امریکا دوراہے پر

اخباروں میں بہت دلچسپ کارٹون چھپ رہے ہیں۔ دونوں صدور کے درمیان موازنے ہورہے ہیں۔


Zahida Hina January 25, 2017
[email protected]

وہائٹ ہاؤس میں 8 برس گزار کر امریکا کے 44ویں صدر بارک اوباما، وقار اور لوگوں کے دلوں میں احترام کے جذبات کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے۔ یوں تو ہر صدر جب اپنی مدت صدارت گزار کر رخصت ہوتا ہے تو اس کا ذاتی اسٹاف جس نے اس کے ساتھ 4 یا 8برس گزارے ہوتے ہیں، وہ افسردہ اور ملول ہوتا ہے لیکن سابق صدر اوباما کے لیے ان کے لوگوں کی آزردگی دیدنی تھی۔

محسوس ہوتا تھاکہ ہر شخص دل کی گہرائیوں سے آزردہ ہے۔ اوباما بھی اس گرم جوشی کا اسی طرح جواب دیتے نظر آئے۔ ان ہی کی طرح مشیل اوباما بھی اپنے ہم کاروں سے بہت تپاک کے ساتھ ملتی ہوئی نظر آئیں۔ امریکی عوام کے نام اپنے آخری خط میں بارک اوباما نے کہا کہ یہ ایک پرانی روایت ہے کہ رخصت ہونے والا امریکی صدر نومنتخب صدر کے لیے ایک رخصتی خط چھوڑ کر جاتا ہے جس کا مقصد ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والے فرد کو اپنے تجربات میں شریک کرنا ہوتا ہے۔

45 ویں صدر کے لیے آخری خط چھوڑنے سے پہلے میں آپ سب کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے مجھے امریکا کے 44 ویں صدر ہونے کا اعزاز عطا کیا تھا۔ میں نے اپنے دور صدارت میں جو کچھ سیکھا وہ سب آپ سے سیکھا۔ آپ نے مجھے ایک بہتر صدر اور ایک بہتر انسان بنایا۔ ان آٹھ برسوں میں آپ نے مجھے توانائی اور امید عطا کی۔ یاد رکھیں امریکا صرف کسی ایک فرد کا نہیں ہے۔ ہماری جمہوریت میں جو لفظ سب سے طاقتور ہے وہ ''ہم'' ہے۔ ''ہم جو عوام ہیں۔ ہم ہر مشکل پر قابو پائیں گے''۔

ایک طرف یہ رویہ تھا اور دوسری طرف امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی رعونت کے ساتھ وہائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے لیے حلف اٹھا رہے تھے۔ ان کا لہجہ دبنگ تھا اور وہ امریکا میں رہنے والے تارکین وطن کے ساتھ ہی ساری دنیا کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ وہ ایک ایسے نومنتخب صدر ہیں جن کی پسندیدگی کا گراف امریکی تاریخ میں سب سے کم ہے۔ دوسری طرف اوباما جب وہائٹ ہاؤس سے رخصت ہوئے تو وہ مقبولیت کی بلندی پر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رخصت کا مرحلہ ابھی شروع ہورہا تھا کہ بعض کالمسٹ اوباما کو اور ان کے دور کو یاد کررہے تھے۔

اخباروں میں بہت دلچسپ کارٹون چھپ رہے ہیں۔ دونوں صدور کے درمیان موازنے ہورہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے ٹرمپ کی جیت اور حلف برادری کی تقریب کے بارے میں اپنے نمایندوں کے حوالے سے یہ تاثرات شایع کیے کہ برطانیہ میں اس جیت پر مایوسی محسوس کی گئی، روس میں جشن منایا گیا، جاپان والے خاموش رہے، میکسیکو کے رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا اور جرمنی کے وائس چانسلر نے اس حوالے سے اپنے ملک کے تاریک ماضی کا ذکر کیا۔

حلف برادری کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے ایک طرف ''سب سے پہلے امریکا''کا نعرہ لگایا اور دوسری طرف انھوں نے پرانے اتحادیوں، تجارتی حلیفوں اور امریکا نے 70 برس تک جمہوریت کے جن راستوں پر سفر کیا تھا اسے یکسر رد کردیا۔ امریکی آئین کے آرٹیکل 11، سیکشن 1، کلاز 8 کے تحت امریکا کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ الفاظ ادا کیے ''میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ریاست ہائے متحدہ کے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کروں گا اور ریاست ہائے متحدہ کے آئین کے تحفظ، حفاظت اور دفاع کے لیے اپنی بہترین اہلیت کو بروئے کار لاؤں گا''۔

انتخابی مہم کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بیانات جاری کیے تھے وہ امریکا کی اس سب سے اہم اور مقدس دستاویز کے بنیادی اصولوں سے متصادم تھے جسے آئین کہا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں وہ امریکی آئین کا دفاع کرتے ہیں یا اس کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکی عوام کے ایک بڑے حصے میں پائے جانے والے شدید غصے کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہائٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔ عام امریکی کو غصہ ہے کہ ملک کی خوش حالی کے ثمرات اس تک نہیں پہنچے۔ آج ایک امریکی مرد کی اوسط آمدنی حقیقی معنوں میں 1970ء کی اوسط آمدنی کے مقابلے میں کم ہے۔ یعنی 50 برسوں میں ایک عام امریکی شہری کے معیار زندگی اور آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سفید فام امریکیوں کو یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ معاشی طور پر اور آبادی کے لحاظ سے زوال کا شکار نہ ہوجائیں۔

امریکا کی دیہی آبادی اس لبرل کلچر سے خائف ہے جو امریکا کے انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں تیزی سے رواج پا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی غصے کو بڑے شاندار طریقے سے اپنی انتخابی کامیابی کے لیے استعمال کیا ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کا المیہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی اور نظریاتی افکار امریکی آئین کے اصولوں سے متصادم ہیں اور انھوں نے عوام کو معاشی مسائل سے نجات دلانے کے لیے جن اقدامات کا اعلان کیا تھا اس سے آنے والے دنوں میں امریکا کساد بازاری اور بعد ازاں ایک معاشی بحران کا شکار ہوجائے گا۔

امریکا میں وہ جس طرح ناپسند کیے جارہے ہیں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وہائٹ ہاؤس کے مغربی حصے میں جہاں ان کی حلف برادری کی رسم جاری تھی، وہاں موجود لوگوں کی تعداد عام اندازے سے کہیں کم تھی۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ اس مقام سے کچھ فاصلے پر ان کے خلاف مظاہرہ ہورہا تھاجس میں گورے، کالے، ہسپانوی باشندے اور دوسرے تارکین وطن شامل تھے۔ پولیس ان لوگوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔ اس کشاکش میں دکانوں کے شیشے ٹوٹے، گاڑیاں جلیں اور پولیس کو کالی مرچ کے سفوف کا چھڑکاؤ کرنا پڑا۔ پہلے دن پولیس ان لوگوں کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہی لیکن دوسرے دن کی کہانی مختلف تھی۔

امریکا کے مختلف حصوں سے ٹرمپ کے سیاسی فلسفے سے اختلاف رکھنے والی عورتیں واشنگٹن میں امنڈ کر آئیں۔ ان کے ساتھ مرد اور بچے بھی تھے۔ ایک خاتون جو برفانی طوفان کو نظر انداز کرتی ہوئی اپنی فلائٹ پکڑنے میں کامیاب ہوئیں، ان کے لیے یہ بات حیرانی کی اور دل خوش کن تھی کہ اس فلائٹ میں سفر کرنے والے مسافروں کی اکثریت خواتین پر مشتمل تھی اور وہ سب واشنگٹن میں ہونے والے ٹرمپ مخالف مظاہرے میں شرکت کرنے جارہی تھیں۔ یہ خاتون جو آرٹسٹ ہیں ان کا کہنا تھا کہ ''میں فاشزم کو (امریکا کا) چلن نہیں بننے دوں گی''۔

اس مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد میکسیکو سے آئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زیادہ عورتوں نے اس مارچ میں شرکت کی اور 1200 بسوں کے مالکان نے واشنگٹن میں داخلے اور وہاں اپنی بسیں کھڑی کرنے کی اجازت مانگی۔ یاد رہے کہ اپنی انتخابی مہم میں مسٹر ٹرمپ کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کو روکنے کے لیے وہ میکسیکو کی سرحدوں پر دیوار اٹھائیں گے۔ ان کے اس بیان نے میکسیکو اور امریکا دونوں جگہ بہت طوفان اٹھایا تھا۔

نئے امریکی صدر کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا ہے لیکن ان کے خلاف ناپسندیدگی کی ایک اونچی لہر اٹھی ہے جو صرف امریکا تک محدود نہیں ہے۔ اس کا دائرہ یورپ کے مختلف ملکوں اور شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے خلاف ہونے والے مظاہرے لاکھوں پر مشتمل تھے اور بعض چھوٹے شہروں میں 400 اور 500 افراد بھی نکلے۔

حقیقت یہ ہے کہ قومی سیاست سے لے کر عالمی سیاست تک امریکا ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ کی سیاست امریکا کو ایک بہتر سمت لے جاتی ہے یا قوم پرستی کے نعرے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو پوپ کے اس جملے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ 1930ء کی دہائی میں جرمنی بھی ان ہی مقبول قوم پرستانہ نعروں کے گھوڑوں پر سوار آیا تھا اور پھر اس کا جو حشر ہوا وہ تاریخ میں درج ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ قوم پرستی، فاشزم کا روپ دھارنے میں دیر نہیں لگاتی اور ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں