ضرورت پڑی تو نواز شریف کو طلب کرسکتےہیں سپریم کورٹ

دستخط کے بغیرمریم نواز کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ


ویب ڈیسک January 24, 2017
نواز شریف12اکتوبر کو گرفتار ہوئے، معاہدے کے تحت بیرون ملک گئے،وکیل جماعت اسلامی فوٹو: فائل

KARACHI: پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ تمام فریقین کو سننے کے بعد اگر ضرورت پڑی تو نواز شریف کو طلب کرسکتے ہیں ورنہ نہیں بلائیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ دبئی مل کی ملکیت پرسنجیدہ شکوک ہیں، دبئی مل کے لئے طارق شفیع کا بیان حلفی درست نہیں تھا، جس پرجسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ شکوک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسارکیا کہ کیا آپ نے اس کوغلط ثابت کرنے کے لئے جوابی بیان حلفی دیا تھا۔ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ عدالت اگر چاہے تو شہادتیں بھی ریکارڈ کرا سکتی ہے۔

توفیق آصف کی جانب سے ظفرعلی شاہ کیس کا حوالہ دینے پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی،عدالت نے فیصلہ میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا، مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی کہ نوازشریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر ضرورت ہوئی تو نوازشریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں۔

سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغازاپنی موکلہ کے بیان سے شروع کیا، جس میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں شادی شدہ خاتون ہوں، میرے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، میرے شوہر نے 1986 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا، 1992 میں حاضرسروس کیپٹن سے میری شادی ہوئی، 1992 کے بعد سے میں کبھی بھی اپنے والد کے زیرکفالت نہیں رہی، میرے خاوند نے بعدازاں سول سروس جوائن کرلی لیکن انہیں غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ میرے شوہر1986سے ٹیکس ادا کررہے ہیں، ان کی آمدن کی تمام تفصیلات عدالت کو فراہم کردی ہیں۔

مریم نواز کا اپنے تحریری بیان میں کہنا تھا کہ 1999 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے بعد میرے والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا، جس پر وہ اپنے شوہر اور والدین کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئیں، 2007 میں جلاوطنی ختم کرکے واپس آئے اور شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیارکی، جن کی مالک میری دادی تھیں، میرے شوہر 2008 اور 2013 میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ میرے والد نے مجھے جو بھی قیمتی تحائف دیے وہ والد کی شفقت کے تحت دیے اوراس میں والدہ اوربھائیوں کی رضامندی بھی شامل تھی۔ میں کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینیفشل اونر نہیں رہی اور نا ہی کبھی ان سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا ہے۔ عدالت نے مریم نواز کا پیش کردہ بیان اس پردستخط نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دستخط کے بغیر مریم نواز کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ بعد ازاں مریم نواز کے وکیل کی جانب سے بیان پر دستخط کئے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے ان کا بیان قبول کرلیا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔

دوسری جانب پاناما لیکس پرجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں کو الگ کردیا گیا ہے، اس سلسلے میں عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ درخواستیں مختلف نوعیت کی ہیں، اس لئے انہیں یکجا کرکے الگ سے سنا جائے گا اوراس کی سماعت سپریم کورٹ کے علیحدہ بینچ کے روبرو ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔