شہید پاکستان کا خواب

اگر آپ نے ایک بھی انسان کو بچالیا تو سمجھیں ساری انسانیت کو بچا لیا،


Doctor Nasir Mustehsan January 01, 2013
ڈاکٹر ناصر مستحسن

کسی بھی ادارے کو خلوص دل سے چلانے کے لیے چند قوانین اور کچھ بنیادی اصول کارفرما ہوتے ہیں ادارے تو قوت افرادی کو بروئے کار لا کر بن ہی جاتے ہیں لیکن ان کو فعال کرنے کے لیے ایک مخلص اور جفاکش ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں کئی نامور ہستیوں نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ان نابغہ روزگار ہستیوں کا ماضی کسی بھی قسم کے تضاد سے پاک رہا ہے اور قوم کو ان سے اچھے ہی کی امید ہے جبھی تو چند ایک معتبر لوگ بڑے بڑے فلاحی ادارے بڑی چابکدستی و ہنرمندی سے چلا رہے ہیں اور قوم ان پر بھروسہ کر کے ان کی معاشی مدد کر رہی ہے بغیر کسی دو رائے کے ان کی حق حلال کی کمائی صحیح لوگوں کو دی جا رہی ہے۔

انسانیت کی خدمت کے لیے، شہید پاکستان حکیم محمد سعید کسی بھی مزید تعارف کے محتاج نہیں، انھوں نے تعلیم کے شعبے سے لے کر طب کے شعبے تک کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں، مدینۃ الحکمہ اس کا بین ثبوت ہے، عمران خان نے 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم میموریل اسپتال بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور آج یہ اسپتال پوری دنیا میں واحد اسپتال ہے جو بلا امتیاز کینسر جیسے موذی مرض کا بالکل مفت علاج کر رہا ہے۔

ترقی یافتہ جدید خطوط پر استوار دنیا کا کوئی اور کینسر اسپتال بلا معاوضہ علاج کرنے سے قاصر ہے، اس کام کے پیچھے عوام کا اعتماد شامل ہے، جو ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔ سہارا ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان کے ہونہار سپوت ابرار الحق کی کاوشوں اور خلوص نیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے، اسی طرح انصار برنی ٹرسٹ اپنے روح رواں انصار برنی کی پاکستان کے لیے اعلیٰ خدمات کی وجہ سے ترقی کی راہ میں گامزن ہے، مانا کہ ان کے پیچھے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان جیسی مخلص شخصیت کا ہاتھ ہے۔ ذکر اگر اس انسانی جان کا چل نکلا ہے تو ایدھی کا نام ساری دنیا میں انسانی خدمت میں سرفہرست ہے اور یہ بھی عوامی تعاون سے چل رہا ہے۔

آغا خان اسپتال اپنے آپ میں الگ ہی ہے، ظاہر ہے کہ ان کے مالک کے پاس بے پناہ پیسہ ہے اور لوگوں کی امداد بھی ان کو حاصل ہے، اور بھی کئی فلاحی ادارے ہیں جو عوامی تعاون کی وجہ سے مالی کمی کا شکار نہیں ہیں، چھیپا بھی اب فعال کردار ادا کر رہا ہے، اور دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے، لیکن امام زین العابدین اسپتال اور خدیجۃ الکبریٰ میٹرنٹی اسپتال بہت ہی اچھی جگہ واقع ہیں جس کو شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے اپنے میڈیکل کالج کے لیے پسند کیا تھا اور وہ لیکچر ہال اور سیمینار روم تک بن گئے تھے، اور جب ان سے کہا گیا جناب! آپ اس کا نام تبدیل کر کے ہمدرد کی ایک شاخ رکھ لیں تو وہ سیخ پا ہو کر گویا ہوئے بھلا امام زین العابدینؓ اور خدیجۃ الکبریٰؓ سے اچھا کوئی اور نام ہو سکتا ہے؟ پھر باقاعدہ انھوں نے اپنے میڈیکل کالج کے لیے وہ اسپتال مخصوص کر لیا لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی تھا کہ ان کو سفاک قاتلوں نے شہید کر ڈالا اور یہ مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا۔ امام زین العابدین اسپتال کو کسی ادارے، کسی فلاحی تنظیم، کسی نجی ادارے کی، کسی سرکاری، نیم سرکاری، شخصی، اجتماعی مدد حاصل نہیں ہے۔

وہاں کی انتظامیہ بہت ہی دگرگوں حالات میں انسانی ہمدردی کو بنیاد بنا کر وہ ادارہ چلا رہی ہے، محض اس وجہ سے کہ اس علاقے میں کوئی اور اسپتال موجود نہیں ہے، پچھلے دیے گئے ناموں کے اداروں کو تو مالی معاونت حاصل ہے مگر امام کے نام پر اور ام المومنین کے نام پر چلنے والے ادارے کو کسی بھی قسم کی کوئی مدد یا سرپرستی حاصل نہیں ہے، کچھ شعبے تو اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں یا ان کو اللہ ہی چلا رہا ہے، اگر کوئی صاحب ثروت یا ارباب اختیار میں سے کوئی اس اسپتال کی مدد کرنا چاہتا ہے تو آگے آئے اور اس کی انتظامیہ سے ملے، گردوں کو صاف کرنے کی مشینیں، لیبارٹری، زچہ و بچہ وارڈ میں مشینری، آئی سی یو، آئی سی سی یو، این آئی سی یو، دل کے امراض میں کام آنے والی مشینری نہیں ہے اور جو ہے وہ مرمت کروا کروا کر کام چلا رہے ہیں۔

اسلامی ریاست میں فلاحی کاموں پر بالخصوص توجہ ریاست کی ذمے داری ہے، کیا اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اٹھارہ لوگ بھی نہیں ہیں جو آگے آئیں اور اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں؟ اگر آپ نے ایک بھی انسان کو بچالیا تو سمجھیں ساری انسانیت کو بچا لیا، امام زین العابدین و خدیجۃ الکبریٰ میٹرنٹی اسپتال، گولیمار ناظم آباد کو اب تک پانچ چھ منزلہ جدید مشینری سے لیس، ایمبولینسز کے حساب سے اس علاقے بلکہ کراچی کا بڑا اسپتال ہونا چاہیے تھا، مگر وہی بات حکومت وقت نے توجہ نہیں دی، میں نے، آپ نے، ہم سب نے توجہ نہیں دی، آخر ہم لوگ اس قدر بھٹک کیوں گئے ہیں؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، محسن پاکستان نے بھی اسپتال کھولا ہے، وہ بھی تقریباً بن رہا ہے، اور امام زین العابدین اسپتال کو بنے ہوئے 30 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس اسپتال کے پاس صرف ایک ایمبولینس ہے، جو آئے دن خراب رہتی ہے، مخلص، نیک، انسان دوست ڈاکٹرز کی ٹیم ہے، انتظامیہ میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مظہر حیدر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

بہت ہی مخلص، ملنسار شخصیت ہیں، وہ جن حالات میں اسپتال چلا رہے ہیں بڑے دل گردے کی بات ہے، ان کا ایک حوالہ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی ہے جو ان کی روشن خیالی کو ظاہر کرتا ہے، عقیل مرزا ، بہت ہمدرد، خدا ترس انسان ہیں، وہ ہر وارڈ میں جا کر فرداً فرداً ہر مریض کی عیادت کرتے ہیں اور چیئرمین سید دلشاد حسین ضعیف العمری کے باوجود چاہتے ہیں کہ امام کے نام پر بنے اس اسپتال کو چلایا جائے۔ ایسے میں میری ان تمام حضرات سے استدعا ہے کہ وہ اس اسپتال کو بچائیں اور دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہوں، کسی بھی قسم کی معلومات یا مدد کے لیے آپ ان تینوں حضرات سے مل سکتے ہیں، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا خواب تھا کہ یہ اسپتال کراچی کے جدید ترین اسپتالوں میں سے ایک ہو۔

اگر کوئی صاحب ثروت اپنے نام سے کوئی وارڈ بنوانا چاہیں تو اس سلسلے میں بھی آپ کو مندرجہ بالا حضرات سے بات کرنے کی ضرورت ہے، ہم لاکھوں روپے پیٹرول، سی این جی، پان، چھالیہ، سگریٹ اور دوسرے غلط کاموں میں اڑا دیتے ہیں، اگر اس اسپتال کی مدد کے لیے کمر کس لیں تو یہ کار خیر تو ہو گا ہی، ساتھ ہی ساتھ صدقہ جاریہ بھی ہو گا، وہاں منہ کے کینسر کا کوئی معقول وارڈ نہیں ہے، سب سے پہلے کوئی صاحب ثروت اس کی تعمیر اور اس کے لیے مشینری مہیا کروا دیں۔ اس کا اجر آپ کو اسپتال کی انتظامیہ نہیں بلکہ دنیا و جہاں کی انتظامیہ کا مالک دے گا۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

آج کل گیسٹرو، ڈائیریا، منہ کا سرطان پھیلا ہوا ہے، آپ سب سے استدعا ہے کہ اس اسپتال کو بچا لیں اور فوراً اس کی انتظامیہ سے رابطہ کریں، خدا آپ کا اور آپ کے اہل خانہ کا حامی و ناصر ہو، آپ کا کیا ہوا ایک کام روز محشر آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا، اور ابو بن ادھم کی طرح خدا تعالیٰ کی لسٹ میں آپ کا نام سرفہرست ہو گا، کہا جاتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے، جو لوگ صحت یاب ہوکر اس اسپتال سے نکلیں گے ان کے لبوں پر آپ کے لیے دعا ہو گی اور دعا کبھی کسی کی رائیگاں نہیں جاتی، میں کہہ سکتا ہوں، لکھ سکتا ہوں۔

کچھ نہ کچھ اس اسپتال کے لیے کر سکتا ہوں، اگر ایسا ہر کوئی سوچ لے تو دنیا بھی سرخرو اور آخرت بھی سرخرو۔ آخر میں جو حضرات دلچسپی رکھتے ہوں واقعی میں دکھی انسانیت کی خدمت کی آرزو رکھتے ہیں تو اس سے اچھا موقع شاید ہی پھر کبھی دوبارہ آئے، اسپتال کی تعمیر میں ، اس کی تزئین و آرائش میں، جدید طبی اور ڈینٹل مشینری کے لیے جو جو کچھ کر سکتے ہیں کیجیے۔ خدا ہی اس کا اجر آپ کو دے گا، میں کیا دے سکتا ہوں؟ ہاں آپ کے حق میں دعا گو ضرور رہ سکتا ہوں

ذرا میں زہر ہلاہل' ذرا میں آب حیات
مری سمجھ میں نہ آیا کہ آدمی کیا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں