پہلی سول ملٹری کمبی نیشن
لگان کی وصولی کے دن تھے،گاؤں دیہات میں بینکوں کے ذریعے لین دین نہیں ہوتا۔
1977ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں بھٹوحکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد بھٹو اور ان کی پیپلزپارٹی سے منسوب ہر چیزکو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے ترجمان اخبارات ''مساوات'' اور ''ہلال پاکستان'' بھی انتقامی کارروائی کی زد میں آئے۔انھوں نے مساوات کو توسرے سے بند کردیا اور ہلال پاکستان پر پہرے بٹھادیے جب کہ سنسرشپ کی پابندیوں کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی جواز نہ تھا۔ اخبار پیپلزفاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیرانتظام نکلتا تھا، اس لیے اس پر بھی قبضہ کر لیا گیا، مشرف بہ اسلام کرکے اس کا نام شیخ سلطان ٹرسٹ رکھا گیا اور انتظام چلانے کے لیے جو بورڈ تشکیل پایا،اس کے چیئرمین تو وزیرخزانہ غلام اسحاق خان تھے، مگرایڈمنسٹریٹر بلحاظ عہدہ وفاقی سیکریٹری تعلیم کو بنایا گیا جو پہلے بھٹوکے خلاف فوجی ٹولے کے جاری کردہ وائٹ پیپر کے بڑے سلطانی گواہ اے زیڈ فاروقی تھے اور بعد میں ان کی جگہ سرخ پوش رہنما اور خدائی خدمتگار تحریک کے بانی وقائد، خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے ،عبدالعلی خان نے لی جو سینیئر بیوروکریٹ تو تھے ہی مگر ان کی وجہ شہرت چوٹی کے ماہرتعلیم کی تھی۔
بورڈ میں فوج کی نمائندگی میجرجنرل مجیب الرحمان کو سونپی گئی جوحاضر سروس فوجی ہوتے ہوئے اطلاعات و نشریات کے وفاقی سیکریٹری بنائے گئے تھے اور ٹرسٹی کہلاتے تھے۔ مقامی سطح پر معاملات کو دیکھنے کے لیے مسٹرعلی احمد بروہی (عرف کالا انگریز)کو ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقررکیا گیا جن کی سب سے بڑی اہلیت یہ تھی کہ مشہور قانون دان اورجنرل ضیا کے ممدوح، اے کے بروہی کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کا دفتر سول لائنز میں واقع ٹرسٹ کے ٹوئن ٹاورزکی مین بلڈنگ میں ہوتا تھا اور بڑی تعداد میں عملہ ان کے ماتحت کام کرتا تھا۔
اخبارکوکنٹرول کرنے کے لیے شروع میں یہ بندوبست کیا گیا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے دو افسروں کرنل عقیل اورمیجرمحمود کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ہمارے کام پہ نظر رکھیں۔ بیچارے ہر روز شام کوہماری شفٹ شروع ہونے سے بھی پہلے دفترپہنچتے، نیوزڈیسک پر ہمارے ساتھ بیٹھتے، ٹیلی پرنٹرز سے خود کریڈ پھاڑکرلاتے، خبریں سلیکٹ کرتے کہ کون سی لگیں گی اورکون سی نہیں۔ سندھی انھیں آتی نہیں تھی،اس لیے وہ استعمال شدہ اصل کریڈ بھی سنبھال کر رکھتے کہ ''سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔'' ہم نیوز ڈیسک کے سب ساتھی روزشفٹ شروع ہونے کے بعد باری باری چائے منگواتے تھے، پہلے دن تو انھوں نے ہماری منگوائی ہوئی چائے پی لی مگر پھر اصرار کرکے ایک دن اپنی باری بھی رکھوالی۔ وہ جب تک ہماری رکھوالی کی ڈیوٹی پر رہے یہ سلسلہ جاری رہا، آہستہ آہستہ طرفین میں بے تکلفی بڑھتی گئی، ہنسی مذاق اور بات چیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ہمارے رنگ میں رنگتے چلے گئے اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ ہم پر اعتماد کرنے لگے۔ باہمی تعلقات میں حائل شک کا پردہ ہٹ جانے سے آسانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں، ہم بھی ''ایزی فیل'' کرنے لگے۔
اس دوران ہمارے دفتر میں ایک بیحد دلچسپ واقعہ پیش آیا، جس نے ہماری ورکنگ ریلیشن شپ کو دوستی کے مضبوط بندھن میں باندھ دیا اور باہمی تعلقات میں حائل تکلفات کے رہے سہے پردے بھی ہٹ گئے۔ ہوا یوں کہ ڈیسک کے ایک ساتھی اقبال دل،ان دونوں فوجی افسران کی دفتر میں تعیناتی سے بھی پہلے سے لمبی چھٹی پرگئے ہوئے تھے، وہ میرپورخاص ضلع کے کسی دورافتادہ گاؤں کے رہنے والے تھے، خود تو فیملی کے ساتھ ایک عرصے سے کراچی آکرآباد ہوگئے تھے لیکن ان کی ایک بہن وہیں رہتی تھیں جن کا شوہر محکمہ مال میں پٹواری تھا۔
لگان کی وصولی کے دن تھے،گاؤں دیہات میں بینکوں کے ذریعے لین دین نہیں ہوتا، زمیندار پٹواری کو لگان کی ادائیگی نقد رقم میں رسید لے کرکرتے تھے، پٹواریوں کو لگان کی وصول شدہ رقم مقررہ تاریخ تک مال خانے میں جمع کرانی ہوتی تھی اور تب تک انھیں سرکاری رقم اپنے پاس رکھنے کا قانونی اختیار ہوتا تھا۔ اقبال دل کے بہنوئی کی تنخواہ بہت ہی کم تھی جب کہ ان کی دیانتداری کی لوگ قسمیں کھایا کرتے تھے۔ یہ اپنی وصولی مہم کے سلسلے میں فیلڈ میں تھے کہ پولیس انھیں ایک دوسرے پٹواری کے ساتھ گرفتارکر کے میرپور خاص لے آئی، اس نے پہلے ان سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی اور جب بات نہ بنی تو لاکر سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے سامنے پیش کردیا، الزام یہ لگایا گیا کہ انھیں بھاری سرکاری رقم کے ساتھ سرحد پارکرکے بھارت فرارہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔
سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوئی نوجوان کمیشنڈ افسر تھے، انھوں نے پولیس رپورٹ پراعتبارکرتے ہوئے اقبال دل کے بہنوئی کو تو قید،کوڑوں اور جرمانے کی سزا سنا دی جب کہ ان کے دوسرے ساتھی کو نامعلوم وجوہ کی بنا پر رہا کردیا۔ اقبال دل نے، جو وہیں تھے، ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی مگر اپنے بہنوئی کو رہائی نہ دلوا سکے، چھٹیاں بھی ختم ہوگئی تھیں اس لیے واپس آگئے۔
اسٹیشن سے سیدھے دفتر آئے تھے اور فطری طور سخت غصے میں تھے، پولیس والوں اور مارشل لا ڈیوٹی پر مامور فوجیوں کو مغلظات بکتے ہوئے نیوز روم میں داخل ہوئے، ہم نے اشاروں کنایوں میں انھیں چپ کرانے کی بہت کوشش کی مگر وہ سمجھ کر ہی نہ دیتے تھے، ہمارے دونوں فوجی ساتھی چونکہ سادہ کپڑوں میں تھے۔ اس لیے وہ انھیں کسی کا مہمان جان کر نظراندازکیے جارہے تھے، ہمیں یہ ڈرکہ انھیں پتہ چل گیا تو بنے بنائے اچھے تعلقات پھر سے خراب ہوجائیں گے، لیکن حیران کن طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میجرمحمود کو توکچھ پلے نہیں پڑا البتہ کرنل عقیل بھانپ گئے کہ ان کے ساتھ کچھ ہوا ہے ۔ میں ان کے قریب بیٹھا تھا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ اقبال دل سے کہوں کہ اپنا مسئلہ انھیں بتائے، شاید وہ ان کی کوئی مدد کرسکیں۔ میں نے سب کے سامنے ان کا میسیج اقبال دل کوکنوے کردیا، اب جو انھیں پتہ چلا کہ یہ فوجی افسران ہیں تو وہ مزید پریشان ہوگئے، لگے گھگیانے، سوری سوری کہتے گلا خشک ہوگیا، یوں اپنی سیٹ سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے جیسے کلاس روم میں بچے ٹیچرکو آتا دیکھ کر ہوتے ہیں۔
کرنل عقیل خود چل کر ان کی سیٹ تک گئے، ان کے برابر کرسی رکھ کر بیٹھ گئے،انھیں تسلی دی اورکچھ ایسی بے تکلفی سے پیش آئے کہ اقبال دل کی ساری گھبراہٹ دورہوگئی اور انھوں نے کرنل صاحب کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ اس زمانے میں ڈائریکٹ ڈائلنگ کا نظام نہیں ہوتا تھا اور فون کرنے کے لیے کال بک کرانی پڑتی تھی،ارجنٹ کال بھی کہیں گھنٹوں میں جا کر ملتی تھی۔ کرنل عقیل نے بجائے کال بک کرانے کے اپنے مقامی دفتر میں کسی سے بات کی جس نے منٹوں میں اس سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے ان کی بات کرادی۔
اس کے لائن پر آتے ہی کرنل نے اسے آڑے ہاتھوں لیا،کہا اپنے کورٹ مارشل کے لیے تیار رہے، پھر پوچھا دوسرے پٹواری سے کتنے میں ڈیل ہوئی تھی اور یہ کہہ کر فون بندکردیا کہ اگر ایک گھنٹے میں اقبال دل کے بہنوئی نے ان سے بات کرکے اپنی رہائی کی اطلاع نہ دی تو پھرجو ہوگا وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یقین کیجیے ایسا ہی ہوا، اقبال دل خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ مجموعی طور پر اس واقعے کے بعد ہماری نیوز ڈیسک کی حد تک مثالی سول ملٹری کمبینیشن بن گئی جو ملک بھر میں اخبارات پر سنسر شپ کے نفاذ تک قائم رہی جس کے بعد ہمارے دونوں فوجی دوست اپنی پوسٹنگ کی اصل جگہوں پر لوٹ گئے،کاش قومی سطح پر بھی اس پہلی سول ملٹری کمبینیشن جیسا کوئی سیٹ اپ بن سکے۔