کیا یہ قائد کا پاکستان ہے
دنیا کے سامنے عملی طور پر ہمیں اسے ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کا درجہ دلوانے کی اشد ضرورت ہے۔
پوری پاکستانی قوم اپنے محسن یعنی قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش پورے جوش و خروش اور ملّی جذبے سے مناتی ہے۔ اپنے محسن کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ بانی پاکستان سے اپنی محبت اور وابستگی کا اظہار کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ لیکن صرف اپنے عظیم رہنما کا، شایان ِشان طریقے سے یوم پیدائش منانا کافی نہیں اصل میں اپنے ''قومی ہیرو'' کے نظریات، خیالات، فرمودات اور خواہشات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے ہی میں اس قوم کی کامیابی، ترقی اور بھلائی پوشیدہ ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
''مجھے یقین ہے کہ دستور جمہوری طرز کا ہو گا، جس میں اسلام کے لازمی بنیادی اصول شامل ہوں گے، وہ اصول جو آج بھی حقیقی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے تصورات نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے، اس نے ہمیں تعلیم دی ہے مساوات انسانی کی، عدل کی اور ہر ایک کے ساتھ انصاف برتنے کی۔ ہم لوگ وارث ہیں ان شاندار روایات کے اور پاکستان کا آئین تیار کرتے وقت اپنی ذمے داریوں اور فرائض کے معاملے میں پوری طرح بیدار ہیں۔
بہر صورت پاکستان کسی طرح بھی کلیسائی مملکت نہیں جہاں کوئی پادری اپنے مقدس مشن کا نام لے کر حکمرانی کرے۔ ہمارے یہاں بہت سے غیر مسلم، ہندو، مسیحی اور پارسی بھی ہیں مگر وہ سب پاکستانی ہیں۔ ان سب کو وہی حقوق و مراعات حاصل ہوں گی جو ملک کے دوسرے شہر یوں کو حاصل ہوں گی۔ اور یہ لوگ پاکستان کے معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ (ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام نشری تقریر فروری ۔ 1948)
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا شمار نہ صرف ہمارے ملک کے سب سے بڑے ''قومی ہیروز'' میں ہوتا ہے بلکہ برصغیر پاک ہند کے عظیم رہنمائوں میں کیا جاتا ہے اور اگر ہم اس تناظر میں بانی پاکستان کی مندرجہ بالا تقریر کے متن پر غور کریں تو ہمیں اس تلخ حقیقت کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ ہماری ریاست، ہماری جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی ریاست کی اصل طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں ان سب نے مل کر وطن عزیز کی گاڑی کو چلانے کے لیے اس راستے کا انتخاب نہیں کیا جو ہمیں بانی پاکستان نے اپنے افکار کی روشنی میں طے کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس لیے یہ بات طے ہے کہ آج ہم جس پاکستان میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی زندگیاں جس بے عملی، بے ایمانی، لاقانونیت، نا انصافی، منافقت، ظلم و جبر، بدعنوانی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے سائے تلے گزار نے پر مجبور ہیں یہ پاکستانی قوم اور ریاست کی فتح نہیں بدترین شکست کہی جا سکتی ہے۔ افسوس! وجہ کوئی بھی ہو آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں یہ بات قطعی یاد نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سامراجی قوتوں اور کفریہ سازشوں سے برسوں بر سر پیکار رہنے کے بعد زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا جس کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے کتنی جدوجہد، کتنی جانفشانی، کتنی لازوال قربانیوں کے علاوہ 20 لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا تھا۔
یہی نہیں نہ جانے کتنی مائوں کے سر سے چادریں چھینی گئی تھیں اور کتنی ہی بہنوں ، بیٹیوں اور بیوائوں کے عصمتیں داغدار کی گئی تھیں۔ کتنا قیمتی برصغیر کے مسلمانوں کا مال و اسباب تھا جسے وہ آزادی کی خاطر چھوڑ کر بے سر و سامانی کی حالت میں، سفر کی ہزار مصیبتوں اور کٹھنائیوں کو ہنسی خوشی جھیلتے اس سر زمین پر آباد ہونے چلے آئے تھے اور قربانیوں کا حق ادا کرنا تھا۔ اپنے اندر اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینا تھا۔ ہمیں دنیا کے دوسرے آزاد ہونے والے ممالک کی طرح ترقی کرنا تھی۔ اپنے ملک میں جہالت کے بجائے خواندگی کی شرح 100 فی صد کرنی تھی۔
اپنی خواتین کو بنیادی حقوق اور نوجوان نسل کو وسائل مہیا کرنے تھے مگر صد افسوس! ہم نے ہر شعبہ زندگی میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ملک کو بدعنوانی، اقربا پروری اور موروثی سیاست و جاگیردارانہ نظام سے بچا کر جمہوریت کے پودے کو اس کی اصل شکل میں پروان چڑھانا تھا۔ سب سے بڑھ کر ''عدل و انصاف'' قائم کرنا تھا۔ ہم اس نبی پاکؐ کے اُمتی ہونے کے دعویدار ہیں کہ جس کی مٹھی میں کائنات کے خزانے تھے۔
مگر پھر بھی اس کا گھر ہر قسم کا آسائشوں سے پاک اور اُس کا لباس پیوند سے بھرا ہوتا تھا۔ یعنی ہمیں اپنے ملک کو اسلامی اقدار کا قبرستان نہیں بلکہ اسلام کا مظبوط قلعہ بنانا تھا۔ مغربی اور بھارتی ثقافت کے بجائے مشرقی ثقافت اور تہذیب و تمدّن کا اعلیٰ شاہکار بنانا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا کہ سب کچھ بکھر گیا۔ ہمارا ملک حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیوں اور معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ آج ہم 65 سال گزارنے کے باوجود بھی کالے قوانین، اغیار کی سازشوں کا شکار اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔
مسلمان ہو کر دوسرے مسلمان کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ روشنی کے سارے دروازے ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے بند کر لیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے اور سنگین الزام تراشیوں سے باز نہیں آتیں یہاں تک کہ ملک کی معیشت پر بھی سیاست کی اجارہ داری قائم ہے جس نے ملک کی اقتصادی حالت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی انتہا کو پہنچ چکی ہے گزشتہ سال 176 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 42 واں نمبر تھا جو اس سال مزید 9 درجے نیچے یعنی 33 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔
جب کہ ملک کی 52 فی صد آبادی کے ساتھ ظلم و زیادتی اور تشدد کے لحاظ سے پاکستان کو پانچواں ملک ٹھہرایا جاچکا ہے۔ اس کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی مرکز کراچی کو دنیا کے دس خطرناک شہروں میں سے ایک ہونے کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ آج ہم برصغیر پاک و ہند کے جس عظیم لیڈر کا یوم پیدائش بڑے جوش و جذبے سے منانے کا دکھاوا کر رہے ہیں کیا ہم بحیثیت ایک پاکستانی کے اس سنگین صورتحال پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہیں کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں ایک پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
پاکستانی معاشرہ آج جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے، دہشت گردی، مہنگائی اور دیگر مسائل میں اُلجھی قوم کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں کہ ہماری نوجوان نسل کس جانب سفر کر رہی ہے۔ دوسری جانب نوجوان نسل کی تباہی و بربادی کے بے شمار وسائل پورے معاشرے کو گندا کر رہے ہیں۔ لیکن اربابِ اختیار کو اس کی گہرائی کا مطلق احساس نہیں۔ آج ہم اور ہمارے حکمران بظاہر تو آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں مگر اس حقیقت کی سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ برطانیہ کے بجائے ''امریکی غلامی کا طوق '' ہم نے اپنے گلے میں ڈال رکھا ہے۔
امریکی مفادات کی جنگ اپنی سر زمین پر لڑکر ہم نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اپنے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ کر لیا ہے، جس سے ملک میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور سقوطِ ڈھاکہ جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ملک کے نا گفتہ بہ حالات اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے تو قطعی غلط نہ ہو گا کہ ہم نے بانی پاکستان اور ان کے رفقاء کی جدوجہد ہی کو نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ جس کے سبب آزادی جیسی نعمت حاصل ہوئی ہم سامراجی اور طاغوتی قوتوں کے برسوں غلام رہے جب کہ ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر ہمارے خلاف سازشیں کی مگر یہ قائداعظم ہی تھے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، جرأت و ہمت اور قابلیت کو استعمال میں لا کر ہندوستان کی ایک غلام قوم کی آزاد اور باوقار قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ آزادی کی جدوجہد کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی بلکہ کانٹوں کا بستر تھا۔ قائداعظم نے اپنی تمام عمر ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی دلانے میں صرف کردی، یہاں تک کہ اپنی صحت کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ ان ہی کی کوششوں اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد اور خود مختار ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کہلانے کے قابل ہو سکے ہیں۔ مگر صرف زبانی طور پر یہ دعویٰ کرنا کافی نہیں بلکہ دنیا کے سامنے عملی طور پر ہمیں اسے ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کا درجہ دلوانے کی اشد ضرورت ہے۔ جبھی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ قائد کا پاکستان ہے اور ایک ایسی فلاحی مملکت ہے جہاں صحیح معنوں میں عوام کی حکمرانی ہے۔
''مجھے یقین ہے کہ دستور جمہوری طرز کا ہو گا، جس میں اسلام کے لازمی بنیادی اصول شامل ہوں گے، وہ اصول جو آج بھی حقیقی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے تصورات نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے، اس نے ہمیں تعلیم دی ہے مساوات انسانی کی، عدل کی اور ہر ایک کے ساتھ انصاف برتنے کی۔ ہم لوگ وارث ہیں ان شاندار روایات کے اور پاکستان کا آئین تیار کرتے وقت اپنی ذمے داریوں اور فرائض کے معاملے میں پوری طرح بیدار ہیں۔
بہر صورت پاکستان کسی طرح بھی کلیسائی مملکت نہیں جہاں کوئی پادری اپنے مقدس مشن کا نام لے کر حکمرانی کرے۔ ہمارے یہاں بہت سے غیر مسلم، ہندو، مسیحی اور پارسی بھی ہیں مگر وہ سب پاکستانی ہیں۔ ان سب کو وہی حقوق و مراعات حاصل ہوں گی جو ملک کے دوسرے شہر یوں کو حاصل ہوں گی۔ اور یہ لوگ پاکستان کے معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ (ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام نشری تقریر فروری ۔ 1948)
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا شمار نہ صرف ہمارے ملک کے سب سے بڑے ''قومی ہیروز'' میں ہوتا ہے بلکہ برصغیر پاک ہند کے عظیم رہنمائوں میں کیا جاتا ہے اور اگر ہم اس تناظر میں بانی پاکستان کی مندرجہ بالا تقریر کے متن پر غور کریں تو ہمیں اس تلخ حقیقت کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ ہماری ریاست، ہماری جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی ریاست کی اصل طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں ان سب نے مل کر وطن عزیز کی گاڑی کو چلانے کے لیے اس راستے کا انتخاب نہیں کیا جو ہمیں بانی پاکستان نے اپنے افکار کی روشنی میں طے کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس لیے یہ بات طے ہے کہ آج ہم جس پاکستان میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی زندگیاں جس بے عملی، بے ایمانی، لاقانونیت، نا انصافی، منافقت، ظلم و جبر، بدعنوانی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے سائے تلے گزار نے پر مجبور ہیں یہ پاکستانی قوم اور ریاست کی فتح نہیں بدترین شکست کہی جا سکتی ہے۔ افسوس! وجہ کوئی بھی ہو آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں یہ بات قطعی یاد نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سامراجی قوتوں اور کفریہ سازشوں سے برسوں بر سر پیکار رہنے کے بعد زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا جس کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے کتنی جدوجہد، کتنی جانفشانی، کتنی لازوال قربانیوں کے علاوہ 20 لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا تھا۔
یہی نہیں نہ جانے کتنی مائوں کے سر سے چادریں چھینی گئی تھیں اور کتنی ہی بہنوں ، بیٹیوں اور بیوائوں کے عصمتیں داغدار کی گئی تھیں۔ کتنا قیمتی برصغیر کے مسلمانوں کا مال و اسباب تھا جسے وہ آزادی کی خاطر چھوڑ کر بے سر و سامانی کی حالت میں، سفر کی ہزار مصیبتوں اور کٹھنائیوں کو ہنسی خوشی جھیلتے اس سر زمین پر آباد ہونے چلے آئے تھے اور قربانیوں کا حق ادا کرنا تھا۔ اپنے اندر اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینا تھا۔ ہمیں دنیا کے دوسرے آزاد ہونے والے ممالک کی طرح ترقی کرنا تھی۔ اپنے ملک میں جہالت کے بجائے خواندگی کی شرح 100 فی صد کرنی تھی۔
اپنی خواتین کو بنیادی حقوق اور نوجوان نسل کو وسائل مہیا کرنے تھے مگر صد افسوس! ہم نے ہر شعبہ زندگی میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ملک کو بدعنوانی، اقربا پروری اور موروثی سیاست و جاگیردارانہ نظام سے بچا کر جمہوریت کے پودے کو اس کی اصل شکل میں پروان چڑھانا تھا۔ سب سے بڑھ کر ''عدل و انصاف'' قائم کرنا تھا۔ ہم اس نبی پاکؐ کے اُمتی ہونے کے دعویدار ہیں کہ جس کی مٹھی میں کائنات کے خزانے تھے۔
مگر پھر بھی اس کا گھر ہر قسم کا آسائشوں سے پاک اور اُس کا لباس پیوند سے بھرا ہوتا تھا۔ یعنی ہمیں اپنے ملک کو اسلامی اقدار کا قبرستان نہیں بلکہ اسلام کا مظبوط قلعہ بنانا تھا۔ مغربی اور بھارتی ثقافت کے بجائے مشرقی ثقافت اور تہذیب و تمدّن کا اعلیٰ شاہکار بنانا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا کہ سب کچھ بکھر گیا۔ ہمارا ملک حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیوں اور معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ آج ہم 65 سال گزارنے کے باوجود بھی کالے قوانین، اغیار کی سازشوں کا شکار اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔
مسلمان ہو کر دوسرے مسلمان کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ روشنی کے سارے دروازے ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے بند کر لیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے اور سنگین الزام تراشیوں سے باز نہیں آتیں یہاں تک کہ ملک کی معیشت پر بھی سیاست کی اجارہ داری قائم ہے جس نے ملک کی اقتصادی حالت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی انتہا کو پہنچ چکی ہے گزشتہ سال 176 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 42 واں نمبر تھا جو اس سال مزید 9 درجے نیچے یعنی 33 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔
جب کہ ملک کی 52 فی صد آبادی کے ساتھ ظلم و زیادتی اور تشدد کے لحاظ سے پاکستان کو پانچواں ملک ٹھہرایا جاچکا ہے۔ اس کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی مرکز کراچی کو دنیا کے دس خطرناک شہروں میں سے ایک ہونے کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ آج ہم برصغیر پاک و ہند کے جس عظیم لیڈر کا یوم پیدائش بڑے جوش و جذبے سے منانے کا دکھاوا کر رہے ہیں کیا ہم بحیثیت ایک پاکستانی کے اس سنگین صورتحال پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہیں کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں ایک پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
پاکستانی معاشرہ آج جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے، دہشت گردی، مہنگائی اور دیگر مسائل میں اُلجھی قوم کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں کہ ہماری نوجوان نسل کس جانب سفر کر رہی ہے۔ دوسری جانب نوجوان نسل کی تباہی و بربادی کے بے شمار وسائل پورے معاشرے کو گندا کر رہے ہیں۔ لیکن اربابِ اختیار کو اس کی گہرائی کا مطلق احساس نہیں۔ آج ہم اور ہمارے حکمران بظاہر تو آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں مگر اس حقیقت کی سچائی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ برطانیہ کے بجائے ''امریکی غلامی کا طوق '' ہم نے اپنے گلے میں ڈال رکھا ہے۔
امریکی مفادات کی جنگ اپنی سر زمین پر لڑکر ہم نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اپنے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ کر لیا ہے، جس سے ملک میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور سقوطِ ڈھاکہ جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ملک کے نا گفتہ بہ حالات اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے تو قطعی غلط نہ ہو گا کہ ہم نے بانی پاکستان اور ان کے رفقاء کی جدوجہد ہی کو نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ جس کے سبب آزادی جیسی نعمت حاصل ہوئی ہم سامراجی اور طاغوتی قوتوں کے برسوں غلام رہے جب کہ ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر ہمارے خلاف سازشیں کی مگر یہ قائداعظم ہی تھے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، جرأت و ہمت اور قابلیت کو استعمال میں لا کر ہندوستان کی ایک غلام قوم کی آزاد اور باوقار قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ آزادی کی جدوجہد کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی بلکہ کانٹوں کا بستر تھا۔ قائداعظم نے اپنی تمام عمر ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی دلانے میں صرف کردی، یہاں تک کہ اپنی صحت کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ ان ہی کی کوششوں اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد اور خود مختار ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کہلانے کے قابل ہو سکے ہیں۔ مگر صرف زبانی طور پر یہ دعویٰ کرنا کافی نہیں بلکہ دنیا کے سامنے عملی طور پر ہمیں اسے ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کا درجہ دلوانے کی اشد ضرورت ہے۔ جبھی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ قائد کا پاکستان ہے اور ایک ایسی فلاحی مملکت ہے جہاں صحیح معنوں میں عوام کی حکمرانی ہے۔