کلینڈر اور یادیں

ارشاد نبوی صلہ اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس کا حال اس کے گزرے ہوئے کل سے اچھا نہ ہو وہ ہلاک ہو گیا۔


Nasir Rizwan Advocate January 01, 2013

ہر مذہب اور قوم اپنے نئے سال کا آغاز اپنی کسی بڑی شخصیت کے پیدائش سے کرتی ہے لیکن صرف مسلمان اپنے سال کا آغاز واقعہ ہجرت سے کرتے ہیں کیونکہ اسلام میں شخصیت پرستی کی نفی کی گئی ہے، حضرت عمر ؓ کے زمانے میں یعنی 17 ہجری سے اسلامی کلینڈر کا آغاز ہوا اور ہجرت کا واقعہ محرم الحرام میں ہوا تھا لہذا محرم سے اسلامی کلینڈر کو شروع کیا گیا اس ہی لیے اسلامی تاریخ کے آخر میں (ھ) لکھا جاتا ہے اور اس سے قبل نبوی کلینڈر استعمال ہوتا تھا جو کہ اعلان نبوت سے ماخوذ ہے، دوسرے ادعیان یعنی مسیحی کلینڈر کی بنیاد حضرت عیسیٰ ؑ کے یوم ولادت سے ہے اسی لیے عیسوی کلینڈر کے آخر میں (ء) لکھا جاتا ہے بکرمی یا ہندو راجہ بکرمہ جیت کی پیدائش سے، یہودی حضرت سلیمان ؑ کی تخت نشینی سے، رومی سکندر اعظم کی پیدائش سے وغیرہ وغیرہ لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی لوگ زندہ رہے جو انسانیت کی خدمت کر سکے۔

اس کے علاوہ دوسروں کی حیثیت دیوار پر لگے کلینڈر جیسی رہی جسے سال گزرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور وہ کسی کو یاد بھی نہیں ہوتے سکندر اعظم کا نظام اس کے بعد پانچ سال سے زائد زندہ نہیں رہا اور ناکام ہو گیا اس کے برخلاف آج بھی جب کوئی فوجی چھٹی جاتا ہے، کوئی طالبعلم وظیفہ لیتا ہے کوئی مریض اسپتال سے دوا لیتا ہے کوئی شخص انصاف کے لیے عدالت کے دروازے پر جاتا ہے کوئی ایمبولینس مریض کو اسپتال لیجاتی ہے پولیس گشت کرتی ہے، مسجد کے اسپیکر سے اذان بلند ہوتی ہے، کوئی شخص اپنے عزیز کا خط لیتا ہے وغیرہ وغیرہ تو وہ حضرت عمرؓ کو یاد کرتا ہے۔

افسوس آج ہمارے حکمران بے نظیر کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا سہارا صرف رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے کرتے ہیں لیکن یہ یاد نہیں رکھتے کہ رفیق الحریری کی وجہ شہرت اس کی عوامی خدمت تھی جسکا کہنا تھا کہ میں دنیا میں دو چیزیں چھوڑ کر جا ئوں گا خدمت اوردولت، میرا کفن میلا ہونے سے قبل میری دولت تقسیم ہو جائے مگر میرے خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور آج ماڈرن سائنس بھی یہ مانے پر مجبور ہے کہ نیکی اور خدمت مرنے کے بعد بھی انسان کو مرنے نہیں دیتیں قوموں کی زندگی میں رول ماڈل ضروری ہوتے ہیں جو ان کی تاریخ رقم کرتے ہیں ہمارے پاس بدقسمتی سے سیاستدان اور حکمران بہت ہیں لیکن لیڈر کم جس کی وجہ سے ہم نئے سال کی ابتداء بھی روتے دھوتے کر رہے ہیں۔

بقول نیلسن منڈیلا سیاستدان اگلے الیکشن کی فکر کرتا ہے لیکن لیڈر اگلی نسل کی فکر کرتا ہے اس کی تصدیق آج کے حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کے بیانات سے کی جا سکتی ہے۔ جن کے پاس اگلے سال کے لیے پاکستانی قوم کی ترقی کا کوئی پروگرام نہیں ہے ہر بیان نئے سال کے آغاز میں ہونے والے انتخابات سے منسلک ہے۔ ان کے دامن میں قوم کی خدمت کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں27 دسمبر کی صدر اور بلاول کی تقریر موجودہ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے لیے خود باعثِ شرمندگی ہے۔ جہاں پانچ سال حکمرانی کے باوجود عوامی خدمت کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں لیکن مایوس کن کارکردگی کے بارے میں خلق خدا غائبانہ اور حاضرانہ کیا کہہ رہی ہے اس کی ان کو غرض نہیں، غرض ہے تو دوبارہ اقتدار کے حصول سے ہے موجودہ حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں نے جنھیں موجودہ وزیراعظم ایک خاندان قرار دیتے ہیں۔

پاکستانی قوم کو تاریخ کے بدترین درجے پر کھڑا کر دیا ہے لیکن کسی کے ضمیر پر کوئی ملامت نہیں ہے یہ واقعی ایک قبیلہ ہے جو ایک دوسرے کے برے کاموںمیں ساتھ دیتے ہیں لیکن عوامی مسائل کے حل کے لیے تقسیم ہو جاتے ہیں کھلے عام عدلیہ، آئین، عوامی رائے اور مسائل کا مذاق اڑاتے ہیں، جب ان کو 2008 میں اقتدار ملا تو پاکستان کا G.D.P. 7 فیصد تھا اور آج 2.5 فیصد ہے ڈالر 60 روپے تھا اور آج 100روپے کا، C.N.G. کی اتنی اہمیت نہیں تھی آج اس کے لیے عوام رات 12بجے سے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں، پورے ملک خصوصاً کراچی اور بلوچستان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے انھیں کوئی غرض نہیں کہ عوام اپنے چولہے کس طرح جلا رہے ہیں اور اپنی عزت اور جان کس طرح بچا رہے ہیں یہ عوام کو صرف ووٹ دینے اور کڑھنے کے لیے زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔

لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ِان سے قبل بھی ایسے بہت سے لوگوں نے ایسا کیا اور آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں ہے اگر کچھ نام تاریخ کے صفحات میں ہیں تو وہ اچھے الفاظ کے ساتھ نہیں اور مرنے کے بعد بھی لوگوں کی آہیں اور بددعائیں ان کے تعاقب میں ہوتی ہیں۔ اس کے برخلاف جو لوگ عملی کام کر گئے زندہ قومیں ان کے مزاروں اور تاریخ وفات کو بھی تازہ رکھتی ہیں۔ کیونکہ وہ روشنی کی سمت میں سفر کرتے ہیں بقول ہٹلر جب آپ روشنی میں ہوتے ہیں تو ہرچیز آپ کے پیچھے ہوتی ہے اور جب اندھیرے میں ہوتے ہیں تو سایہ بھی پیچھا چھوڑ دیتا ہے یہ لوگ اقتدار سے زیادہ اقدار کی فکر کرتے ہیں۔

سقراط نے زہر کا پیالہ خود اپنے ہاتھوں سے پیا پھر بھی تاریخ میں امر ہو گیا آج بھی اس کا نام اور فلسفہ زندہ ہے۔ امام حسین ؓ نے اپنے شعور اور روحانی آنکھ سے کربلا دیکھا مگر آج ہر مسلمان فخر سے ان کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تاریخ میں کتنے حکمران، ان کے اتحادی اور حواری قبرستان کی مٹی بنے مگر احترام بہت کم لوگوں نے کمایا عہدے اور حکمرانی تو ڈھلتی چھائوں ہیں۔ تاریخ کا سفر رہتی دنیا تک چلتا رہے گا اور جو لمحہ گزر گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا پر اس کی گونج کہیں نہ کہیں زندہ رہے گی اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا جس کا حال اس کے گزرے ہوئے کل سے اچھا نہ ہے وہ ہلاک ہو گیا اس کے بعد کسی دلیل کی گنجائش نہیں بس فیصلہ ہو گیا۔

جانے کن عجلتوں میں رہتے ہیں
آنکھ جھپکی نہیں کہ سال گیا
ابھی جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں