بلاول پیپلز پارٹی کے نئے چیئرمین

بلاول نے پیپلز پارٹی کو جدید پارٹی بنانے پر توجہ دی تو وہ اپنے نانا اور والد کے جانشین بن سکیں گے

tauceeph@gmail.com

مفاہمت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے، جمہوریت ہم لے کر آئے، ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ماں بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر اپنی اردو کی تقریر کے ذریعے سیاسی زندگی کا آغاز کردیا۔ یوں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر عملی طور پر فائز ہوگئے۔

برصغیر میں خاندانوں کی سیاست خاصی قدیم ہے مگر تین ایسے خاندان نمایاں ہیں جنہوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کی اور بعد میں یہ بچے اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس ضمن میں پہلا نام نہرو خاندان کا ہے، نہرو خاندان کے بانی پنڈت موتی لعل نہرو الٰہ آباد میں وکیل تھے۔ انھوں نے کانگریس سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ وہ گزشتہ صدی کے پہلے تین عشروں میں متحرک رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ان کے ہم عصروں میں شمار ہوتے ہیں۔

انھوں نے ہندو مسلم تنازعے، تقسیم بنگال وغیرہ کے تنازعات میں حصہ لیا۔ پنڈت موتی لعل نہرو کا شمار کانگریس کے معتدل رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ ان کے صاحبزادے جواہر لعل نہرو برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے دوران سوشلزم اور انقلاب روس سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے کانگریس کے ریڈیکل گروپ میں شرکت کی۔ جواہر لعل نہرو مہاتما گاندھی کے عدم تشدد اور پرامن جدوجہد کے فلسفے کے اسیر رہے مگر گاندھی کے بعض رجعت پسندانہ خیالات کو مسترد کیا۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں طویل جیل کاٹی۔

ایک وقت آیا کہ ان کے ساتھ ان کی ماں، اہلیہ اور بہن جیل گئیں۔ موتی لعل نہرو اپنے بیٹے کی سرگرمیوں سے پریشان ہوگئے۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی بیٹی اندرا کی آزادی کی تحریک کے دوران تربیت کی۔ اندرا نوجوانی میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران جیل گئیں۔ پنڈت نہرو نے آزادی کے بعد اندرا گاندھی کو مختلف عہدوں پر تعینات کیا مگر نہرو کے انتقال کے بعد ان کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ وہ نہرو کے جانشین لعل بہادر شاستری کی وزارت میں مکمل وزیر منتخب ہوئیں۔ انھوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے سینئر سیاستدان مرار جی ڈیسائی کو شکست دی۔

اندرا نے اپنے چھوٹے بیٹے سنجے کو اپنا جانشین بنایا جو طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے راجیو گاندھی جو پائلٹ تھے، وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ راجیو گاندھی کے قتل پر ان کی اہلیہ اٹلی سے تعلق رکھنے والی سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے سے انکار کیا اور اپنے بچوں پر بھی پابندی لگادی مگر کانگریس کی صدارت قبول کی۔ اب ان کے صاحبزادے راہول گاندھی کانگریس کے رہنما کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں۔

پاکستان میں خان عبدالغفار خان کا سیاسی خاندان ہے جس نے سیاسی جدوجہد میں اپنے بچوں کی تربیت کی۔ خان عبدالغفار نے جب کانگریس کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا تو ان کے صاحبزادے ولی خان بھی جیل گئے۔ پھر پاکستان بننے کے بعد ولی خان سیاسی تحریک میں خان عبدالغفار خان کے ساتھ رہے۔ 60 کی دہائی میں خان عبدالغفار خان نے پاکستانی سیاسی جماعتوں سے علیحدگی اختیار کی تو ولی خان نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ ولی خان غفار خان کے ساتھ مستقل جیلوں میں نظر بند رہے۔


بھٹو دور میں ولی خان کو حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کیا گیا تو ان کے صاحبزادے اسفندیار ولی کے خلاف بھی مقدمہ قائم ہوا اور خان عبدالغفار خان گھر میں نظربند رہے۔ 1971 کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں ان کی اہلیہ نسیم ولی خان سیاسی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آئیں۔ ایک وقت آیا کہ غفار خان، ولی خان اور اسفندیار ولی خان اسیر تھے اور صرف نسیم ولی خان آزاد تھیں۔ ولی خان کی وفات کے بعد اسفندیار نے اے این پی کی قیادت سنبھالی ۔

سر شاہنواز بھٹو کا شمار سندھ کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ ان کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے سابق صدر اسکندر مرزا کے دور سے عملی سیاست شروع کی۔ وہ پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے وزیر صنعت اور پھر وزیر خارجہ رہے۔ انھوں نے آزاد خارجہ پالیسی اور تیسری دنیا کے ممالک سے تعلقات پر زور دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان سے اختلافات کی بنا پر حکومت سے علیحدہ ہوئے اور ایوب آمریت کو چیلنج کیا۔ ملک میں عوامی سیاست کو بنیاد ڈالی۔ وہ جلد ہی غریبوں کے ہیرو کے طور پر مقبول ہوئے۔

بھٹو نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کو اولیت دی۔ بھٹو صاحب جب 1972 میں بھارتی وزیر اعطم اندرا گاندھی سے مذاکرت کے لیے شملہ گئے تو بے نظیر کو ساتھ لے گئے۔ 5 جولائی 1977 کو اقتدار پر قبضے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے انھیں نظربند کردیا اور ان کے خلاف قصوری قتل کا مقدمہ چلا تو انھوں نے اپنے بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز کو ملک سے جانے کی ہدایت کی اور بے نظیر کو ملک میں سیاست کرنے کی ہدایت دی۔ یوں بے نظیر نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دنوں میں اپنے والد کو پھانسی گھاٹ میں دیکھا۔ پھر والد کی پھانسی کو جرأت سے برداشت کیا۔

انھوں نے سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں اور آنسوگیس کے شیل برداشت کرنے کے علاوہ ملک کی مختلف جیلوں میں مہینوں قید تنہائی میں گزارے۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف متحدہ محاذ کے لیے اپنے والد کے مخالفین اصغر خان، ولی خان اور مفتی محمود ،نصر اﷲ خان سے اتحاد کیا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرح شفاف طرز حکومت قائم نہیں کرسکیں۔ انھوں نے جنرل مشرف کو شکست دینے کے لیے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف سے مفاہمت کی اور جنرل مشرف کی مخالفت کے باوجود پاکستان آئیں اور کراچی میں 2007 میں ہونے والے خودکش حملے کو اہمیت نہیں دی اور جرأت کے ساتھ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں شہادت کو گلے لگایا۔ آصف علی زرداری نے زندگی کا بیشتر حصہ تجارت اور دوسرے مشاغل میں گزارا۔

انھیں بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد پیپلز پارٹی سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ آصف علی زرداری نے سب سے طویل جیل کاٹی۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کو جھکانے کے لیے آصف زرداری کو 10سال تک قید کیے رکھا مگر بے نظیر اور آصف کبھی اس معاملے میں کمزور ثابت نہ ہوئے۔ بلاول کو برسوں اپنے والد سے دور رہنا پڑا۔ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو اردو میں تقریر کرنی نہیں آتی تھی۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں سے اردو میں تقریر کرنی سیکھی اور عوامی تقریر کا ایسا انداز رائج کیا کہ باقی رہنما بھٹو اسٹائل اپنانے پر مجبور ہوئے۔ بھٹو صاحب نے لیاری کی گلیوں، لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں، سندھ اور پنجاب کے شہروں میں کارکنوں سے ذاتی رابطے قائم کیے۔ بے نظیر نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔

بلاول نے اپنے نانا اور والدہ کی نسبت آرام دہ ماحول میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ انھیں اردو میں تقریر سکھانے والے کئی ماہرین موجود ہیں مگر اس کے ساتھ ان کی پارٹی کی کمزور طرز حکومت کا تجربہ بھی منسلک ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے جب سیاسی جدوجہد شروع کی تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عوام کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ اب پیپلز پارٹی صرف سندھ کی مقبول جماعت ہے۔ بلاول نے ایک جذباتی تقریر کرکے عدلیہ پر تنقید کی ہے ۔

بظاہر تو جذباتی سطح پر یہ باتیں درست ہیں مگر بجلی اور گیس عوام کے مسائل میں شامل ہیں، جب تک حکومت ان کی قلت دور نہیں کرے گی ان کی سپریم کورٹ پر تنقید کو بلاجواز ہی سمجھا جائے گا ۔ بلاول کے سامنے ایک ان کے والد کا ماڈل ہے جو جوڑ توڑ اور مفاہمت میں نمایاں ہیں اور دوسرا ان کے نانا کا ماڈل ہے جو عوام کے مسائل اٹھانے اور انھیں متحرک کرنے پر مشتمل تھا۔ بلاول کو دونوں ماڈلوں سے استفادہ کرنا ہوگا۔ مگر شاید انھیں اپنی قریبی عزیز فاطمہ بھٹو سے بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے۔ اس صورت میں ان کی حکمت عملی بہت اہم ہوگی۔ بلاول نے عوامی انداز اختیار کیا اور پیپلز پارٹی کو جدید پارٹی بنانے پر توجہ دی تو وہ اپنے نانا اور والد کے جانشین بن سکیں گے۔ دوسری صورت میں پیپلز پارٹی سندھ تک ہی محدود ہوجائے گی۔
Load Next Story