ہم بھلکڑ
بھارت پہلے ہی پاکستانی ڈرامے کی شہرت سے خائف تھا سو اس نے اسے اپنی حدود میں داخل ہی نہ ہونے دیا۔
جب پہلی بار میں نے پاکستانی سینما گھروں پر بھارتی فلموں کے بڑے بڑے پوسٹرز چسپاں دیکھے تھے تو میرا دل خود بخود دکھی ہو گیا، مجھے وہ تمام پاکستانی ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور پروڈیوسرز یاد آ گئے جنہوں نے قیام پاکستان کے کئی سال بعد بھارتی فلموں کی پاکستانی سینماؤں پر نمائش کے خلاف بھر پور احتجاج کیا تھا۔ یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ جس میں پوری پاکستانی فلم انڈسٹری نے بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف مضبوط اتحاد کر لیا تھا۔
جلسے، دھرنے اور چیخ و پکار جو کچھ ان لوگوں سے ہو سکا تھا انھوں نے کیا، بڑی بڑی فلمی اداکارائیں، بڑے بڑے اداکار، عام عوام کی طرح حکومت سے احتجاج کر رہے تھے ان کو اس وقت اپنی شہرت اور عزت کی نہیں اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کی فکر تھی جس سے اس وقت ایک بڑی تعداد منسلک تھی جو اپنی روزی روٹی کماتی تھی، ان میں سے بہت سے بڑے اور امیر پروڈیوسرز اور ہدایت کار و اداکار بھی تھے جو فلم انڈسٹری ترک کر کے بھی اپنا کوئی اور بزنس کر سکتے تھے، لیکن انھیں قلق تھا تو اس بات کا کہ اس طرح ان کے ملک کی صلاحیتیں زمین میں دفن ہو جائیں گی، اس احتجاج کی بنیاد کہاں سے شروع ہوئی تھی، پاکستان بننے کے بعد ہندوستانی فلمیں پاکستانی سینماؤں کی زینت بنتی تھیں، پاکستان میں فلم کار لٹے پٹے اس انڈسٹری کو بنانے میں لگ گئے، نئے اسٹوڈیوز بنے، اور نئی فلموں کی پروڈکشنز شروع ہوئی۔
پروڈیوسرز کی خواہش تھی کہ جس طرح پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش ہوتی ہے، ہندوستانی سینماؤں میں بھی پاکستانی فلموں کی نمائش ہو، ایسا ہرگز نہیں تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ٹیلنٹ کی کمی تھی۔ بہت سے پختہ کام کرنے والے لوگ جن میں خواجہ خورشید انور، شوکت حسین رضوی، نور جہاں، نذیر حسین، راگنی، ڈبلیو زیڈ احمد وغیرہ، پہلے ہی غیر منقسم برصغیر میں فلموں میں اپنا جادو جگا چکے تھے، ٹوٹی پھوٹی اشیاء، لٹے پٹے اسٹوڈیوز کم سرمائے سے بنی پاکستانی فلمیں ان کی انتھک محنتوں کا منہ بولتا ثبوت تھیں، لیکن افسوس بھارت میں ان کو ان کی فلموں کے وہ دام نہ ملے جس کے وہ حقدار تھے، دوسرے لفظوں میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو بٹھانے کی ایک بھرپور سازش تھی جس نے پرانی دوستیوں کو بھی یکسر نظرانداز کردیا۔ مشرقی پنجاب جالندھر شہر کے ایک بڑے فلمی نام اوم پرکاش کپور کے خط کے کچھ مندرجات تحریر کر رہی ہوں جو انھوں نے ایک پاکستانی پروڈیوسر کو ان کی پنجابی فلم کے سلسلے میں لکھا تھا ذرا ملاحظہ ہو۔
''آپ نے اپنی فلم کے دام اس قدر زیادہ مانگے ہیں کہ میں خرید نہ سکوں گا، آپ نے قیمت لکھتے وقت ان باتوں کا خیال نہ کیا۔ (الف) پاکستانی کرنسی 100 /= ہندوستانی کرنسی 144.13 /= کے برابر ہے۔ (ب) ہندوستانی پنجابی فلمیں بھی اس قدر و قیمت پر فروخت نہیں ہوتیں جس میں مشہور اداکار مجنوں اور اوم پرکاش وغیرہ کام کرتے ہیں۔ میں ہندوستانی کرنسی میں مبلغ 10,000 /= سے 15,000 /= تک میں خرید سکتا ہوں، ٹھیک بات چیت فلم کو دیکھنے کے بعد ہو سکتی ہے۔''
صرف یہی نہیں بلکہ اوم پرکاش کپور صاحب نے ساتھ میں کچھ اور فرمائشوں کا بھی ذکر کیا، ان کا یہ تاریخی خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، صرف ایک نہیں کئی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز ہندوستانی تجربہ کاروں کے اس رویے سے دلبرداشتہ ہو گئے تھے اور پھر سب جڑ کر بیٹھ گئے اور ایک لائحہ عمل تیار کیا، ہندوستانی فلم ''جال'' کی نمائش کو رکوانے کے لیے وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے، گرفتاریاں عمل میں آئیں، سب نے بخوشی اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا، عوام اپنے محبوب فنکاروں کو چاہتی تھی، جیت پاکستانی فلم انڈسٹری کی ہوئی اور پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگ گئی۔ یہ ایک بڑا دھچکا تھا جو اس وقت بھارتی فلم انڈسٹری کو پہنچا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی فلمیں اس معیار کی بنیں کہ سب واہ واہ کر اٹھے۔
پڑھے لکھے لوگ اعلیٰ ذہن کے حامل فن کے سچے عاشق سب نے مل کر ایک مضبوط انڈسٹری کی بنیاد رکھی، عشق لیلیٰ، سات لاکھ، کوئل، نیند، موسیقار کے گیت برصغیر میں مقبول ہو گئے، نورجہاں، سنتوش، درپن، حبیب اور صبیحہ خانم کے فن کی دھوم مچنے لگی۔70 کا دور پاکستان فلم انڈسٹری کا خوبصورت دور تھا، جس میں وحید مراد، محمد علی، زیبا، رانی، نغمہ، شاہد وغیرہ کی فلمیں انٹرنیشنل لیول پر پسند کی جانے لگیں، یہ حقیقت تھی کہ اس وقت بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقابلہ بھارتی فلم انڈسٹری سے کیا جاتا تھا لیکن محدود وسائل اور سرمائے کے باعث پاکستانی فلمیں اب بھی بھارتی فلموں سے پیچھے تھیں، بھارت میں فلمیں بیرون ملک سے کلر کروائی جاتیں جب کہ پاکستان کی فلمیں اس مہنگی عیاشی کی متحمل نہ تھیں۔
لہٰذا اس دور کی اکثر فلمیں بلیک اینڈ وہائٹ میں دستیاب تھیں لیکن خوبصورت موسیقی، مضبوط کہانی، پراعتماد اداکاری اور بھرپور ہدایت کاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو پیچھے نہ ہٹنے دیا۔ غالباً فلم ''آئینہ'' یا ''میرا نام ہے محبت'' تھی جس کی شہرت دنیا بھر میں تھی، لندن میں ایک ہندوستانی نے اس فلم کے سارے ٹیپ خرید لیے، اس لیے نہیں کہ اسے اس پاکستانی فلم سے عشق تھا بلکہ اس لیے کہ وہ ایک محب وطن ہندوستانی تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس پاکستانی فلم کی شہرت ہو کیونکہ اس کے مدمقابل ایک بھارتی فلم تھی، نتیجتاً لوگوں نے وہ ہندوستانی فلم خرید کر دیکھی کیونکہ پاکستانی فلم دستیاب ہی نہ تھی۔ وہ ڈمپ کر دی گئی تھی۔ یہ ایک معمولی سی سازش ہے جسے میرے جیسے بہت سے لوگ نہیں سمجھے ہونگے۔
میں بار بار ایک ہی بات دہراتی ہوں کہ ہم بھول جانے والی قوم ہیں، ہم سب کچھ بہت جلدی بھول جاتے ہیں، ہماری ترقی کی راہ میں یہ بھول جانے کی عادت ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہم بھول رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ماضی میں کیا ہو چکا ہے، گیارہ بڑی ریاستوں والا یہ دیس ہمارے مقابلے میں بہت بڑا ہے لیکن اس کی سازشیں ہماری ہر صنعت سے جڑی ہیں، پاکستانی فلم انڈسٹری بیٹھ گئی، شباب کیرانوی، حسن طارق جیسے بڑے ہدایت کار اب ہم میں نہیں رہے۔
لیکن فلم انڈسٹری میں نیا خون کیا اتنا ہی ہلکا تھا۔ خیر یہ الگ بحث ہے، لیکن پاکستانی ڈراما انڈسٹری نے شروع سے ہی اپنا ایک مقام بنایا، نئے چینلز کی بھاگ دوڑ میں بھی اس انڈسٹری نے بھرپور ترقی کی، نئے لوگ سامنے آئے، بیروزگاروں کی کھپت ہوئی، بہت سے نئے ادارے وجود میں آئے۔
بھارت پہلے ہی پاکستانی ڈرامے کی شہرت سے خائف تھا سو اس نے اسے اپنی حدود میں داخل ہی نہ ہونے دیا، لیکن واہ ہم بھلکڑ۔۔۔۔۔ یہاں سب کچھ چلتا ہے اور سرحد پار وہ ہمارے ڈراموں کو گھسنے نہیں دیتے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ٹیلنٹ کی کمی ہے ہر شعبہ بھرپور ہے لیکن بس ہماری سوچ ناپختہ ہے۔ دیکھتے ہیں اسے پختہ ہونے میں کتنا وقت درکار ہے یا خدانخواستہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی طرح۔۔۔۔۔؟
جلسے، دھرنے اور چیخ و پکار جو کچھ ان لوگوں سے ہو سکا تھا انھوں نے کیا، بڑی بڑی فلمی اداکارائیں، بڑے بڑے اداکار، عام عوام کی طرح حکومت سے احتجاج کر رہے تھے ان کو اس وقت اپنی شہرت اور عزت کی نہیں اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کی فکر تھی جس سے اس وقت ایک بڑی تعداد منسلک تھی جو اپنی روزی روٹی کماتی تھی، ان میں سے بہت سے بڑے اور امیر پروڈیوسرز اور ہدایت کار و اداکار بھی تھے جو فلم انڈسٹری ترک کر کے بھی اپنا کوئی اور بزنس کر سکتے تھے، لیکن انھیں قلق تھا تو اس بات کا کہ اس طرح ان کے ملک کی صلاحیتیں زمین میں دفن ہو جائیں گی، اس احتجاج کی بنیاد کہاں سے شروع ہوئی تھی، پاکستان بننے کے بعد ہندوستانی فلمیں پاکستانی سینماؤں کی زینت بنتی تھیں، پاکستان میں فلم کار لٹے پٹے اس انڈسٹری کو بنانے میں لگ گئے، نئے اسٹوڈیوز بنے، اور نئی فلموں کی پروڈکشنز شروع ہوئی۔
پروڈیوسرز کی خواہش تھی کہ جس طرح پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش ہوتی ہے، ہندوستانی سینماؤں میں بھی پاکستانی فلموں کی نمائش ہو، ایسا ہرگز نہیں تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ٹیلنٹ کی کمی تھی۔ بہت سے پختہ کام کرنے والے لوگ جن میں خواجہ خورشید انور، شوکت حسین رضوی، نور جہاں، نذیر حسین، راگنی، ڈبلیو زیڈ احمد وغیرہ، پہلے ہی غیر منقسم برصغیر میں فلموں میں اپنا جادو جگا چکے تھے، ٹوٹی پھوٹی اشیاء، لٹے پٹے اسٹوڈیوز کم سرمائے سے بنی پاکستانی فلمیں ان کی انتھک محنتوں کا منہ بولتا ثبوت تھیں، لیکن افسوس بھارت میں ان کو ان کی فلموں کے وہ دام نہ ملے جس کے وہ حقدار تھے، دوسرے لفظوں میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو بٹھانے کی ایک بھرپور سازش تھی جس نے پرانی دوستیوں کو بھی یکسر نظرانداز کردیا۔ مشرقی پنجاب جالندھر شہر کے ایک بڑے فلمی نام اوم پرکاش کپور کے خط کے کچھ مندرجات تحریر کر رہی ہوں جو انھوں نے ایک پاکستانی پروڈیوسر کو ان کی پنجابی فلم کے سلسلے میں لکھا تھا ذرا ملاحظہ ہو۔
''آپ نے اپنی فلم کے دام اس قدر زیادہ مانگے ہیں کہ میں خرید نہ سکوں گا، آپ نے قیمت لکھتے وقت ان باتوں کا خیال نہ کیا۔ (الف) پاکستانی کرنسی 100 /= ہندوستانی کرنسی 144.13 /= کے برابر ہے۔ (ب) ہندوستانی پنجابی فلمیں بھی اس قدر و قیمت پر فروخت نہیں ہوتیں جس میں مشہور اداکار مجنوں اور اوم پرکاش وغیرہ کام کرتے ہیں۔ میں ہندوستانی کرنسی میں مبلغ 10,000 /= سے 15,000 /= تک میں خرید سکتا ہوں، ٹھیک بات چیت فلم کو دیکھنے کے بعد ہو سکتی ہے۔''
صرف یہی نہیں بلکہ اوم پرکاش کپور صاحب نے ساتھ میں کچھ اور فرمائشوں کا بھی ذکر کیا، ان کا یہ تاریخی خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، صرف ایک نہیں کئی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز ہندوستانی تجربہ کاروں کے اس رویے سے دلبرداشتہ ہو گئے تھے اور پھر سب جڑ کر بیٹھ گئے اور ایک لائحہ عمل تیار کیا، ہندوستانی فلم ''جال'' کی نمائش کو رکوانے کے لیے وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے، گرفتاریاں عمل میں آئیں، سب نے بخوشی اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا، عوام اپنے محبوب فنکاروں کو چاہتی تھی، جیت پاکستانی فلم انڈسٹری کی ہوئی اور پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگ گئی۔ یہ ایک بڑا دھچکا تھا جو اس وقت بھارتی فلم انڈسٹری کو پہنچا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی فلمیں اس معیار کی بنیں کہ سب واہ واہ کر اٹھے۔
پڑھے لکھے لوگ اعلیٰ ذہن کے حامل فن کے سچے عاشق سب نے مل کر ایک مضبوط انڈسٹری کی بنیاد رکھی، عشق لیلیٰ، سات لاکھ، کوئل، نیند، موسیقار کے گیت برصغیر میں مقبول ہو گئے، نورجہاں، سنتوش، درپن، حبیب اور صبیحہ خانم کے فن کی دھوم مچنے لگی۔70 کا دور پاکستان فلم انڈسٹری کا خوبصورت دور تھا، جس میں وحید مراد، محمد علی، زیبا، رانی، نغمہ، شاہد وغیرہ کی فلمیں انٹرنیشنل لیول پر پسند کی جانے لگیں، یہ حقیقت تھی کہ اس وقت بھی پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقابلہ بھارتی فلم انڈسٹری سے کیا جاتا تھا لیکن محدود وسائل اور سرمائے کے باعث پاکستانی فلمیں اب بھی بھارتی فلموں سے پیچھے تھیں، بھارت میں فلمیں بیرون ملک سے کلر کروائی جاتیں جب کہ پاکستان کی فلمیں اس مہنگی عیاشی کی متحمل نہ تھیں۔
لہٰذا اس دور کی اکثر فلمیں بلیک اینڈ وہائٹ میں دستیاب تھیں لیکن خوبصورت موسیقی، مضبوط کہانی، پراعتماد اداکاری اور بھرپور ہدایت کاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو پیچھے نہ ہٹنے دیا۔ غالباً فلم ''آئینہ'' یا ''میرا نام ہے محبت'' تھی جس کی شہرت دنیا بھر میں تھی، لندن میں ایک ہندوستانی نے اس فلم کے سارے ٹیپ خرید لیے، اس لیے نہیں کہ اسے اس پاکستانی فلم سے عشق تھا بلکہ اس لیے کہ وہ ایک محب وطن ہندوستانی تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس پاکستانی فلم کی شہرت ہو کیونکہ اس کے مدمقابل ایک بھارتی فلم تھی، نتیجتاً لوگوں نے وہ ہندوستانی فلم خرید کر دیکھی کیونکہ پاکستانی فلم دستیاب ہی نہ تھی۔ وہ ڈمپ کر دی گئی تھی۔ یہ ایک معمولی سی سازش ہے جسے میرے جیسے بہت سے لوگ نہیں سمجھے ہونگے۔
میں بار بار ایک ہی بات دہراتی ہوں کہ ہم بھول جانے والی قوم ہیں، ہم سب کچھ بہت جلدی بھول جاتے ہیں، ہماری ترقی کی راہ میں یہ بھول جانے کی عادت ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہم بھول رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ماضی میں کیا ہو چکا ہے، گیارہ بڑی ریاستوں والا یہ دیس ہمارے مقابلے میں بہت بڑا ہے لیکن اس کی سازشیں ہماری ہر صنعت سے جڑی ہیں، پاکستانی فلم انڈسٹری بیٹھ گئی، شباب کیرانوی، حسن طارق جیسے بڑے ہدایت کار اب ہم میں نہیں رہے۔
لیکن فلم انڈسٹری میں نیا خون کیا اتنا ہی ہلکا تھا۔ خیر یہ الگ بحث ہے، لیکن پاکستانی ڈراما انڈسٹری نے شروع سے ہی اپنا ایک مقام بنایا، نئے چینلز کی بھاگ دوڑ میں بھی اس انڈسٹری نے بھرپور ترقی کی، نئے لوگ سامنے آئے، بیروزگاروں کی کھپت ہوئی، بہت سے نئے ادارے وجود میں آئے۔
بھارت پہلے ہی پاکستانی ڈرامے کی شہرت سے خائف تھا سو اس نے اسے اپنی حدود میں داخل ہی نہ ہونے دیا، لیکن واہ ہم بھلکڑ۔۔۔۔۔ یہاں سب کچھ چلتا ہے اور سرحد پار وہ ہمارے ڈراموں کو گھسنے نہیں دیتے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ٹیلنٹ کی کمی ہے ہر شعبہ بھرپور ہے لیکن بس ہماری سوچ ناپختہ ہے۔ دیکھتے ہیں اسے پختہ ہونے میں کتنا وقت درکار ہے یا خدانخواستہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی طرح۔۔۔۔۔؟