بلاول بھٹو کی عملی سیاست میں آمد

بلاول بھٹو کی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں کی جھلک نظر آئی۔

بلاول کی خالہ صنم بھٹو بھی بلاول کی تقریر کے دوران رو پڑیں۔ فوٹو : فائل

بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی پانچویں برسی پر خطاب سے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور وہ آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے۔

بلاول بھٹو نے روانی سے بڑی مؤثر اور جامع تقریر کی۔ جیالے ان کی تقریر کیلئے بڑے پرجوش تھے۔ بلاول بھٹو کی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں کی جھلک نظر آئی، تقریر میں نانا کی طرح جوش اور ماں جیسا لہجہ دونوں تھے جس سے انہوں نے اپنے نانااور ماں کی یاد دلادی۔ بلاول کی خالہ صنم بھٹو بھی برسی میں شرکت کیلئے موجود تھیں اور وہ بلاول کی تقریر کے دوران پیچھے کھڑے ہوکر رورہی تھیں۔ دراصل بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صنم بھٹو نے ہی بلاول، بختاور اور آصفہ کی دیکھ بھال کی۔ تقریر سن کر صدرزرداری کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔

وہ بڑی جذباتی تقریرتھی جس نے بلاول کو ایک اچھا مقررثابت کردیا۔ اس سال بے نظیر بھٹو کی برسی پر اجتماع جس میں ہر سال 27دسمبر کو لاکھوں کی تعداد میں پیپلزپارٹی کے جیالے، ہمدرد اور پارٹی رہنماء شریک ہوتے ہیں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہم تھا۔ ملکی حالات کچھ بھی ہوں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے چاہنے والوں کی اپنی قیادت کے ساتھ کمٹمنٹ میں کوئی فرق نہیں آیا۔ گڑھی خدا بخش میں کرائے کے لوگ بھی نہیں لائے جاتے۔

میں برسی سے ایک روز قبل صدر زرداری کی خصوصی دعوت پر صحافیوں کے وفد کے ساتھ لاڑکانہ پہنچا۔ اس وقت بھی بڑی تعداد میں لوگ قافلوں کی صورت میں گڑھی خدا بخش پہنچ رہے تھے ، ہر طبقے اورعمر کے افراد ان میں شامل تھے۔ گڑھی خدا بخش کے جلسے میںحد نگاہ تک لوگ ہی لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ جلسے اور پنڈال میں کسی جگہ کوئی کرسی نظر نہیں آرہی تھی ۔ بڑے شہروں میں جلسے کرنا آسان ہے مگر سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں لاکھوں کا اجتماع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔


وہاں بڑا عجیب منظر دیکھنے میں آیا لوگ ٹولیوں کی شکل میں اپنے خاندان، خواتین اور بچوں کے ہمراہ گاڑیوں میں اور پیدل آرہے تھے اور قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعد واپس جارہے تھے۔ اس نوعیت کا اجتماع پاکستان میںکہیں اور نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کی برسی میں دس لاکھ افراد کی شرکت کا دعویٰ کیا ہے ۔ بلاول بھٹو کی تقریر کی ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں جتنی کوریج ہوئی ہے اتنی ماضی میںگڑھی خدا بخش کے سیاسی جلسوں کی کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔

بلاول بھٹو نے اپنے باضابطہ سیاسی کیریئر کا آغاز تو کردیا ہے تاہم ابھی وہ پارلیمنٹ کے ممبر بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ پچیس سال کے ہونے کے بعد ہی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔ وہ اس سال ستمبر میں 25سال کے ہوجائیں گے تاہم وہ 2007ء سے ہی اپنی ماں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ کسی بھی جگہ سے نشست خالی کراکے ضمنی الیکشن کے ذریعے اسمبلی میں آجائیں گے۔ اس وقت مریم نواز، حمزہ شہباز شریف اور مونس الٰہی سمیت دیگر بھی سیاست میں ہیں مگر ان کا کسی بھی صورت بلاول بھٹو سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ بلاول بھٹو کو سیاست میں جو مقام حاصل ہے وہ ان میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ بلاول کے پاس شہیدوں کی وراثت ہے، دیگر پارٹیوں میں صرف کارکن قربانی دیتے ہیں کسی پارٹی نے اپنی لیڈر شپ کو قربان نہیں کیا مگر پیپلزپارٹی میں لیڈر قربانی دیتے ہیں، دو سابق وزرائے اعظم نے جان کی قربانی دی ۔

بلاول بھٹو کے بارے میں مخالفین کہتے ہیں کہ ابھی ان کی سیاست کی عمر نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست کریں۔ سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کا بیٹا راہول گاندھی بھی اسی طرح سیاست میں آیا اور اسے سیاست میں آئے ہوئے 10سال ہوگئے ہیں۔ سونیاگاندھی نے بھی صرف اپنا سیاسی رول رکھا ہے وہ نہ تو خود وزیراعظم بنیں اور نہ ہی بیٹے کو بنایا۔ اسی طرح آصف زرداری صدر پاکستان ہیں مگر پارٹی چیئرمین کا عہدہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس ہے کیونکہ پورے جنوبی ایشیا میں موروثی سیاست چلتی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی موروثی سیاست چل رہی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں گاندھی فیملی کی طرح سیاست میں بھٹو فیملی کے بھی پیروکار ہیںاور یہ پیروکار آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں موجود ہیں۔ اسی بناء پر پیپلزپارٹی وفاق کی پارٹی ہونے کی دعویدار جماعت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے بھی تعلیم مکمل کرنے کے فوری بعد میدان سیاست میں قدم رکھ،بلاول بھٹو زرداری نے بھی گزشتہ برس جولائی میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں بی اے آنرز کی سند حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی والدہ نے بھی اسی تعلیمی ادارے سے اسی شعبے میںسند حاصل کی تھی اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کے نمبر بھی برابر ہیں۔ صدر زرداری نے آئندہ لاہور کو سیاست کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہاں ان کا بم پروف گھر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ بلاول بھٹو انتخابات کے دوران اسی گھر میں رہیں گے اور اس طرح بلاول بھٹو فیکٹر بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوگا۔
Load Next Story