عذاب جو ہمارا مقدر نہ تھے
خاک بہ سر کیے جانے والوں کی آنکھوں کے خواب نہیں مرتے، زندہ رہتے ہیں۔
شام گہری ہوئی اور رات کے سینے میں سما گئی۔ ماحول سنہری اور سفید روشنیوں سے جگمگا اٹھا، مزار کے سفید مرمریں گنبد پر انوار کی برسات ہوئی۔ فقیر کی چوکھٹ پر آنے والے اور اس کے سینے پر پھول بچھانے والے امیر، وزیر، مشیر آئے اور تصویریں اتروا کر پلٹ گئے۔ دو دراز دیہاتوں سے، اوبڑ کھابڑ راستوں پر چل کر آنے والوں کے لباس گرد میں اٹے ہوئے ہیں۔ پیروں میں ٹوٹی ہوئی پاپوش ہے اور کچھ اس نعمت سے بھی محروم ہیں۔ یہ جو ق در جوق آتے ہیں۔ عورتیں، مرد، بچے۔ بدحالی کی دیمک ان کی اجرکوں کے رنگ چاٹ رہی ہے لیکن آنکھوں میں خواب سلامت ہیں۔ یخ بستہ ہوائوں سے ٹھٹھرتے ہوئے یہ لوگ امید کی انگیٹھی پر ہاتھوں کو گرماتے ہیں اور فقیر کے در پر بیٹھ کر راگ راگنیوں کی اشرفیاں سمیٹتے ہیں اور اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جاتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اگلے برس کوئی خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے۔
فقیر کے دربار کی رونقوں سے کنارہ کرتے ہوئے ہم اپنے شہر کارخ کرتے ہیں۔ بھٹ شاہ پیچھے رہ گیا ہے۔ گاڑی کی نرم نشستیں اور گرم فضا راحت دے رہی ہے۔ رات کی تاریکی میں ہزار ہا مشعلیں ابھرتی ہیں۔ اسکندر اعظم سے نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے لشکر بستیوں کو لوٹتے ہوئے، جلاتے ہوئے، بن بیاہیوں اور سہاگنوں کو روندتے ہوئے، جوانوں کے شانوں سے سرکا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے، قتل و غارت کی نئی داستانیں لکھتے ہیں اور تاریخ کے تذکروں میں دفن ہوجاتے ہیں۔ بستیاں پھر سے آباد ہوجاتی ہیں۔ بچوں، عورتوں اور مردوں کے قہقہوں سے امید کے اکھوے پھوٹتے ہیں۔
وقت کبھی ہمارا بھی بدلے گا۔
کبھی ہماری نسلیں بھی راحت کی رِلّی اوڑھیں گی۔
کبھی وہ بھی پُر آسائش زندگی کا ٹھنڈا میٹھا شربت پئیں گی۔
رسم دنیا ہے کہ نئے سال کا استقبال اس مصرعے سے کیا جائے کہ 'اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے' لیکن پچھلا اور اس سے پچھلا اور اس سے پہلے گزرجانے والے سال جن میں لاکھوں آنکھوں کے خواب بجھ گئے اور ہزاروں بدن پیوندِ خاک ہوئے۔ سیکڑوں بستیوں میں نوحہ و ماتم کی دھول اڑنے لگی۔ ان تمام بربادیوں کا حساب کن سے مانگا جائے؟ کن سے پوچھا جائے کہ 1947سے 2012 کی آخری تاریخ تک اس ملک کے لوگوں کو فریب مسلسل میں کیوں رکھا گیا؟ ۔
ان سے کہا گیا تھا کہ 'مملکت خداداد' کی بنیاد رکھی جارہی ہے اور پھر ان کے حصے میں ''مملکتِ بیداد'' آئی۔2013کی مبارک باد لوگوں کو کس دل سے دی جائے، انھیں خوبصورت خوابوں کی نوید کیسے سنائی جائے کہ جب انھوںنے 2012 کی آخری رات بھی اپنے پیاروں کے پارہ پارہ بدن خاک میں سلائے ہیں۔ اخباری ذرایع کا کہنا ہے کہ ملک کی بات تو رہنے دیجیے صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور حادثات میں 2000 سے زیادہ لوگ موت کے گھاٹ اترے، یہ صرف2012 کے دوران ایک شہر میں ہونے والی ہلاکتوں کا میزانیہ ہے۔
2012 اور اس سے پہلے کے برسوں میں ریاست کی حاکمیت کے زوال، قتل و غارت اور خانماں بربادی کی جو کھیتی ہم نے کاٹی ہے، اسے مہربانوںنے 48,47 سے بونا شروع کردیا تھا۔ مشرقی بنگال، اس وقت کا صوبہ سرحد، سندھ اور ریاست قلات (بلوچستان) کون تھاجو خوش تھا، کسی نے احتجاج کیا اور کسی نے صبر۔ کسی کا خیال تھاکہ رفتہ رفتہ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ لیکن بانی پاکستان کی تقریر کو سنسر کرنے سے جس ''کام'' کا آغاز ہوا تھا، وہ اخباروں کے ڈیکلریشن کی ضبطی، ادبی رسالوں کی اشاعت پر بندش، سیاستدانوںکو ایبڈو کے ذریعے سیاست کے میدان سے بے دخل کرنے، لاکھوں بنگالیوں، ہزاروںجمہوریت پسند پشتونوں ، سندھیوں، بلوچوں اور پنجابیوں کی ہلاکتوں اور ان کے ساتھ نو آبادیوں جیسا سلوک کرنے تک جا پہنچا۔
ہندوستان اور ہم ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے ، بلکہ اگر گھنٹہ گھڑی کا حساب لگائیے تو ہم وہ جڑواں بچے تھے جن میں ہندوستان ہم سے 24 گھنٹے چھوٹا تھا لیکن اس نے جھٹ پٹ اپنا آئین تیار کرلیا اور پھر اس راہ پر چل پڑا جسے پارلیمانی جمہوریت کہتے ہیں ۔ ہمارے یہاں کوششیں یہ کی جاتی رہیں کہ کسی طرح آئین نہ بن پائے۔ یہی وہ عذاب ناک صورتحال تھی جس سے تنگ آکر محترمہ شائستہ اکرام اللہ نے آئین ساز اسمبلی سے اپنا استعفیٰ ایک احتجاجی نوٹ کے ساتھ اسپیکر اور وزیر اعظم کو بھیج دیا تھا۔ ہمارے یہاں انتخاب کی تاریخوں کو ٹالاجاتا رہا اور جب ہماری ملٹری اور سول بیوروکریسی کو اس کا یقین ہوگیا کہ اب عوام کی عدالت میں جانا ہی پڑے گا اور سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کردار کو ختم نہیںکیا جاسکے گا تو 'میرے عزیز ہم وطنو' کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک جرنیل نے پاکستان کو مال غنیمت سمجھ کر اس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد سے اقتدار پرناجائز قبضے کا بلواسطہ اوربلاواسطہ جو سلسلہ شروع ہوا، وہ اکتوبر 1999 تک چلا۔ 2008 میں اس سے بہ ظاہر نجات حاصل ہوئی لیکن نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی ابھی تک نہیں آئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہونے والا ہے کہ ایک منتخب حکومت اپنی مدت پوری کررہی ہے اور امکانی طور پر پوری کرلے گی۔یہ حکومت جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے میں رہی ہے ، اس سے کون ہے جو آگاہ نہیں۔ اگر صاحبان انصاف نے گزشتہ برسوں میں جان پر کھیل کر شیر کی کچھار میں بار بار ہاتھ نہ ڈالا ہوتا۔ اگر تمام شورشرابے اور بدمذاقیوں کے باوجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ لوگوں نے عوام تک سچ پہنچانے کی سزا میں اپنی جان نہ دی ہوتی اور اگر ایک متحمل اور برد بار حزبِ اختلاف نے حکومت کو اخلاقی حمایت نہ فراہم کی ہوتی تو جمہوریت کا بستر لپیٹنے میں دیر نہ لگائی گئی ہوتی۔ اس وقت بھی یہ عالم ہے کہ بعض حلقے اس خیال سے تلملائے ہوئے ہیں کہ آزاد اور شفاف انتخابات منعقد ہوں اور جیتنے والی جماعتیں یا ان کا اتحاد حکومت بنائے۔ اس مقصد کے لیے سیاستدانوں کی کردار کشی کی مہم الیکٹرانک میڈیا میں بہ طور خاص چلائی گئی۔ لیکن جب ضمنی انتخابات میں یہ ''محنت'' اکارت ہوتی نظر آئی تو کیسے کیسے''عظیم المرتبت'' رہنما درآمد کیے گئے اور انھوں نے شاہانہ اندازمیں احکامات صادر کرنا شروع کیے۔ فلاں تاریخ کو یہ ہوجانا چاہیے، اور 'فلاں تاریخ کو میں 40 لاکھ کا جلوس لے کر دارالحکومت پہنچ رہا ہوں۔
ان دنوں 'امپورٹ' کیے جانے والوں کی بہاریں ہیں، اسٹرٹیجک اثاثے ملک کے طول و عرض میں دندناتے پھرتے ہیں۔ کہیں شیعہ مارتے ہیں اور کہیں بریلویوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ کبھی فوجی جوانوں اور کبھی لیویز کے نوجوانوں کو صرف قتل ہی نہیں کرتے ان کی لاشیں اس طرح مسخ کرتے ہیں کہ اب ان کی پہچان صرف ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ خیبرپختونخوا میں، سوات اور شمالی علاقوں میں ہمارے شہریوں پر کون سے ستم نہیں ٹوٹے لیکن پتلی تماشا دکھانے والوں کو اس سے کیا غرض۔ انھیں تو اس سے بھی غرض نہیں کہ وہ مشرقی پاکستان جو 71ء میں بنگلہ دیش بن گیا تھا، وہ ہم سے نجات حاصل کرکے جمہوری راستے کو اختیار کرتے ہوئے کہاں جا پہنچا ہے۔ جمہوری ہندوستان کی مثال دینا اس لیے مناسب نہیں کہ وہ کفار اور مشرکین کا ملک ہے، وہ جس راستے پر چلے ہمیں اس سے مخالف سمت جانا چاہیے اور یوں بھی اس کی ترقی کی مثالیں ہمارے یہاں بہت سے لوگوں کا فشار خون بڑھا دیتی ہیں۔ ایک ہم ہیں جہاں کسی منتخب جمہوری حکومت نے کسی دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔ جس سے ادارے مستحکم نہ ہوسکے، سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور قانون کی جگہ طاقت کی حکمرانی قائم ہوگئی جس کی بھرپور فصل ہم نے 2012 میںکاٹی۔
ہم نے وہ عذاب جھیلے جو ہمارا مقدر ہرگز نہ تھے۔ ایک طرف جمہوری دروبست کو لپیٹنے یا کم سے کم اسے کمزور تر کرنے کے منصوبے ہیں، دوسری طرف ہمارے وہ لوگ ہیں جو شاہ لطیف، شاہ عنایت، علی ہجویری، میاں میر اور ایسے ہی دوسرے بزرگوں کی راہ پر چلتے ہیں اور کلمۂ حق بلند کرتے ہیں اور ان کے کلام سے، ان کے اقوال سے امید کشید کرتے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں کہ ان کے پاس بس یہی خواب ہیں، جن کے سہارے وہ جی سکتے ہیں اور اپنے اپنے وقت کے یزیدوںسے لڑ سکتے ہیں۔یہ لوگ اسکندر اعظم، نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی جیسے فاتحین کے لشکروں سے روندے جانے کے بعد بھی جی اٹھتے ہیں۔ لشکر خاک میں مل جاتے ہیں ۔ خاک بہ سر کیے جانے والوں کی آنکھوں کے خواب نہیں مرتے۔، زندہ رہتے ہیں۔