پیپلز پارٹی کی قیادت باقاعدہ بلاول بھٹو کے سپرد
27 دسمبر 2012 کو لوگ بلاول بھٹو زرداری کی ایک جھلک دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کے لیے انتظارکرتے رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27 دسمبر کو اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر ایک بڑے اور تاریخی جلسے عام سے اپنا پہلا خطاب کرکے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔
اس سے ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی ورثہ تیسری نسل کو منتقل ہوچکا ہے جس پر پیپلز پارٹی میں نیا عزم اور ولولہ پیدا ہوا ہے ۔ 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں جلسہ پیپلز پارٹی کی بھرپور طاقت کا مظاہرہ تھا ۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کا اتنا بڑا اجتماع شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے سوئم کے موقع پر ہوا تھا لیکن گڑھی خدا بخش میں اتنا بڑا جلسہ پہلی مرتبہ منعقد ہوا ۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی میں 4 اپریل 1987 ء کو شہید بھٹو کی 8ویں برسی پر ہونے والا اجتماع بھی بہت بڑا تھا ، ویسے تو شہید بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسیوں پر لاکھوں افراد مزار پر حاضری دیتے ہیں لیکن جلسہ میں سب لوگ شریک نہیں ہوتے کیونکہ دور دراز سفر کی وجہ سے لوگ تین دن تک آتے اور جاتے رہتے ہیں ۔
برسی والے دن لوگ مزار پر حاضری دینے کے بعد دوپہر میں چلے جاتے ہیں تاکہ دن کی روشنی میں واپسی کا زیادہ سفر کرلیں ۔ لیکن 27 دسمبر 2012 کو بہت بڑی تعداد میں لوگ بلاول بھٹو زرداری کی ایک جھلک دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کے لیے دن بھر انتظامات کرتے رہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے اپنے نوجوانوں لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ ان کا زبردست خیر مقدم بھی کیا ہے ۔
مختلف حلقوں کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کے خطاب پر تبصرے ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی والے بلاول کی شکل میں بھٹو اور بے نظیر کو دیکھ رہے ہیں ۔ سندھ کے قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے سندھ کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی ، پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لوگوں کا خیال ہے کہ بلاول نے ملک کے گھمبیر معاملات پر اپنی کوئی رائے نہیں دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب میں کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی جو ان کی شخصیت کو متنازع بنا دے اور یہی اس خطاب کی خوبی تھی ۔
ان کا انداز خطابت عوام کو بہت اچھا لگا ۔ پہلے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ بلاول لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے لیکن انھوں نے فی البدیہہ خطاب کرکے لوگوں کو حیران کردیا ۔ ان کی سیاست میں باقاعدہ آمد سے قبل پیپلز پارٹی کے لیے ایک سوال تھا کہ اس کی انتخابی مہم کون چلائے گا ۔ اب پیپلز پارٹی والوں کے لیے یہ سوال نہیں رہا لیکن سب سے بڑا مسئلہ بلاول بھٹو زرداری کی سیکورٹی کا ہے ۔ اس وقت پاکستان کے حالات 2007 ء سے بھی زیادہ خراب ہیں، اگر چہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج اور ریاستی اداروں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن دہشت گردی کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ ہوگیا ہے ۔
سیاسی اور انتخابی جلسوں سے بلاول بھٹو زرداری کا کثرت سے خطاب اس قدر آسان نہیں ہوگا ۔ پیپلز پارٹی اپنے نوجوان چیئرمین کی سیکورٹی کا ایک پلان بنا رہی ہے لیکن اسے حالات کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ملک بھر میں جلسوں کا پروگرام ترتیب دے رہی ہے ۔ ان جلسوں میں بعض جلسے ایسے بھی ہوں گے جن سے بلاول بھٹو ٹیلی فونک خطاب کریں گے تاہم پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین کی زیادہ سے زیادہ عوامی رابطہ مہم کی حکمت عملی بھی تیار کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے اہم امور میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں ۔
پارٹی اجلاسوں میں شرکت بھی باقاعدگی سے کرتے ہیں ۔ وہ پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی بات نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ ان باتوں پر ضروری کارروائی بھی کرتے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ بلاول نے اردو اور سندھی زبانیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔
دوسری طرف سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول پاکستان کی تاریخ کے انتہائی مشکل دور میں سیاست میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ملک خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے، بین الاقوامی سازشیں عروج پر ہیں اور پاکستانی معاشرہ تقسیم در تقسیم اور زبردست تضادات کا شکار ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو ان کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی اور بلاول پاکستان کے عظیم سیاسی خانوادے کے وارث ہیں اور ان کی تربیت بھی غیر معمولی ہے ۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کو سیاست میں لانے کے بعد اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ کرلیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں تک پیپلز پارٹی کو بچا کر لے آئے ہیں اور اب وہ اس ورثے کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کے مرحلے سے دو چار ہیں ۔ گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کو پارٹی کے حوالے کردیا ہے اب پارٹی ان کو سنبھالے ۔ اس تقریب میں صدر زرداری نے کراچی کے دو پسماندہ ٹاؤنز لیاری اور کیماڑی کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے ریورس اوسموسس (آر او ) پلانٹس کا افتتاح کیا ۔
یہ جدید پلانٹس ہیں جن کے ذریعہ سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنایا جائے گا ۔ صدر آصف علی زرداری نے تقریب کے شرکاء کو خوشخبری سنائی کہ اس طرح کے پلانٹس کراچی کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ تھر اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی نصب کیے جائیں گے ۔ تھر میں ایسے کچھ پلانٹس پہلے بھی کام کر رہے ہیں۔ صدر زرداری سندھ میں ترقیاتی کاموں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ان کاموں پر ہونے والی پیش رفت کی خود مانیٹرنگ کر رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اجلاسوں میں خصوصی شرکت کرتے ہیں ۔ گذشتہ تین سالوں سے مستقل سیلاب اور بارشوں کی تباہی کے باوجود جس طرح سندھ کے ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس سے ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی ورثہ تیسری نسل کو منتقل ہوچکا ہے جس پر پیپلز پارٹی میں نیا عزم اور ولولہ پیدا ہوا ہے ۔ 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں جلسہ پیپلز پارٹی کی بھرپور طاقت کا مظاہرہ تھا ۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کا اتنا بڑا اجتماع شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے سوئم کے موقع پر ہوا تھا لیکن گڑھی خدا بخش میں اتنا بڑا جلسہ پہلی مرتبہ منعقد ہوا ۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی میں 4 اپریل 1987 ء کو شہید بھٹو کی 8ویں برسی پر ہونے والا اجتماع بھی بہت بڑا تھا ، ویسے تو شہید بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسیوں پر لاکھوں افراد مزار پر حاضری دیتے ہیں لیکن جلسہ میں سب لوگ شریک نہیں ہوتے کیونکہ دور دراز سفر کی وجہ سے لوگ تین دن تک آتے اور جاتے رہتے ہیں ۔
برسی والے دن لوگ مزار پر حاضری دینے کے بعد دوپہر میں چلے جاتے ہیں تاکہ دن کی روشنی میں واپسی کا زیادہ سفر کرلیں ۔ لیکن 27 دسمبر 2012 کو بہت بڑی تعداد میں لوگ بلاول بھٹو زرداری کی ایک جھلک دیکھنے اور ان کا خطاب سننے کے لیے دن بھر انتظامات کرتے رہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے اپنے نوجوانوں لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ ان کا زبردست خیر مقدم بھی کیا ہے ۔
مختلف حلقوں کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کے خطاب پر تبصرے ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی والے بلاول کی شکل میں بھٹو اور بے نظیر کو دیکھ رہے ہیں ۔ سندھ کے قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے سندھ کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی ، پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لوگوں کا خیال ہے کہ بلاول نے ملک کے گھمبیر معاملات پر اپنی کوئی رائے نہیں دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب میں کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی جو ان کی شخصیت کو متنازع بنا دے اور یہی اس خطاب کی خوبی تھی ۔
ان کا انداز خطابت عوام کو بہت اچھا لگا ۔ پہلے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ بلاول لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے لیکن انھوں نے فی البدیہہ خطاب کرکے لوگوں کو حیران کردیا ۔ ان کی سیاست میں باقاعدہ آمد سے قبل پیپلز پارٹی کے لیے ایک سوال تھا کہ اس کی انتخابی مہم کون چلائے گا ۔ اب پیپلز پارٹی والوں کے لیے یہ سوال نہیں رہا لیکن سب سے بڑا مسئلہ بلاول بھٹو زرداری کی سیکورٹی کا ہے ۔ اس وقت پاکستان کے حالات 2007 ء سے بھی زیادہ خراب ہیں، اگر چہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج اور ریاستی اداروں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن دہشت گردی کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ ہوگیا ہے ۔
سیاسی اور انتخابی جلسوں سے بلاول بھٹو زرداری کا کثرت سے خطاب اس قدر آسان نہیں ہوگا ۔ پیپلز پارٹی اپنے نوجوان چیئرمین کی سیکورٹی کا ایک پلان بنا رہی ہے لیکن اسے حالات کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ملک بھر میں جلسوں کا پروگرام ترتیب دے رہی ہے ۔ ان جلسوں میں بعض جلسے ایسے بھی ہوں گے جن سے بلاول بھٹو ٹیلی فونک خطاب کریں گے تاہم پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین کی زیادہ سے زیادہ عوامی رابطہ مہم کی حکمت عملی بھی تیار کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے اہم امور میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں ۔
پارٹی اجلاسوں میں شرکت بھی باقاعدگی سے کرتے ہیں ۔ وہ پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی بات نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ ان باتوں پر ضروری کارروائی بھی کرتے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ان کی سیاسی تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ بلاول نے اردو اور سندھی زبانیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔
دوسری طرف سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول پاکستان کی تاریخ کے انتہائی مشکل دور میں سیاست میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ملک خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے، بین الاقوامی سازشیں عروج پر ہیں اور پاکستانی معاشرہ تقسیم در تقسیم اور زبردست تضادات کا شکار ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو ان کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی اور بلاول پاکستان کے عظیم سیاسی خانوادے کے وارث ہیں اور ان کی تربیت بھی غیر معمولی ہے ۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کو سیاست میں لانے کے بعد اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ کرلیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں تک پیپلز پارٹی کو بچا کر لے آئے ہیں اور اب وہ اس ورثے کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کے مرحلے سے دو چار ہیں ۔ گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کو پارٹی کے حوالے کردیا ہے اب پارٹی ان کو سنبھالے ۔ اس تقریب میں صدر زرداری نے کراچی کے دو پسماندہ ٹاؤنز لیاری اور کیماڑی کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے ریورس اوسموسس (آر او ) پلانٹس کا افتتاح کیا ۔
یہ جدید پلانٹس ہیں جن کے ذریعہ سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنایا جائے گا ۔ صدر آصف علی زرداری نے تقریب کے شرکاء کو خوشخبری سنائی کہ اس طرح کے پلانٹس کراچی کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ تھر اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی نصب کیے جائیں گے ۔ تھر میں ایسے کچھ پلانٹس پہلے بھی کام کر رہے ہیں۔ صدر زرداری سندھ میں ترقیاتی کاموں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ان کاموں پر ہونے والی پیش رفت کی خود مانیٹرنگ کر رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اجلاسوں میں خصوصی شرکت کرتے ہیں ۔ گذشتہ تین سالوں سے مستقل سیلاب اور بارشوں کی تباہی کے باوجود جس طرح سندھ کے ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔