہ رگ سے اتنی بے رخی کیسی۔
دوسری طرف کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ علی گیلانی سمیت ساری کشمیری قیادت پابند سلاسل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی درندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کشمیر کی جیلیں بھر گئی ہیں ، بھارتی درندگی سے کشمیر کے اسپتال بھر گئے ہیں لیکن کشمیریوں کا جذبہ کم نہیں ہوا۔ کشمیر یوں نے اپنے خون سے کشمیر کی آزادی کی جنگ کو زندہ رکھا ہے۔لیکن اس سب کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔ ہم پاکستان میں بیٹھ کر کشمیریوں کی جانب سے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی خبر اور ویڈیو کو دیکھ کر خوش تو ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں کہ کشمیری پاکستان سے اپنی اس محبت کی کیا قیمت چکاتے ہیں۔
بھارتی فوج کی نئی پالیسی کے تحت جو بھی کشمیری پاکستانی جھنڈا لہراتا ہے اس کو گرفتار کرنے کے بجائے اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے جاتے ہیں اور اس کا کسی بھی اسپتال میں علاج نہیں ہونے دیا جاتا۔ اس طرح وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتا ہے۔ لیکن ا س کے باوجود بھی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر میں آزادی کی جنگ کو نئی جدت ملی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بھارت ابھی تک برہان وانی کی شہادت سے کشمیر کی آزادی کو ملنے والی نئی جدت پر قابو پانے میں نا کام رہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے حوالہ سے بھارتی قیادت کے بیان بھی اسی ناکامی کے عکاس ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے سی پیک کی وجہ سے بھی بھارت پریشان ہے اور سندھ اور بلوچستان کی سی پیک میں اہمیت کی وجہ سے ہی بھارت ان علاقوں پر ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ بھارت کی صورتحال تو سمجھ آرہی ہے ۔
کشمیر کی صورتحال بھی سمجھ آرہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشمیری قیادت کی پاکستانی حکومت سے ناراضگی بھی سامنے آرہی ہے۔ سید علی گیلانی کا کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے حوالہ سے بیان بھی خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ پاکستان سے بے انتہا محبت کرنے والی کشمیری قیادت حکومت پاکستان کی کشمیر پر کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔لیکن حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی سے تو حافظ سعید بھی خوش نہیں ہیں۔ وہ بھی علی گیلانی کی تائید کر رہے ہیں کہ کشمیر یوں کی جدو جہد کو حکومت پاکستان دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان نے برہان وانی کی شہادت کے بعد گو کہ دنیا بھر میں 22 پارلیمانی وفود بھیجے ہیں۔ لیکن ان وفود کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ دنیاکے مختلف ممالک میں بھیجے گئے وفود کو مسئلہ کشمیر سے مکمل آگاہی ہی نہیں تھی ۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے بھارتی پراپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔ ان وفود نے کشمیر کے مقدمہ کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کیا۔ شائد علی گیلانی اور حافظ سعید کو زیادہ غصہ انھی وفود کی کارکردگی پر ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں برہان وانی کی شہادت اور کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر کیا تھا۔لیکن کشمیریوں کا موقف ہے کہ اس کے بعد حکومت پاکستان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔
کشمیریوں کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما نذیر گیلانی نے موجودہ صورتحال پر کہا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا اصل وارث عام کشمیری ہے۔ اس کی حمایت میں پاکستانی عوام اور حکومت پاکستان کا اہم معاونتی اور امدادی رول ہے ۔ اور حق خود ارادیت کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ انھوں نے کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے کیس کی صداقت پر ہر مشکل گھڑی میں ڈٹے رہیں ۔ انھیں ثابت قدم رہنا ہو گا۔ انسان کے حق اور صداقت کی امداد کے لیے آخر ابابیل آہی جاتے ہیں۔
اللہ کے حضور دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہر پاکستانی کو مقبوضہ کشمیر سے آنے والی آوازیں سنجیدگی سے سننا ہو نگی۔حافظ سعید نے 2017 کو کشمیر کا سال قرار دیا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے حو الہ سے پاکستان میں وہ یکسوئی نظر نہیں آرہی جس کی کشمیری ہم سے ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی پالیسی مختلف نظر آتی ہے۔ خود حکومت وقت بھی بھارت سے تعلقات کے حوالہ سے دو عملی کا شکار ہے۔ ہم کشمیر پر بات بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ یہ دونوں کام بیک وقت ممکن نہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم کشمیر کے بغیر بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن اب ہم کشمیر کے بغیر بھی بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس ضمن میں حافظ سعید کی یہ تجویز قابل عمل ہے سب سیاسی جماعتوں کو کشمیر پر قائد اعظم کے افکار پر یکسو ہونا چاہیے۔ کشمیر پر جو قائد اعظم دے گئے ہیں وہی ہمارا قومی موقف ہونا چاہیے۔
یہ بھی عجیب مشکل ہو گئی ہے کہ پاکستان میں کشمیر کی بات حافظ سعید کے بغیر نا مکمل ہو گئی ہے۔لیکن جب ایڈوانی سندھ کو بھارت کا حصہ قرار دے رہا ہو۔ مودی بلوچستان پر ہرزہ سرائی کر رہا ہوَ اور ہم حافظ سعید کی زبان بند کر رہے ہوں۔ تو یہ پالیسی بھی کوئی قابل فہم نظر نہیں آتی۔مودی اور ایڈوانی کو ان کی زبان میں صرف حافظ سعید ہی جواب دے سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حافظ سعید کو علی گیلانی سمیت مقبوضہ کشمیر کی قیادت کا اعتماد بھی حا صل ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے تو خلاف ہیں لیکن حافظ سعید کے ساتھ ہیں۔
ایسے میں حافظ سعید کو واقعی 2017 کو کشمیر کا سال منانے کے لیے مربوط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے ایک خوف ہے۔ کہ اگر ہم نے کشمیریوں کی محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو کیا ہوگا۔ اگر کشمیری بھارت کی طرح پاکستان کے بھی خلاف ہو گئے تو کیا ہوگا۔ اگر کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ کسی اور نعرہ میں بدل گیا تو کیا ہو گا۔ میں ایسے کسی منظر سے ڈر جاتا ہوں ۔ مجھے خوف آتا ہے۔ اگر ہم اسٹبلشمنٹ کی ڈیماند پر وزرا سے استعفیٰ لے لیتے ہیں تو پھرکشمیریوں کی ڈیمانڈ پر مولانا فضل الرحمٰن کوکشمیر کمیٹی کی سربراہی سے کیوں نہیں تبدیل کیا جا سکتا۔ اگر کشمیر واقعی ہماری شہ رگ ہے۔ تو شہ رگ سے اتنی بے رخی کیسی۔