سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز
2013 کے انتخابات میں ٹنڈو محمدخان کی صوبائی نشست پیپلز پارٹی کا امتحان ثابت ہو گی۔
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے، ضلع ٹنڈو محمد خان کی سیاسی شخصیات کو اپنے حلقوں کے عوام کی یاد ستانے لگی ہے اور وہ ان سے رابطہ کرنے کے گویا بہانے تلاش کر رہے ہیں۔
تھوڑا وقت مزید گزرے گا تو سیاست داں مقامی سطح پر خوشی اور غم کی تقریبات میں شریک نظر آئیں گے۔ ضلع ٹنڈو محمد خان قومی اسمبلی کے ایک حلقے 222، صوبائی اسمبلی کی دو نششتوں 53 اور 54 پر مشتمل ہے۔ این اے 222 ضلع کی تحصیل بلڑی شاہ کریم کی چھے یونین کونسلوں، تحصیل ٹنڈو محمد خان کی چھے یونین کونسلوں اور تعلقہ حیدرآباد کی یونین کونسلوں سیری، مولاں، ایڈیشنل مولاں، ہوسڑی اور ٹنڈو حیدر پر مشتمل ہے۔
اس حلقے کی کل آبادی 4 لاکھ 74 ہزاردو سو بارہ ہے، جب کہ ووٹروں کی تعداد مجموعی طور پر دو لاکھ 71 ہزار ایک سو چوالیس ہے، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 46 ہزار 82 اور خواتین ووٹرزکی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار 62 ہے۔ اس حلقے سے 1988 کے انتخابات سے 2008 کے انتخابات تک پیپلز پارٹی کے امیدوار کام یاب ہوتے رہے ہیں، جب کہ موجودہ وزیر دفاع سید نوید قمر اس حلقے سے منتخب ایم این اے ہیں۔
انھوں نے 2002 کے انتخابات میں53 ہزار سات سو پانچ اور 2008 کے انتخابات میں 84 ہزار 41 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ ان کے حریف پیر سجاد جان سرہندی2002 کے عام انتخابات میں میر پیر سید راجونی اتحادکے پلیٹ فارم سے 34 ہزار چھے سو ستائیس ووٹ اور2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کے پلیٹ فارم سے 26 ہزار تین سو 91 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس حلقے سے پانچ مرتبہ منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر سے عوام کو شکایت تھی کہ جیتنے کے بعد وہ اپنے حلقے میں نہیں آتے، جسے انھوں نے دور کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت میں بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس بار انھوں نے عوام سے مسلسل رابطہ رکھا اور ہر مشکل گھڑی میں اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ نظر آئے۔ انھوں نے اپنے حلقے میں خصوصاً دیہی علاقوں میں سیکڑوں دیہات کو بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی ہے، سڑکیں بنائی ہیں اور نوکریاں بھی دی ہیں، جس سے ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہوئی ہے۔
صوبائی اسمبلی کا حلقہ 54 بلڑی شاہ کریم ٹائون، مویا، لاکھاٹ اور ملاکاتیار پر مشتمل ہے، اس حلقے میں سابق ایم پی اے سید قبول محمد شاہ، پیپلز پارٹی کے سب سے مضبوط حریف سمجھے جاتے ہیں۔ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبد الکریم سومرو 24 ہزار 5 سو 49 ووٹ لے کرکام یاب ہوئے، لیکن پی پی پی کے لیے عوامی ہم دردی کے اس سیلاب میں بھی سید قبول محمد شاہ کے صاحب زادے سید کامل شاہ نے16 ہزار 5 سو 2 ووٹ حاصل کیے۔
سید قبول محمد شاہ صدر آصف علی زرداری کے دوست رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں آصف علی زرداری سے ان کی ملاقات کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ انتخابات سے قبل سید قبول محمد شاہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، جس کے بعد اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے آسانی سے جیت جانے کے امکانات ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے عبدالکریم کی موجودگی میں اس حلقے پر پیپلز پارٹی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ مشکل میں ضرور ڈالے گا۔
صوبائی اسمبلی کا حلقہ53 ٹنڈو محمد خان سٹی اور تعلقہ کی چھے یونین کونسلوں اور تعلقہ حیدر آباد دیہی کے علاقوں سیری، ٹنڈو فضل اور مولاں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کام یاب ہوتی رہی ہے۔ تاہم یہاں دیگر انتخابی حلقوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹر زیادہ ہے۔
عام انتخابات کے لیے ایک مرتبہ پھر پی پی پی کے مخالفوں نے نئے سیاسی جوڑ توڑ شروع کر دیے ہیں، فنکشنل لیگ، پیپلزپارٹی کی مخالف قوتوںکو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کام یاب ہوگئی ہے، خاص طور پر اس علاقے کی اہم سیاسی شخصیات قاف لیگ کے راہ نما میر اعجاز علی ٹالپر، میر عنایت ٹالپر اور پیر سجاد جان سرہندی کی فنکشنل لیگ میں شمولیت سے مقامی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ یہ سیاسی تبدیلی عام انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
2002 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید محسن شاہ بخاری کو پہلی مرتبہ شکشت ہوئی تھی، وہ آزاد امیدوار میر علی نواز ٹالپر سے صرف 466 ووٹوں سے ہارے تھے، ان انتخابات میں سید محسن شاہ بخاری نے 20 ہزار 83 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ ان کے حریف میر علی نواز ٹالپر نے 20 ہزار 5 سو 49 ووٹ حاصل کیے تھے۔ میر علی نواز ٹالپر کی اس غیر متوقع جیت میں ٹنڈو محمد خان شہر میں عوامی مقبولیت رکھنے والی تاجر برادری کا بہت بڑا کردار تھا۔ تاہم یہ دوستی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی اور ارباب غلام رحیم کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اختلافات کے باعث تاجر برادری اور میر گروپ میں دوریاں پیدا ہوگئیں، جو آج تک ہیں۔
اس کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کے امیدوارکو ہو گا۔ سید محسن شاہ بخاری 13جنوری 2012 کو انتقال کر گئے، جس کے بعد 25 فروری کو اس نشست پر ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ سیدہ وحیدہ محسن بخاری نے30 ہزار ایک سو 91 ووٹ جب کہ ان کے مدمقابل نیشنل پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار میر مشتاق علی ٹالپر نے13ہزار 2 سو 92 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپنی کام یابی کے اعلان سے چند لمحے قبل وحیدہ شاہ کے پولنگ افسر شگفتہ میمن کو تھپڑ مارنے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے اس حلقے کے نتائج روک لیے گئے، یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہونے کے باعث دو مرتبہ ضمنی انتخابات کا اعلان ہونے کے باوجود یہاں الیکشن نہیں کرائے جا سکے، جس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال سے اس حلقے سے سندھ اسمبلی میں کوئی نمایندگی نہیں ہے۔ اس مرتبہ عام انتخابات میں یہ نشست پیپلز پارٹی کا امتحان ثابت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے اس نشست پر پیپلز پارٹی کسے ٹکٹ جاری کرتی ہے۔
قوم پرستوں نے بھی عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، ضلع ٹنڈو محمد خان میں سندھ ترقی پسند پارٹی کا مضبوط نیٹ ورک قائم ہے، اس کے کارکن اور عہدے دار کئی برس سے علاقے میں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہاں خاصے مقبول ہیں۔ یہ لوگ ہر مسئلے پر سڑکوں پر عوام کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئر مین ڈاکٹر قادر مگسی نے صوبائی اسمبلی 53 کے لیے ایس ٹی پی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری کو امیدوار بھی نام زد کر دیا ہے۔
تھوڑا وقت مزید گزرے گا تو سیاست داں مقامی سطح پر خوشی اور غم کی تقریبات میں شریک نظر آئیں گے۔ ضلع ٹنڈو محمد خان قومی اسمبلی کے ایک حلقے 222، صوبائی اسمبلی کی دو نششتوں 53 اور 54 پر مشتمل ہے۔ این اے 222 ضلع کی تحصیل بلڑی شاہ کریم کی چھے یونین کونسلوں، تحصیل ٹنڈو محمد خان کی چھے یونین کونسلوں اور تعلقہ حیدرآباد کی یونین کونسلوں سیری، مولاں، ایڈیشنل مولاں، ہوسڑی اور ٹنڈو حیدر پر مشتمل ہے۔
اس حلقے کی کل آبادی 4 لاکھ 74 ہزاردو سو بارہ ہے، جب کہ ووٹروں کی تعداد مجموعی طور پر دو لاکھ 71 ہزار ایک سو چوالیس ہے، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 46 ہزار 82 اور خواتین ووٹرزکی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار 62 ہے۔ اس حلقے سے 1988 کے انتخابات سے 2008 کے انتخابات تک پیپلز پارٹی کے امیدوار کام یاب ہوتے رہے ہیں، جب کہ موجودہ وزیر دفاع سید نوید قمر اس حلقے سے منتخب ایم این اے ہیں۔
انھوں نے 2002 کے انتخابات میں53 ہزار سات سو پانچ اور 2008 کے انتخابات میں 84 ہزار 41 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ ان کے حریف پیر سجاد جان سرہندی2002 کے عام انتخابات میں میر پیر سید راجونی اتحادکے پلیٹ فارم سے 34 ہزار چھے سو ستائیس ووٹ اور2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کے پلیٹ فارم سے 26 ہزار تین سو 91 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس حلقے سے پانچ مرتبہ منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر سے عوام کو شکایت تھی کہ جیتنے کے بعد وہ اپنے حلقے میں نہیں آتے، جسے انھوں نے دور کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت میں بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس بار انھوں نے عوام سے مسلسل رابطہ رکھا اور ہر مشکل گھڑی میں اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ نظر آئے۔ انھوں نے اپنے حلقے میں خصوصاً دیہی علاقوں میں سیکڑوں دیہات کو بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی ہے، سڑکیں بنائی ہیں اور نوکریاں بھی دی ہیں، جس سے ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہوئی ہے۔
صوبائی اسمبلی کا حلقہ 54 بلڑی شاہ کریم ٹائون، مویا، لاکھاٹ اور ملاکاتیار پر مشتمل ہے، اس حلقے میں سابق ایم پی اے سید قبول محمد شاہ، پیپلز پارٹی کے سب سے مضبوط حریف سمجھے جاتے ہیں۔ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبد الکریم سومرو 24 ہزار 5 سو 49 ووٹ لے کرکام یاب ہوئے، لیکن پی پی پی کے لیے عوامی ہم دردی کے اس سیلاب میں بھی سید قبول محمد شاہ کے صاحب زادے سید کامل شاہ نے16 ہزار 5 سو 2 ووٹ حاصل کیے۔
سید قبول محمد شاہ صدر آصف علی زرداری کے دوست رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں آصف علی زرداری سے ان کی ملاقات کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ انتخابات سے قبل سید قبول محمد شاہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، جس کے بعد اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے آسانی سے جیت جانے کے امکانات ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے عبدالکریم کی موجودگی میں اس حلقے پر پیپلز پارٹی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ مشکل میں ضرور ڈالے گا۔
صوبائی اسمبلی کا حلقہ53 ٹنڈو محمد خان سٹی اور تعلقہ کی چھے یونین کونسلوں اور تعلقہ حیدر آباد دیہی کے علاقوں سیری، ٹنڈو فضل اور مولاں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کام یاب ہوتی رہی ہے۔ تاہم یہاں دیگر انتخابی حلقوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹر زیادہ ہے۔
عام انتخابات کے لیے ایک مرتبہ پھر پی پی پی کے مخالفوں نے نئے سیاسی جوڑ توڑ شروع کر دیے ہیں، فنکشنل لیگ، پیپلزپارٹی کی مخالف قوتوںکو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کام یاب ہوگئی ہے، خاص طور پر اس علاقے کی اہم سیاسی شخصیات قاف لیگ کے راہ نما میر اعجاز علی ٹالپر، میر عنایت ٹالپر اور پیر سجاد جان سرہندی کی فنکشنل لیگ میں شمولیت سے مقامی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ یہ سیاسی تبدیلی عام انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
2002 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید محسن شاہ بخاری کو پہلی مرتبہ شکشت ہوئی تھی، وہ آزاد امیدوار میر علی نواز ٹالپر سے صرف 466 ووٹوں سے ہارے تھے، ان انتخابات میں سید محسن شاہ بخاری نے 20 ہزار 83 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ ان کے حریف میر علی نواز ٹالپر نے 20 ہزار 5 سو 49 ووٹ حاصل کیے تھے۔ میر علی نواز ٹالپر کی اس غیر متوقع جیت میں ٹنڈو محمد خان شہر میں عوامی مقبولیت رکھنے والی تاجر برادری کا بہت بڑا کردار تھا۔ تاہم یہ دوستی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی اور ارباب غلام رحیم کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اختلافات کے باعث تاجر برادری اور میر گروپ میں دوریاں پیدا ہوگئیں، جو آج تک ہیں۔
اس کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کے امیدوارکو ہو گا۔ سید محسن شاہ بخاری 13جنوری 2012 کو انتقال کر گئے، جس کے بعد 25 فروری کو اس نشست پر ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ سیدہ وحیدہ محسن بخاری نے30 ہزار ایک سو 91 ووٹ جب کہ ان کے مدمقابل نیشنل پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار میر مشتاق علی ٹالپر نے13ہزار 2 سو 92 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپنی کام یابی کے اعلان سے چند لمحے قبل وحیدہ شاہ کے پولنگ افسر شگفتہ میمن کو تھپڑ مارنے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے اس حلقے کے نتائج روک لیے گئے، یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہونے کے باعث دو مرتبہ ضمنی انتخابات کا اعلان ہونے کے باوجود یہاں الیکشن نہیں کرائے جا سکے، جس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال سے اس حلقے سے سندھ اسمبلی میں کوئی نمایندگی نہیں ہے۔ اس مرتبہ عام انتخابات میں یہ نشست پیپلز پارٹی کا امتحان ثابت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے اس نشست پر پیپلز پارٹی کسے ٹکٹ جاری کرتی ہے۔
قوم پرستوں نے بھی عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، ضلع ٹنڈو محمد خان میں سندھ ترقی پسند پارٹی کا مضبوط نیٹ ورک قائم ہے، اس کے کارکن اور عہدے دار کئی برس سے علاقے میں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہاں خاصے مقبول ہیں۔ یہ لوگ ہر مسئلے پر سڑکوں پر عوام کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئر مین ڈاکٹر قادر مگسی نے صوبائی اسمبلی 53 کے لیے ایس ٹی پی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری کو امیدوار بھی نام زد کر دیا ہے۔