ایک آزاد زندگی

لاہور کی میدانی سردی میرے پہاڑی گاؤں کی سردی کے مقابلے میں تھی اور میرے لیے پہاڑ اور میدان میں کوئی فرق نہیں تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

میں لاہور کی جس سردی سے بھاگ کر اپنے سرد پہاڑی گاؤں گیا تھا کہ وہاں لکڑی کی آگ سینکوں گا اور دہکتے کوئلوں کے شعلوں سے لطف اٹھاؤں گا لیکن میری یہ کوشش اور خواہش زندگی میں پہلی بار ناکام ہوئی اور میں جس سردی سے بھاگ کر گاؤں گیا تھا اسی سردی میں لاہور لوٹ آیا جہاں ان دنوں محکمہ موسمیات کا راج تھا اور سردی میں اگر کوئی کمی تھی تو اس کی وجہ محض میری بچی کھچی قوت برداشت تھی ورنہ موسم نے کوئی رعایت نہیں کی تھی۔

لاہور کی میدانی سردی میرے پہاڑی گاؤں کی سردی کے مقابلے میں تھی اور میرے لیے پہاڑ اور میدان میں کوئی فرق نہیں تھا اور یوں بھی کوئی فرق نہیں تھا کہ پہاڑوں میں خشک لکڑی کی جو پرانی سہولت اور موج تھی وہ اب جدید ضرورتوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ لکڑیاں کاٹ کر جلائی جا رہی تھیں اور جو بچ گئی تھیں وہ شتربان شہروں میں فروخت کر رہے تھے اور کرتے چلے جا رہے تھے۔

لکڑی کے دشمن اونٹ والوں کو روکنے کے لیے گاؤں والوں نے جو پنچایت بنا رکھی تھی وہ اس حال کو پہنچ رہی تھی جس حال کو ہماری بڑی اسمبلیوں کی قراردادیں پہنچا کرتی ہیں۔ یہ اونٹ والے بھی گاؤں کے تھے اور ان کی روزی روز گار بھی صرف یہی تھا کہ دور دور تک پھیلے ہوئے گھنے جنگلوں میں خشک لکڑی تلاش کریں اسے کاٹیں اور اس کے گڈے بنا کر اونٹوں پر لاد کر شہروں میں جا کر بیچ دیں بلکہ معلوم یہ بھی کہ اب یہ لکڑی خود گاؤں میں بھی فروخت ہوتی ہے کہ گاؤں کے نوجوان یا تو کسی نوکری پر گاؤں سے باہر چلے گئے ہیں یا انھوں نے گاؤں میں کوئی آرام دہ کام ڈھونڈ لیا ہے۔


میں آپ کو گاؤں کی وہ پرمشقت زندگی دکھا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا جو صبح بکریوں کے ریوڑ کو جنگل لے جانے سے شروع ہوتی تھی اور سہ پہر کو گڈریوں کے سروں پر لکڑیوں کے گڈے دیکھ کر ختم ہوتی تھی۔ اگر یہ لکڑی خشک نہ ہوتی تو گھر والیاں ناراض ہوتیں کہ آگ کیسے جلائی جائے۔ کھانا لکڑی کی اسی آگ پر پکایا جاتا تھا اور لکڑیاں خشک نہ ہوتیں تو گھر کی خواتین کی لکڑی جلانے کی کوشش میں آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو میں نے ہر روز ہی دیکھے ہیں۔ جلتے دہکتے چولہے سے اٹھتا ہوا دھواں آنکھوں میں آنسو بھر دیتا تھا اور یہ آنسو چولہے کی آگ میں بہتے رہتے تھے جن سے چولہے کی آگ کو بچانے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑتی تھی۔

میری مرحومہ والدہ جب مجھے ملنے یعنی یہ دیکھنے کہ میں کس حال میں رہتا ہوں گاؤں سے لاہور آئیں تو انھوں نے جب دیا سلائی سے فوراً ہی چولہا جلتے دیکھا اور ٹوٹی کھول کر پانی کی تیز دھار دیکھی تو پریشان ہو گئیں اور اس مشینی زندگی سے گھبرا کر تقاضا کرنے لگیں کہ مجھے واپس گاؤں لے جاؤ۔ میں گاؤں میں ہی خوش رہتی ہوں جہاں میرے چولہے کا کام کرنے کے لیے پڑوسی عورتیں اور کام کرنے والیاں دن رات جمع رہتی ہیں اور پورے گاؤں کی ہر بات اور خبر سناتی ہیں چونکہ ہمارے گھر کی عورتیں کسی کے گھر نہیں جاتی تھیں اس لیے انھیں خبروں کی سخت ضرورت رہتی تھی جن کا ذریعہ ہی گاؤں والیاں تھیں۔ ان کے بغیر اور ان کی گپ شپ کے بغیر ان کے دن رات کیسے گزر سکتے تھے۔

چنانچہ ہمارے گھر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی پڑوسن بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے گھریلو گلے شکوے اور ضروریات ہماری گھر والیاں پوری کرتی تھیں۔ ساتھ ہی چھوٹی موٹی ضرورتیں بھی جو گاؤں کے دکان دار پوری نہیں کرتے تھے۔ دکاندار دکان چلاتا ہے تعلقات نہیں اور دکاندار سے تعلق کے لیے جیب میں رقم چاہیے جس پر دکاندار کی نظر ہوتی تھی کہ یہ خاتون جو اس وقت آئی ہے اس کے پاس سودا سلف لینے کا سرمایہ بھی ہے جو وہ مجھے دے کر چلی جائے گی۔

دیہات کی زندگی اس سرمائے سے چلتی ہے جو کھیتوں میں اگتا ہے۔ گھر کا تمام سودا سلف اور دوسری ضروریات اسی زرعی پیداوار سے پوری ہوتی ہیں جو ایک کاشتکار بڑی ہی محنت کے ساتھ کھیت میں اگاتا ہے اور پھر اس سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اگر گھر کا کوئی فرد کہیں ملازم ہے تو اس کی تنخواہ کچھ مدد کرتی ہے ورنہ گھر کا سارا خرچ اسی کھیت سے آتا ہے اور یہی کھیت کسی کاشتکار کی زندگی کا سہارا ہے اور ایک آزاد سہارا جو کسی کا ملازم نہیں اور کسی کی تنخواہ پر گزر بسر نہیں کرتا۔ کھیت میں کی گئی محنت اور اس کی فصل ایک کاشتکار کی زندگی اور اس کی آزادی ہے جو اسے کسی کا محتاج نہیں رکھتی۔ ایک آزاد زندگی۔
Load Next Story