ملک گیر انفرااسٹرکچر کی ضرورت

سیاسی افق پر سنگ زنی کا عجیب باہمی سلسلہ جاری ہے


Editorial January 25, 2017

گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے ملتان میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں سیاسی مخالفین کو نام لیے بغیر سخت تنقید کا یوں نشانہ بنایا کہ بلیم گیم سے لتھڑے سیاسی ماحول میں جوابی وار کرتے ہوئے ماضی کی معاصرانہ ادبی چشمک زنی کے دن یاد آگئے۔

سیاسی افق پر سنگ زنی کا عجیب باہمی سلسلہ جاری ہے، سیاسی اور قانونی حلقوں کے نزدیک جب کہ بادی النظرمیں ساری لڑائی مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان گھمسان کا سیاسی رن ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا جب کہ دونوں جماعتیں ملکی صورتحال اور خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی حرکیات کا ادراک کیے بغیر پاناما لیکس کیس کے سائیڈ لائن پر اپنی ڈیبیٹ جاری رکھے ہوئے ہیں ،ادھر ملک و قوم کی سیاسی و انتظامی تقدیر بدلنے اور طرز حکمرانی کی قلب ماہیت کے بیشمار امکانات سے مرصع پاناما کیس اور اس کا آئینی اور قانونی سیاق و سباق حکومت سمیت تمام فریقین مقدمہ سے سنجیدگی کا متقاضی ہے، ایک اہم کیس کو قانونی دائرہ اور اخلاقی حدود میں لڑنا چاہیے۔

یہ فورم دلائل و شواہد و شہادتوں سے عبارت ہے، دشنام طرازی اور کردارکشی کا رویہ تو جمہوری عمل کے لیے زہر قاتل ہوگا اور جب ملکی کرپشن اور شفافیت سے محروم ریاستی سسٹم کی تطہیر اور ملکی دولت کو بیرون ملک لے جانے کے الزامات کو سچ ثابت کرنے کی تاریخی جستجو میں عدالت عظمیٰ مصروف ہے تو مخالفین سے سخت لب و لہجہ میں مخاطب ہونے کی ضرورت نہ تھی، ابھی پاناما کا فیصلہ ہونا ہے، جذبات سے کام لینے کے بجائے ہوش و خرد اور دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو، اس وقت ملک دو انتہاؤں کے بیچ کھڑا ہے، ایک طرف پاناما کیس ہے اور دوسری طرف حکومت اور تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا ردعمل اور مشتعل بیانیہ ہے۔

عدلیہ کا یہ انتباہ کہ جو کچھ سڑکوں پر ہونا تھا ہوچکا اسی سیاسی غضبناکی اور جوش جنوں کو قابو میں رکھنے کی طرف ایک استعاراتی بندش تھی، عدلیہ عوامی آرزوؤں کی امین و آئینہ دار ہوتی ہے، اگر دیکھا جائے تو جمہوری ادارے اور ان کی کارکردگی کا شفاف دامن مزید پھیلاؤ چاہتا ہے۔انفرااسٹرکچر ملکی ضرورت ہے، ترقی دشمن رویے کی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں مگر صاحبان اقتدار بھی اشرافیائی ذہنیت اور مفاداتی سیاسی کھیل سے ہاتھ کھینچ لیں تو بہتر ہے تاکہ عوام کو مختلف النوع ریلیفس مل سکیں ۔

اس لیے ملکی ترقی کے لیے جمہوری اسپرٹ جس رواداری ، قوت برداشت، اختلاف رائے اور آزادی اظہار کی نفاست اور لوازمات سے جڑی ہوئی ہے اسے روند ڈالنے کی روش مناسب نہیں اور جو سیاسی و جمہوری قوتیں بلا سبب زور آزمائی میں مصروف ہیں یا انتخابی وارم اپ میں مصروف ہیں، وہ ملک میں کرپشن سے پاک طرز حکمرانی کی جانب عدلیہ کی مدد کریں، غیر معمولی سیاسی بالغ نظری درکار ہے، عمومی منظر نامہ بلاشبہ انتخابی جلسوں، کارنر میٹنگز اور مناظرے کا ہے، پوائنٹ اسکورنگ سے آگے کی سوچ ناگزیر ہے۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو ترقی کی سوجھ بوجھ نہیں وہ ملک میں ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ کسی کو نیا پاکستان دیکھنا ہے تو وہ ملتان آکر دیکھے ، بلوچستان میں سڑکوں کا جال بن رہا ہے، گوادر کی بندر گاہ بن رہی ہے ، اس سال 10 ہزار میگا واٹ بجلی ہمارے سسٹم میں شامل ہوگی، 2013 ء میں لوڈ شیڈنگ کا کیا حال تھا لیکن آج اس میں کمی ہوئی ہے اور اگلے سال لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، لاہور سے ملتان اور سکھر،حیدرآباد موٹروے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور اس کا ٹریک 6,6 لائن کا ہوگا۔ میٹروبس کا کرایہ ملتان میں بھی 20 روپے ہی ہوگا، بہت جلد نیشنل ہیلتھ اسکیم ملتان میں بھی آنے والی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ملتان میں میٹروبس پروجیکٹ کا افتتاح جنوبی پنجاب کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن کی کرپشن ثابت ہوچکی وہی پاناما کی گرد اڑا رہے ہیں۔ تاہم صائب مشورہ یہ ہے کہ گرد کسی طرف سے اڑ رہی ہو اس کا رکنا ملکی مفاد میں ہے، سوچئے پاناما کیس سے ماورا عالمی صورتحال کی ایک خاموش آندھی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی طرف آرہی ہے، حکمران ریت سے سر نکال کر ان خطرات سے نمٹنے کی بھی تدبیر کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔

ملتان میں میٹرو بس سروس ایک صائب اقدام ہے اسی طرح ملتان کے تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کے مسائل بھی حل ہونے چاہئیں، جنوبی پنجاب مسائل میں گھرا ہوا ہے، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، راجن پور وغیرہ کو درپیش انتظامی مسائل بے پناہ ہیں، وہاں لوگوں کو تقرریوں اور تبادلوں کے احکامات کے حوالہ سے لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے، اس فرسودہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے، عوامی ٹرانسپورٹ یہاں بھی محتاج توجہ ہے، میٹرو بس سروس در حقیقت ملک گیر ہونی چاہیے، سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام بھی اس جدید سہولت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ٹرانسپورت سہولتوں پر اعتراض بے جا ہے ، آمدورفت کی جدید ترین سہولتوں سے ملکی یک جہتی میں اضافہ ہوگا اور اقتصادی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔