علماء کی فلاح وبہود اورکشور زہرہ کا بل
ایک زمانہ تھا کہ عام لوگ کمیٹیاں ڈال کر اپنے بڑے بڑے اخراجات کے کام پورے کرلیا کرتے تھے۔
راقم نے سولہ دسمبرکوایک کالم بعنوان ''علما ء کا مقام اوران کی تنخواہیں'' لکھا تھا جس میں توجہ دلائی تھی کہ حکمرانوں کے بعد اب عوام نے بھی پہلے کی بہ نسبت اس طبقے کا خیال رکھنا ترک کردیا ہے یہ اور بات ہے کہ یہ طبقہ چاہے تو زیادہ پیسہ کمانے کے لیے منبرومسجد چھوڑ کر اعلیٰ تعلیمی اداروں وغیرہ میں ملازمت بھی اختیارکرسکتا ہے مگر یہ اپنے حال میں مست، مصیبت ومشقت برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کو دنیا سے نہیں، اپنے رب سے آخرت میں اس سے بہترملنے کی توقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سردی کے سخت موسم میں بھی مساجد میں اذان اورنماز اپنے وقت پر ہوتی ہے حالانکہ سردی کے سخت موسم میں کوئی واچ مین بھی ان کے سر پر نہیں ہوتا جب کہ سرکاری اداروں میں سخت قوانین کے باوجود ملازمین اپنی سیٹ پر نہیں ملتے۔
بہرکیف اس کالم کی پسندیدگی کے حوالے سے راقم کو پورے پاکستان سے تین دن تک فون آتے رہے، بعض نے تو اس طبقے کی و ہ داستان سنائی کہ دل سخت رنجیدہ ہوگیا، تاہم ایک فون پر دل کو بہت خوشی ہوئی، یہ فون ممبر قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے اپنے سیکریٹری سے کرایا تھا جنھوں نے بتایا کہ ان کی جانب سے علماء کی فلاح وبہود کے لیے ایک پرائیویٹ بل پیش کیا جا چکا ہے۔
انھوں نے اس بل کی کاپی بھی راقم کو بھیجی۔اس بل کا نام مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام ویلفیئر بل 2016ء ہے۔ اس بل میں اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے اچھی تجاویز ہیں مثلاًمساجد اورمدارس وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے مذہبی اسکالر، پیش امام اور خطیب وغیرہ سے متعلق 'مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام ویلفیئر بورڈ کا قیام جس کا چیئرمین مذہبی امورکا وزیر ہوگا اوراس کے ممبران میں مذہبی اسکالر، عالم اورپیش امام(تمام مسالک سے) ہونگے۔تمام صوبوں میں اس کے آفیسزہونگے۔اس بورڈ کے اہم مقاصد میں۔ مختلف سماجی ومعاشی فلاح و بہبودکی اسکیموں کے لیے فنڈزکا انتظام کرنا۔ مذہبی اسکالر، عالم،خطیب اور پیش امام وغیرہ کے لیے ماہانا مشاہرہ مقررکرنا اور پھر دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ اس میں بھی سالانہ بنیادوں پر اضافہ کرنا۔ حج، عمرہ اور زیارت کے لیے مختلف اسکیموں کا اجرا ء کرنا۔مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام کے لیے ویلفیئرز فنڈکا قیام۔
بل کی تفصیلات کافی زیادہ ہیں جواس مختصر سے کالم میں نہیں آسکتیں، بہرحال ایم این اے محترمہ کشورزہرہ کی یہ کوشش قابل تعریف ہے، تاہم راقم کا خیال ہے کہ اس بل کی منظوری سے قبل مختلف جید علماء کو تفصیلات دکھا کر رائے، مشورہ ضرور لے لیا جائے۔ (ہوسکتا ہے کہ یہ کام محترمہ نے کرلیا ہو) میرے مذکورہ کالم پر پورے پاکستان سے مدارس سے تعلق رکھنے والوں نے میری اس کوشش کی پزیرائی کی تھی،اس بل کے بعد یقینا محترمہ کشور زہرہ کی پذیرائی اس سے کہیں زیادہ ہوگی اور یہ طبقہ ان کے لیے شگر گزار بھی ہوگا۔ راقم بھی اس سلسلے میں کشور زہر ہ کا بے حد شکرگزار ہے کہ انھوں نے کالم پر اپنا فیڈ بیک دیا اور اتنی اہم کوشش سے آگاہ کیا۔
یہاں راقم کی کشور زہرہ سے گزارش ہے کہ وہ کراچی جیسے شہر میں ذاتی رہائش کے مسئلے پر بھی اسمبلی میں آواز اٹھائیں، ضرورت ہو تو راقم تفصیلی تجاویز وغیرہ بھی پیش کرسکتا ہے (واضع رہے کہ راقم کے روزنامہ ایکسپریس میں سن دوہزار سے مختلف مسائل پر کالم شایع ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تر شہری اور معاشرتی مسائل پر ہیں)۔ فی الحال مختصر اً عرض ہے کہ اس وقت ایک مکان خریدنا تو دورکی بات شہرکراچی میں تو ایک چھوٹاپلاٹ بھی پچاس لاکھ سے کم میں نہیں آتا۔کہنے کو تو حکومتیں بھی بڑے بڑے منصوبے رکھتی ہیں، مگر ذاتی رہائش کا نہ ہونا دن بہ دن بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ عام لوگ کمیٹیاں ڈال کر اپنے بڑے بڑے اخراجات کے کام پورے کرلیا کرتے تھے جن میں شادی، پلاٹ اورمکان کی خریداری جیسے معاملات شامل تھے لیکن جدید دور میں اب ایسے مسائل عوامی سطح پر مشکل ہی سے حل ہو تے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پلاٹ اور مکانات کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ کمیٹی ڈال کر بھی اتنی بڑی رقم کا بندو ست نہیں ہوسکتا، ایک ایماندار اٹھارہ اور انیس گریڈ کا سرکاری افسر بھی مکان خرید نے کی سکت نہیں رکھتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کوئی ایسی اسکیم نظرنہیں آتی کہ جس میں ایک شہری کو رہنے کے لیے مکان مل جائے اور وہ آسان قسطوں پر باقی رقم ادا کرتا رہے۔
یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، ذاتی مکان خریدنے کی ہمت نہ ہونے کے باعث شہریوں کی ایک بڑی تعداد کرائے کے مکانات میں رہتی ہے اورکرائے بھی پراپرٹی کی بڑھتی قیمت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں یوں آج جس کی ماہانہ آمدنی تیس ہزار بھی ہے اس کو بھی اپنی آدھی تنخواہ کرائے کے مد میں دینا پڑتی ہے، یہ کم سے کم ہے ورنہ شہر میں اس وقت ایک سو بیس گز مکان کے پورشن کا کرایہ بیس سے پچیس ہزار ادا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر حکومت کے جانب سے یا کسی اور این جی اوز کی جانب سے صرف ایک ایسی اسکیم متعارف کرادی جائے کہ مکانات کا فوری قبضہ دے کر ماہانہ رقم (رائج کرائے کے برابر) قسط کے طور پر لے لی جائے تو بھی بے گھر افراد کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں لوگوں ایک ایسی تعداد جو بینکوں سے قرضہ حاصل کرسکتی ہے وہ بینکوں سے سود پر قرضے حاصل کرکے اپنی ذاتی رہائش کا بندوبست کررہی ہے۔کچھ تعداد اسلامی بینکوں سے قرضہ لے کر یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ بلاسود ہے اورکچھ لوگ ان اسلامی بینکوں سے بھی قرضہ نہیں لے رہے ہیں کہ یہ بھی سود ہے۔ یوں سود پر قرضہ لینے والے اسلامی اعتبار سے 'اللہ اور اس کے رسول' سے جنگ کر رہے ہیں۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟ اس کے حل میں حکومت، این جی اوز اور صاحب حیثیت خصوصاً دینی ذہن رکھنے والے مالدارافراد کی کردارادا کرسکتے ہیں، مثلاً
(1۔ حکومت میرٹ پر مفت زمیں فراہم کرسکتی ہے اور جن سرکاری اداروں میں ملازمین کو پلاٹ نہیں دیے جاتے، کم ازکم ان بے گھر ملازمین کو پلاٹ دے دیے جائیں اورتعمیرکے لیے محکمے کی سطح پر بلا سود قرضہ دیا جائے جو ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں سے منہا کیا جاتا رہے۔
(2۔ مختلف این جی اوز خاص کر جن کا تعلق بلڈرز سے ہے وہ اپنے تیارشدہ منصوبوں میں فوری قبضہ اور رقم ماہانہ قسطوں پر لینے کی اسکیم شروع کرکے اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جوکرائے کے گھر میں رہتے ہیں یعنی وہ اپنے کرائے کی رقم ماہانہ قسط کے طورپر باآسانی ادا کرسکیں گے۔
(3۔ سیاسی اورخصوصاً مذہبی تنظیمیں اپنے رجسٹرڈ یا باقاعدہ کارکنوں کو بینکوں کی طرز پر بغیر سودکے قرضہ دے کر ایک اہم خدمت انجام دے سکتیں ہیں۔
راقم نے یہاں کچھ تجاویزپیش کردیں ہیں۔ اس امید کے ساتھ کے کشور زہرہ اور دیگر لوگ بھی اپنے اپنے طور پر اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریںگے اور عوام کی دعائیں حاصل کریں گے۔
بہرکیف اس کالم کی پسندیدگی کے حوالے سے راقم کو پورے پاکستان سے تین دن تک فون آتے رہے، بعض نے تو اس طبقے کی و ہ داستان سنائی کہ دل سخت رنجیدہ ہوگیا، تاہم ایک فون پر دل کو بہت خوشی ہوئی، یہ فون ممبر قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے اپنے سیکریٹری سے کرایا تھا جنھوں نے بتایا کہ ان کی جانب سے علماء کی فلاح وبہود کے لیے ایک پرائیویٹ بل پیش کیا جا چکا ہے۔
انھوں نے اس بل کی کاپی بھی راقم کو بھیجی۔اس بل کا نام مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام ویلفیئر بل 2016ء ہے۔ اس بل میں اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے اچھی تجاویز ہیں مثلاًمساجد اورمدارس وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے مذہبی اسکالر، پیش امام اور خطیب وغیرہ سے متعلق 'مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام ویلفیئر بورڈ کا قیام جس کا چیئرمین مذہبی امورکا وزیر ہوگا اوراس کے ممبران میں مذہبی اسکالر، عالم اورپیش امام(تمام مسالک سے) ہونگے۔تمام صوبوں میں اس کے آفیسزہونگے۔اس بورڈ کے اہم مقاصد میں۔ مختلف سماجی ومعاشی فلاح و بہبودکی اسکیموں کے لیے فنڈزکا انتظام کرنا۔ مذہبی اسکالر، عالم،خطیب اور پیش امام وغیرہ کے لیے ماہانا مشاہرہ مقررکرنا اور پھر دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ اس میں بھی سالانہ بنیادوں پر اضافہ کرنا۔ حج، عمرہ اور زیارت کے لیے مختلف اسکیموں کا اجرا ء کرنا۔مذہبی اسکالر، علماء اور پیش امام کے لیے ویلفیئرز فنڈکا قیام۔
بل کی تفصیلات کافی زیادہ ہیں جواس مختصر سے کالم میں نہیں آسکتیں، بہرحال ایم این اے محترمہ کشورزہرہ کی یہ کوشش قابل تعریف ہے، تاہم راقم کا خیال ہے کہ اس بل کی منظوری سے قبل مختلف جید علماء کو تفصیلات دکھا کر رائے، مشورہ ضرور لے لیا جائے۔ (ہوسکتا ہے کہ یہ کام محترمہ نے کرلیا ہو) میرے مذکورہ کالم پر پورے پاکستان سے مدارس سے تعلق رکھنے والوں نے میری اس کوشش کی پزیرائی کی تھی،اس بل کے بعد یقینا محترمہ کشور زہرہ کی پذیرائی اس سے کہیں زیادہ ہوگی اور یہ طبقہ ان کے لیے شگر گزار بھی ہوگا۔ راقم بھی اس سلسلے میں کشور زہر ہ کا بے حد شکرگزار ہے کہ انھوں نے کالم پر اپنا فیڈ بیک دیا اور اتنی اہم کوشش سے آگاہ کیا۔
یہاں راقم کی کشور زہرہ سے گزارش ہے کہ وہ کراچی جیسے شہر میں ذاتی رہائش کے مسئلے پر بھی اسمبلی میں آواز اٹھائیں، ضرورت ہو تو راقم تفصیلی تجاویز وغیرہ بھی پیش کرسکتا ہے (واضع رہے کہ راقم کے روزنامہ ایکسپریس میں سن دوہزار سے مختلف مسائل پر کالم شایع ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تر شہری اور معاشرتی مسائل پر ہیں)۔ فی الحال مختصر اً عرض ہے کہ اس وقت ایک مکان خریدنا تو دورکی بات شہرکراچی میں تو ایک چھوٹاپلاٹ بھی پچاس لاکھ سے کم میں نہیں آتا۔کہنے کو تو حکومتیں بھی بڑے بڑے منصوبے رکھتی ہیں، مگر ذاتی رہائش کا نہ ہونا دن بہ دن بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ عام لوگ کمیٹیاں ڈال کر اپنے بڑے بڑے اخراجات کے کام پورے کرلیا کرتے تھے جن میں شادی، پلاٹ اورمکان کی خریداری جیسے معاملات شامل تھے لیکن جدید دور میں اب ایسے مسائل عوامی سطح پر مشکل ہی سے حل ہو تے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پلاٹ اور مکانات کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ کمیٹی ڈال کر بھی اتنی بڑی رقم کا بندو ست نہیں ہوسکتا، ایک ایماندار اٹھارہ اور انیس گریڈ کا سرکاری افسر بھی مکان خرید نے کی سکت نہیں رکھتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کوئی ایسی اسکیم نظرنہیں آتی کہ جس میں ایک شہری کو رہنے کے لیے مکان مل جائے اور وہ آسان قسطوں پر باقی رقم ادا کرتا رہے۔
یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، ذاتی مکان خریدنے کی ہمت نہ ہونے کے باعث شہریوں کی ایک بڑی تعداد کرائے کے مکانات میں رہتی ہے اورکرائے بھی پراپرٹی کی بڑھتی قیمت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں یوں آج جس کی ماہانہ آمدنی تیس ہزار بھی ہے اس کو بھی اپنی آدھی تنخواہ کرائے کے مد میں دینا پڑتی ہے، یہ کم سے کم ہے ورنہ شہر میں اس وقت ایک سو بیس گز مکان کے پورشن کا کرایہ بیس سے پچیس ہزار ادا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر حکومت کے جانب سے یا کسی اور این جی اوز کی جانب سے صرف ایک ایسی اسکیم متعارف کرادی جائے کہ مکانات کا فوری قبضہ دے کر ماہانہ رقم (رائج کرائے کے برابر) قسط کے طور پر لے لی جائے تو بھی بے گھر افراد کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں لوگوں ایک ایسی تعداد جو بینکوں سے قرضہ حاصل کرسکتی ہے وہ بینکوں سے سود پر قرضے حاصل کرکے اپنی ذاتی رہائش کا بندوبست کررہی ہے۔کچھ تعداد اسلامی بینکوں سے قرضہ لے کر یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ بلاسود ہے اورکچھ لوگ ان اسلامی بینکوں سے بھی قرضہ نہیں لے رہے ہیں کہ یہ بھی سود ہے۔ یوں سود پر قرضہ لینے والے اسلامی اعتبار سے 'اللہ اور اس کے رسول' سے جنگ کر رہے ہیں۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟ اس کے حل میں حکومت، این جی اوز اور صاحب حیثیت خصوصاً دینی ذہن رکھنے والے مالدارافراد کی کردارادا کرسکتے ہیں، مثلاً
(1۔ حکومت میرٹ پر مفت زمیں فراہم کرسکتی ہے اور جن سرکاری اداروں میں ملازمین کو پلاٹ نہیں دیے جاتے، کم ازکم ان بے گھر ملازمین کو پلاٹ دے دیے جائیں اورتعمیرکے لیے محکمے کی سطح پر بلا سود قرضہ دیا جائے جو ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں سے منہا کیا جاتا رہے۔
(2۔ مختلف این جی اوز خاص کر جن کا تعلق بلڈرز سے ہے وہ اپنے تیارشدہ منصوبوں میں فوری قبضہ اور رقم ماہانہ قسطوں پر لینے کی اسکیم شروع کرکے اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جوکرائے کے گھر میں رہتے ہیں یعنی وہ اپنے کرائے کی رقم ماہانہ قسط کے طورپر باآسانی ادا کرسکیں گے۔
(3۔ سیاسی اورخصوصاً مذہبی تنظیمیں اپنے رجسٹرڈ یا باقاعدہ کارکنوں کو بینکوں کی طرز پر بغیر سودکے قرضہ دے کر ایک اہم خدمت انجام دے سکتیں ہیں۔
راقم نے یہاں کچھ تجاویزپیش کردیں ہیں۔ اس امید کے ساتھ کے کشور زہرہ اور دیگر لوگ بھی اپنے اپنے طور پر اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریںگے اور عوام کی دعائیں حاصل کریں گے۔