دنیا بھر کے حکمران خطرے میں ہیں
آخر دہشت گردوں کے پاس ایسا کون سا جادو آ گیا ہے جس سے وہ لوگوں کو مرنے مارنے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔
ویسے تو امریکا اور اس کے طرفدار اس جلتی ہوئی آگ کو دہشت گردی اور کچھ دوسرے لوگ جہاد کا نام دے دیتے ہیں اور پھر اپنی مصنوعی دانشوری کے زور پر اسے طرح طرح کے فلسفیانہ اور دانشورانہ مباحث کا موضوع بناتے ہیں جن میں سب سے بڑا مغالطہ یا مبالغہ خودکش بمباروں سے متعلق ہے کہ بے چارے معصوم بچوں کی برین واش کر کے انھیں جنت اور شہید ہونے کا جھانسہ دے کر خودکش بمبار یا جہادی بنایا جاتا ہے لیکن یہ صرف آدھی حقیقت ہے اور پوری حقیقت کچھ اور ہے۔
برین واشنگ کا یہ فیشن ایبل لفظ بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ تاریخی سند کے طور پر اس کے لیے ہٹلر اور ایک قدیم کردار شیخ الجبال کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ لگ بھگ صلاح الدین غازی اور نظام الملک طوسی کے عہد میں حسن بن صباح نامی شخص نے ایک دشوار گزار پہاڑی مقام پر قلعہ الموت میں ایک مصنوعی جنت بنائی تھی جس کا جھانسہ دے کر ''فدائی'' تیار کیے جاتے تھے، لیکن یہ دونوں حوالے یا اسناد قطعی غلط اور ناول نگاروں، افسانہ نگاروں کی خوش بیانیاں ہیں، حسن بن صباح ایک فرقہ کے ایک داعی تھے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کے فدائی شدت پسند بھی رہے ہوں لیکن جو افسانے مشہور کیے گئے ایسا کچھ نہیں تھا نہ کوئی جنت تھی اور نہ حشیش پلا کر فدائی تیار کیے جاتے تھے، جہاں تک ہٹلر کا تعلق ہے تو چونکہ وہ بے چارا بھی شکست کھا گیا اور پروپیگنڈہ مشینری اس کے دشمنوں کے پاس تھی جن پر زیادہ تر یہودیوں کا قبضہ تھا چنانچہ گیس کی بھٹیوں اور خاص قسم کے عقوبتی کیمپوں کے افسانے مشہور کر دیے گئے۔
ہولو کاسٹ کے افسانے تراشے گئے اور بے شمار ناول، کہانیاں، فلمیں، طرح طرح کے قصے تصنیف ہونے لگے، برین واشنگ کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ یہ بھی ایک طرح سے ہیپناٹزم ہی ہوتا ہے اور ہیپناٹزم یا مسمریزم کے بارے میں افسانوں کو چھوڑ کر جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ ایسے کسی بھی شخص کو ہیپنائزم نہیں کیا جا سکتا جو پہلے سے ذہنی طور پر اس کے لیے رضامند نہ ہو اور نہ ہی اسے کسی ایسے کام پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو، مثلاً خودکشی یا کسی کو قتل کرنا وغیرہ، معمول کو ٹرانس میں لا کر صرف وہی کام کرائے جا سکتے ہیں۔
جو معمول کے اپنے ذہن کے خلاف نہ ہوں، یہی سلسلہ برین واشنگ کا بھی ہے۔کوئی بھی کسی ایسے شخص کا برین واش نہیں کر سکتا جس میں پہلے ہی سے کچھ موجود ہو یا جو کچھ اس میں موجود ہو اس کے خلاف اسے نہیں آمادہ کیا جا سکتا، مثال کے طور پر قتل اور خودکشی کو لے لیجیے جس ذہن میں پہلے ہی قتل اور خودکشی کا رجحان نہ ہو، اسے کسی بھی لالچ سے اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، صرف ان لوگوں کو کیا جا سکتا ہے جن کے ذہن میں پہلے ہی قتل و قتال، مرنے مارنے اور خودکشی کرنے کا رجحان موجود ہو، صرف اونچے ڈرائنگ روموں اور ہائی فائی پروٹوکول یا ٹی وی کے صوفوں پر بیٹھ کر برین واشنگ برین واشنگ پکارنا تو آسان ہوتا ہے لیکن جو لوگ برین واشنگ کے لیے پہلے ہی سے تیار ہوتے ہیں۔
خودکشی کا سوچ رہے ہوتے ہیں جن کو ساٹھ ستر سال دھوکے دے دے کر زندگی کے حق سے محروم کیا گیا ہے جن کی سوچیں خیالات اور عزائم زندگی کا زہر پی پی کر اتنے زہریلے ہو چکے ہیں کہ خود اپنی زندگی سے بیزار بلکہ نالاں اور متنفر ہو چکے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے ہر گز تیار نہیں کہ ملک اور اس کی پیداوار میں بھکاریوں جتنا حصہ بھی نہیں ہے، سرکاری محکموں میں اداروں میں اور دفاتر میں ان پر روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں، مصنوعی چائلڈ لیبر والے ان کو پڑھانے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ پڑھنے کے بعد ان کے روزگار کا کوئی چانس نہیں ہوتا کیوں کہ پندرہ فی صد مراعات یافتہ طبقہ ہی سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔ لائق فائق ہونے پر بھی ان کو روزگار نہیں ملتا۔ جب کہ دوسری طرف پندرہ فی صد نکمے نکھٹو خاندان بلا روک ٹوک کے سب کچھ ہڑپ کر رہے ہیں۔
اس پچاسی فی صد غربت زدہ طبقے کا بیٹا بیٹی پڑھ بھی لے تو ان کو روزگار کے لیے بھی کچھ بیچ کر کچھ دینا پڑتا ہے۔ یہ دانشور، اسکالر، تجزیہ نگار ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں کیوں کہ یہ بھی صلاحیتیں دکھا کر پندرہ فی صد میں شامل ہو چکے ہیں یا شامل ہونے کی سعی کر رہے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ پچاسی فی صد کماؤ طبقہ کس حال میں زندگی کو کھنیچ رہا ہے چنانچہ آہستہ آہستہ بتدریج سرکاریات اور حکمران طبقے سے کچھ بھی تعلق رکھنے والوں کے خلاف ان کے جذبات کیا ہیں۔ یہ ان جذبات کا شاخسانہ ہی ہے کہ ظلم کرنے والے تباہ کاروں سے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں یا کم از کم جہاں جہاں کسی حکومتی عملے یا ملکیت کو نقصان پہنچتا ہے وہ اس سے ذرا بھی ہمدردی نہیں رکھتے، اوپر سے حکومتی ادارے اپنی ناکامی اور نااہلی کو چھپا کر اصل مجرموں کے بجائے عوام کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔
شریف اور کام سے کام رکھنے والا شہری ، شر پسندوں کا نشانہ تو بائی چانس بنے گا لیکن سرکاری عملے کی نظر میں وہ مشکوک ہوتا ہے، جہاں تک چھوٹے بچوں کو تربیت دے کر برین واش کر کے تخریب کاری کے لیے تیار کرنے کا تعلق ہے تو ان میں بھی اکثریت ان ہی پچاسی فی صد طبقے کی اولادیں ہیں، یہ محض وہم ہے کہ وہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ بھوک، بے بسی اور محرومی کی گرفت میں سسکتے ہوئے اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے والدین کی محرومی کا سبب کون ہے، وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم اگر سیدھے راستے جائیں گے تو وہی حال ہمارا بھی ہو گا جو ہمارے والدین اور بھائی بندوں کا ہواہے۔
ایسے میں اگر اسے بتایا جائے کہ تمہارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ خود کو قربان کر کے اپنے دشمنوں کو نقصان پہنچا سکتے ہو تو وہ بخوشی اپنی قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ چلو میں خود بھی اس دوزخ کی سی زندگی سے جنت میں داخل ہو جاؤں گا اور میرے والدین بھی غربت کی دوزخ سے نکل جائیں گے یا کم از کم ان لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچ جائے جو ہماری اس حالت کے ذمے دار ہیں یا ان کا ساتھ دے رہے ہیں، کم از کم یہ اطمینان بھی ان کے لیے بہت ہوتا ہے کہ ہم اپنے دشمن طبقے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، براہ راست دشمن نہ سہی لیکن جو بھی ان سے اچھی زندگی گزار رہا ہے وہ دشمن طبقے کا فرد ہے۔
آخر دہشت گردوں تباہ کاروں یا جہادیوں کے پاس ایسا کون سا جادو آ گیا ہے جس سے وہ لوگوں کو مرنے مارنے پر آمادہ کر لیتے ہیں اور وہ جادو مخالف فریق کے پاس کیوں نہیں ہے، وہ جادو کوئی جادو نہیں بلکہ محرومی، افلاس اور فرسٹریشن کی زمین میں اگنے والا زہر ہے جو پچاسی فی صد عوام میں کسی نہ کسی حد تک سرایت کرتا جا رہا ہے اور اس کے ذمے دار حکومتی نظام اور سرمایہ دارانہ ہتھکنڈے ہیں۔
برین واشنگ کا یہ فیشن ایبل لفظ بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ تاریخی سند کے طور پر اس کے لیے ہٹلر اور ایک قدیم کردار شیخ الجبال کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ لگ بھگ صلاح الدین غازی اور نظام الملک طوسی کے عہد میں حسن بن صباح نامی شخص نے ایک دشوار گزار پہاڑی مقام پر قلعہ الموت میں ایک مصنوعی جنت بنائی تھی جس کا جھانسہ دے کر ''فدائی'' تیار کیے جاتے تھے، لیکن یہ دونوں حوالے یا اسناد قطعی غلط اور ناول نگاروں، افسانہ نگاروں کی خوش بیانیاں ہیں، حسن بن صباح ایک فرقہ کے ایک داعی تھے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کے فدائی شدت پسند بھی رہے ہوں لیکن جو افسانے مشہور کیے گئے ایسا کچھ نہیں تھا نہ کوئی جنت تھی اور نہ حشیش پلا کر فدائی تیار کیے جاتے تھے، جہاں تک ہٹلر کا تعلق ہے تو چونکہ وہ بے چارا بھی شکست کھا گیا اور پروپیگنڈہ مشینری اس کے دشمنوں کے پاس تھی جن پر زیادہ تر یہودیوں کا قبضہ تھا چنانچہ گیس کی بھٹیوں اور خاص قسم کے عقوبتی کیمپوں کے افسانے مشہور کر دیے گئے۔
ہولو کاسٹ کے افسانے تراشے گئے اور بے شمار ناول، کہانیاں، فلمیں، طرح طرح کے قصے تصنیف ہونے لگے، برین واشنگ کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ یہ بھی ایک طرح سے ہیپناٹزم ہی ہوتا ہے اور ہیپناٹزم یا مسمریزم کے بارے میں افسانوں کو چھوڑ کر جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ ایسے کسی بھی شخص کو ہیپنائزم نہیں کیا جا سکتا جو پہلے سے ذہنی طور پر اس کے لیے رضامند نہ ہو اور نہ ہی اسے کسی ایسے کام پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو، مثلاً خودکشی یا کسی کو قتل کرنا وغیرہ، معمول کو ٹرانس میں لا کر صرف وہی کام کرائے جا سکتے ہیں۔
جو معمول کے اپنے ذہن کے خلاف نہ ہوں، یہی سلسلہ برین واشنگ کا بھی ہے۔کوئی بھی کسی ایسے شخص کا برین واش نہیں کر سکتا جس میں پہلے ہی سے کچھ موجود ہو یا جو کچھ اس میں موجود ہو اس کے خلاف اسے نہیں آمادہ کیا جا سکتا، مثال کے طور پر قتل اور خودکشی کو لے لیجیے جس ذہن میں پہلے ہی قتل اور خودکشی کا رجحان نہ ہو، اسے کسی بھی لالچ سے اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، صرف ان لوگوں کو کیا جا سکتا ہے جن کے ذہن میں پہلے ہی قتل و قتال، مرنے مارنے اور خودکشی کرنے کا رجحان موجود ہو، صرف اونچے ڈرائنگ روموں اور ہائی فائی پروٹوکول یا ٹی وی کے صوفوں پر بیٹھ کر برین واشنگ برین واشنگ پکارنا تو آسان ہوتا ہے لیکن جو لوگ برین واشنگ کے لیے پہلے ہی سے تیار ہوتے ہیں۔
خودکشی کا سوچ رہے ہوتے ہیں جن کو ساٹھ ستر سال دھوکے دے دے کر زندگی کے حق سے محروم کیا گیا ہے جن کی سوچیں خیالات اور عزائم زندگی کا زہر پی پی کر اتنے زہریلے ہو چکے ہیں کہ خود اپنی زندگی سے بیزار بلکہ نالاں اور متنفر ہو چکے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے ہر گز تیار نہیں کہ ملک اور اس کی پیداوار میں بھکاریوں جتنا حصہ بھی نہیں ہے، سرکاری محکموں میں اداروں میں اور دفاتر میں ان پر روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں، مصنوعی چائلڈ لیبر والے ان کو پڑھانے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ پڑھنے کے بعد ان کے روزگار کا کوئی چانس نہیں ہوتا کیوں کہ پندرہ فی صد مراعات یافتہ طبقہ ہی سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔ لائق فائق ہونے پر بھی ان کو روزگار نہیں ملتا۔ جب کہ دوسری طرف پندرہ فی صد نکمے نکھٹو خاندان بلا روک ٹوک کے سب کچھ ہڑپ کر رہے ہیں۔
اس پچاسی فی صد غربت زدہ طبقے کا بیٹا بیٹی پڑھ بھی لے تو ان کو روزگار کے لیے بھی کچھ بیچ کر کچھ دینا پڑتا ہے۔ یہ دانشور، اسکالر، تجزیہ نگار ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں کیوں کہ یہ بھی صلاحیتیں دکھا کر پندرہ فی صد میں شامل ہو چکے ہیں یا شامل ہونے کی سعی کر رہے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ پچاسی فی صد کماؤ طبقہ کس حال میں زندگی کو کھنیچ رہا ہے چنانچہ آہستہ آہستہ بتدریج سرکاریات اور حکمران طبقے سے کچھ بھی تعلق رکھنے والوں کے خلاف ان کے جذبات کیا ہیں۔ یہ ان جذبات کا شاخسانہ ہی ہے کہ ظلم کرنے والے تباہ کاروں سے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں یا کم از کم جہاں جہاں کسی حکومتی عملے یا ملکیت کو نقصان پہنچتا ہے وہ اس سے ذرا بھی ہمدردی نہیں رکھتے، اوپر سے حکومتی ادارے اپنی ناکامی اور نااہلی کو چھپا کر اصل مجرموں کے بجائے عوام کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔
شریف اور کام سے کام رکھنے والا شہری ، شر پسندوں کا نشانہ تو بائی چانس بنے گا لیکن سرکاری عملے کی نظر میں وہ مشکوک ہوتا ہے، جہاں تک چھوٹے بچوں کو تربیت دے کر برین واش کر کے تخریب کاری کے لیے تیار کرنے کا تعلق ہے تو ان میں بھی اکثریت ان ہی پچاسی فی صد طبقے کی اولادیں ہیں، یہ محض وہم ہے کہ وہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ بھوک، بے بسی اور محرومی کی گرفت میں سسکتے ہوئے اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے والدین کی محرومی کا سبب کون ہے، وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم اگر سیدھے راستے جائیں گے تو وہی حال ہمارا بھی ہو گا جو ہمارے والدین اور بھائی بندوں کا ہواہے۔
ایسے میں اگر اسے بتایا جائے کہ تمہارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ خود کو قربان کر کے اپنے دشمنوں کو نقصان پہنچا سکتے ہو تو وہ بخوشی اپنی قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ چلو میں خود بھی اس دوزخ کی سی زندگی سے جنت میں داخل ہو جاؤں گا اور میرے والدین بھی غربت کی دوزخ سے نکل جائیں گے یا کم از کم ان لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچ جائے جو ہماری اس حالت کے ذمے دار ہیں یا ان کا ساتھ دے رہے ہیں، کم از کم یہ اطمینان بھی ان کے لیے بہت ہوتا ہے کہ ہم اپنے دشمن طبقے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، براہ راست دشمن نہ سہی لیکن جو بھی ان سے اچھی زندگی گزار رہا ہے وہ دشمن طبقے کا فرد ہے۔
آخر دہشت گردوں تباہ کاروں یا جہادیوں کے پاس ایسا کون سا جادو آ گیا ہے جس سے وہ لوگوں کو مرنے مارنے پر آمادہ کر لیتے ہیں اور وہ جادو مخالف فریق کے پاس کیوں نہیں ہے، وہ جادو کوئی جادو نہیں بلکہ محرومی، افلاس اور فرسٹریشن کی زمین میں اگنے والا زہر ہے جو پچاسی فی صد عوام میں کسی نہ کسی حد تک سرایت کرتا جا رہا ہے اور اس کے ذمے دار حکومتی نظام اور سرمایہ دارانہ ہتھکنڈے ہیں۔