ترک فضائیہ کی شام میں بمباری داعش کے 65 شدت پسند ہلاک
بمباری شامی علاقے الباب میں کی گئی، روس صوبہ طرطوس میں اپنے بحری اڈے کی توسیع کرے گا
شام میں ترک فضائیہ کی کارروائی کے نتیجے میں داعش کے65 جنگجو مارے گئے جبکہ آستانہ میں شام کے حوالے سے امن مذاکرات شروع ہوگئے۔
ترک فوج نے پیرکے دن بتایا کہ یہ کارروائی شامی باغیوں کے تعاون سے کی گئی جس داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پانچ ماہ قبل انقرہ حکومت نے ملکی سرحد سے متصل شامی علاقوں میں عسکری کارروائی شروع کی تھی جس کا مقصد داعش اور دیگر جہادی تنظیموں کے کارکنوں کو ترکی میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ اس کارروائی کے دوران جنگجوؤں کے زیر قبضہ شمالی شامی شہر الباب کا کئی ہفتوں سے محاصرہ بھی جاری ہے۔
دوسری طرف وسطی ایشیائی ملک قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوگئے۔ مذاکرات کے پہلے ہی سیشن کے بعد باغیوں نے دھمکی دے دی کہ اگر امن مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ روس اور ترکی کی ثالثی سے ہونے والے مذاکرات 23 جنوری کی صبح شروع ہوئے جو24 جنوری تک جاری رہیں گے۔
ادھر مذاکرات میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے سفارتی سطح پر شرکت کی جبکہ اقوام متحدہ، روس، ترکی، ایران، شام اور باغیوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات نہ ہوسکے کیوں کہ باغیوں نے دمشق کے قریب بعض علاقوں میں حکومتی بمباری کو جواز بناتے ہوئے براہ راست مذاکرات سے انکارکردیا۔ تاہم باغیوں نے شامی حکومت، روس، ترکی اور اقوام متحدہ کے نمائدگان کی موجودگی میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی۔
روس کے وزارت دفاع کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ماسکو کے جنگی طیاروں نے مشرقی شام کے علاقے دیر الزور میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ باغیوں کے وفد کے چیف مذاکرات کار محمد آلوش نے کہا کہ اگر شامی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بند نہ کی گئیں تو وہ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت نہیں کریں گے۔
اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار الجعفری نے مذاکرات پر امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے جنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنے خصوصی ایلچی برائے شام اسٹافن ڈی مستورا کا بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے ایلچی نے جنگ بندی کے اقدامات کو مزید مضبوط کرنے اور آئندہ ماہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شام امن مذاکرات کے حوالے سے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کی۔
علاوہ ازیں روس شامی صوبے طرطوس میں اپنے بحری اڈے کی توسیع کرے گا،دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے کی ایک شق میں ایک خفیہ ضمیمے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت فریقین یعنی بشار حکومت اور روس اس سے متعلق کوئی تفصیل ظاہر نہیں کریں گے۔ شق کے مطابق فریقین معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق معلومات کو خفیہ رکھنے کے واسطے تمام تر ضروری اقدامات کریں گے۔
ترک فوج نے پیرکے دن بتایا کہ یہ کارروائی شامی باغیوں کے تعاون سے کی گئی جس داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پانچ ماہ قبل انقرہ حکومت نے ملکی سرحد سے متصل شامی علاقوں میں عسکری کارروائی شروع کی تھی جس کا مقصد داعش اور دیگر جہادی تنظیموں کے کارکنوں کو ترکی میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ اس کارروائی کے دوران جنگجوؤں کے زیر قبضہ شمالی شامی شہر الباب کا کئی ہفتوں سے محاصرہ بھی جاری ہے۔
دوسری طرف وسطی ایشیائی ملک قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان امن مذاکرات شروع ہوگئے۔ مذاکرات کے پہلے ہی سیشن کے بعد باغیوں نے دھمکی دے دی کہ اگر امن مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ روس اور ترکی کی ثالثی سے ہونے والے مذاکرات 23 جنوری کی صبح شروع ہوئے جو24 جنوری تک جاری رہیں گے۔
ادھر مذاکرات میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے سفارتی سطح پر شرکت کی جبکہ اقوام متحدہ، روس، ترکی، ایران، شام اور باغیوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات نہ ہوسکے کیوں کہ باغیوں نے دمشق کے قریب بعض علاقوں میں حکومتی بمباری کو جواز بناتے ہوئے براہ راست مذاکرات سے انکارکردیا۔ تاہم باغیوں نے شامی حکومت، روس، ترکی اور اقوام متحدہ کے نمائدگان کی موجودگی میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی۔
روس کے وزارت دفاع کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ماسکو کے جنگی طیاروں نے مشرقی شام کے علاقے دیر الزور میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ باغیوں کے وفد کے چیف مذاکرات کار محمد آلوش نے کہا کہ اگر شامی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بند نہ کی گئیں تو وہ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت نہیں کریں گے۔
اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار الجعفری نے مذاکرات پر امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے جنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنے خصوصی ایلچی برائے شام اسٹافن ڈی مستورا کا بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے ایلچی نے جنگ بندی کے اقدامات کو مزید مضبوط کرنے اور آئندہ ماہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شام امن مذاکرات کے حوالے سے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کی۔
علاوہ ازیں روس شامی صوبے طرطوس میں اپنے بحری اڈے کی توسیع کرے گا،دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے کی ایک شق میں ایک خفیہ ضمیمے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت فریقین یعنی بشار حکومت اور روس اس سے متعلق کوئی تفصیل ظاہر نہیں کریں گے۔ شق کے مطابق فریقین معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق معلومات کو خفیہ رکھنے کے واسطے تمام تر ضروری اقدامات کریں گے۔