خشت اول
پہلا زاویہ یعنی بچہ ایک ایسے نظام تعلیم کی تجربہ گاہ ہے جو خود کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے
شیخ سعدی نے کہا تھا
خشت اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی اگر معمار پہلی یعنی بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو چاہے آسمان کی بلندی کو چھو لے دیوار ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی کبھی سیدھی نہیں ہو گی، یہ اصول یوں تو زندگی کے ہر شعبے پر صادق آتا ہے مگر تعلیم اور خصوصاً پرائمری تعلیم کے حوالے سے تو اس کی حیثیت اور اہمیت عالمی سچ (Universal Truth) جیسی ہے۔ بچوں کی ذہنی ساخت اور اس کی نشوونما پر تحقیق کرنے والے سب کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سات آٹھ برس کی عمر تک بچوں کے ذہنی رویے اور چیزوں کے بارے میں ان کے تصورات ایک ایسے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں جو زندگی بھر ان کے ساتھ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشرے ابتدائی تعلیم پر سب سے زیادہ زور اور توجہ دیتے ہیں، یہ تعلیم اپنی ہیئت میں تکون سے ملتی جتی ہے کہ اس کے ایک زاویے پر بچہ دوسرے پر اس کا نصاب تعلیم اور تیسرے پر استاد ہوتا ہے یعنی اگر یہ تین کونوں والی اینٹ سیدھی رکھ دی جائے تو اوپر کی عمارت خود بخود سیدھی' خوب صورت اور پائیدار ہوتی چلی جائے گی۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ موضوع میری اولین ترجیحات میں شامل ہے اور مجھے یہ پریشانی مسلسل گھیرے رکھتی ہے کہ وطن عزیز میں پرائمری تعلیم کا نہ تو کوئی باقاعدہ نظام ہے اور نہ سمت۔
اس تکون کا پہلا زاویہ یعنی بچہ ایک ایسے نظام تعلیم کی تجربہ گاہ ہے جو خود کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے، غریب کا بچہ اول تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتا اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس کی دوڑ کسی دینی مدرسے یا نام نہاد سرکاری اسکول تک محدود رہتی ہے۔ مدرسے کا استاد اسے کئی سو برس پیچھے کی دنیا میں لے جاتا ہے اور سرکاری اسکول کا استاد (چند فی صد کو چھوڑ کر) نہ صرف بغیر پڑھائے تنخواہ لیتا ہے بلکہ ان میں سے اکثر اس بنیادی صلاحیت سے ہی محروم ہوتے ہیں جو استاد بننے کے لیے لازمی ہے۔ چند روز قبل ایک ٹی وی سروے میں صوبہ سندھ کے چند پرائمری ٹیچرز کے انٹرویو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جن کی تعلیمی قابلیت کو قابلیت کہنے کے لیے شیر کا جگر چاہیے۔
معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرائے گئے وہ مزارعے ہیں جن کا سارا وقت اپنے بھرتی کرانے والے سائیں کے ڈیرے پر یا اس کی خدمت میں گزرتا ہے اور یہ سرے سے بچوں کو پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یہاں تک کہ ان میں سے کئی کو بالکل بنیادی الفاظ کے معانی اور ہجے تک نہیں آتے یعنی ان گھوسٹ اساتذہ کو خود کسی پرائمری اسکول میں داخلہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس طرح کے اسکول اور اساتذہ زیادہ تر ملک بھر کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں مگر اطلاعات کے مطابق اندرون سندھ میں صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
نیم متوسط طبقے کے بچے زیادہ تر گلی محلوں میں قائم نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن میں سے بیشتر کرائے کے مکانوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ یہاں کے بیشتر اساتذہ ارد گرد کے علاقے کے میٹرک یا ایف اے پاس لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں جن کو وقت پر اور پوری تنخواہ قسمت ہی سے ملتی ہے اپنی محدود قابلیت اور پڑھانے کی تربیت اور صلاحیت کی کمی کو یہ لوگ طرح طرح کی تقریبات اور ڈریس شوز سے پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے نیم خواندہ والدین کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے امتحانی نتائج مرتب کرتے ہیں.
جن میں سے تقریباً ہر بچے کے نمبر9% سے زیادہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ پانچ سو میں سے چار سو نوے پچانوے نمبر بھی ایک ساتھ کئی کئی طلبہ و طالبات کو دیے جاتے ہیں جب کہ ان میں سے بیشتر بچے سرکاری امتحانات میں تھرڈ ڈویژن تک میں پاس نہیں ہو پاتے۔ طلبہ کی تیسری قسم بالائی متوسط طبقے اورامیر خاندانوں کے بچوں پر مشتمل ہے جو بھاری فیسوں والے ایسے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کا نصاب تعلیم اور پڑھائی جانے والی کتابیں دونوں کہیں اور سے امپورٹ کیے جاتے ہیں یوں بچوں کی حد تک ہمارا نظام تعلیم چوں چوں کے مربے سے کسی طور کم نہیں۔
کم و بیش یہی صورت حال نصاب تعلیم کی ہے مختلف اسکولوں میں ایک ہی کلاس کے بچوں کو مختلف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اگرچہ تعلیم اور نصاب تعلیم کی ذمے داری مرکز کے بجائے صوبوں کو دے دی گئی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق سرکاری سطح پر اب بھی نصاب تعلیم کی حد تک وہی افراتفری ہے جو اس تبدیلی سے پہلے ہوا کرتی تھی میں خود چار برس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈائریکٹر کری کلم رہا ہوں اور یہ بات ایک تکلیف دہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری پرائمری' مڈل' ہائی اور سیکنڈری نصاب سازی کے دوران نہ تو کسی تدریجی ارتقا کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی یہ سب لوگ کسی مشترکہ سائبان تلے اکٹھے ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو تکرار کے ساتھ ساتھ اکثر ایسے اسباق سے واسطہ پڑتا ہے جنھیں اس سے کسی اوپر یا نیچے کی جماعت میں ہونا چاہیے تھا۔ اس سب پر مستزاد پرائمری کلاسوں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دینا ہے جب کہ استاد کی قابلیت اور کمٹ منٹ اور کتاب کی ترتیب اور افادیت ایسی ہے کہ بچہ نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔
سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بھانت بھانت کے تعلیمی اداروں کو کسی ایک سسٹم میں ضم کیا جائے۔ قابل اور بہتر اساتذہ کو معاشی آسودگی کے ساتھ ساتھ مسلسل تربیتی کورسز کرائے جائیں اور ان کی ترقی کو ان کے ساتھ مربوط کیا جائے اور پورے ملک کے ہر اسکول میں ایک طے شدہ نظام کے مطابق ایک ہی طرح کی کتاب پڑھائی جائے اور اس کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
ممکن ہو تو مڈل ورنہ پرائمری تک ذریعہ تعلیم اردو ہو جب کہ ہر علاقے میں بولی جانے والی مختلف پاکستانی زبانوں کو بھی حسب ضرورت کام میں لایا جائے، انگریزی کو ایک زبان کے طور پر بے شک سکھایا اور پڑھایا جائے مگر کم از کم میٹرک تک اسے ذریعہ تعلیم کی حیثیت نہ دی جائے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اسکول کی حد تک کسی غیر ملکی نصاب یا طریقہ امتحان کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اس بات کو اس کلیشے نما مگر حقائق پر مبنی مصرعے پر ختم کرنا پڑے گا کہ
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
خشت اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی اگر معمار پہلی یعنی بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو چاہے آسمان کی بلندی کو چھو لے دیوار ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی کبھی سیدھی نہیں ہو گی، یہ اصول یوں تو زندگی کے ہر شعبے پر صادق آتا ہے مگر تعلیم اور خصوصاً پرائمری تعلیم کے حوالے سے تو اس کی حیثیت اور اہمیت عالمی سچ (Universal Truth) جیسی ہے۔ بچوں کی ذہنی ساخت اور اس کی نشوونما پر تحقیق کرنے والے سب کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سات آٹھ برس کی عمر تک بچوں کے ذہنی رویے اور چیزوں کے بارے میں ان کے تصورات ایک ایسے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں جو زندگی بھر ان کے ساتھ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشرے ابتدائی تعلیم پر سب سے زیادہ زور اور توجہ دیتے ہیں، یہ تعلیم اپنی ہیئت میں تکون سے ملتی جتی ہے کہ اس کے ایک زاویے پر بچہ دوسرے پر اس کا نصاب تعلیم اور تیسرے پر استاد ہوتا ہے یعنی اگر یہ تین کونوں والی اینٹ سیدھی رکھ دی جائے تو اوپر کی عمارت خود بخود سیدھی' خوب صورت اور پائیدار ہوتی چلی جائے گی۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ موضوع میری اولین ترجیحات میں شامل ہے اور مجھے یہ پریشانی مسلسل گھیرے رکھتی ہے کہ وطن عزیز میں پرائمری تعلیم کا نہ تو کوئی باقاعدہ نظام ہے اور نہ سمت۔
اس تکون کا پہلا زاویہ یعنی بچہ ایک ایسے نظام تعلیم کی تجربہ گاہ ہے جو خود کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے، غریب کا بچہ اول تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتا اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس کی دوڑ کسی دینی مدرسے یا نام نہاد سرکاری اسکول تک محدود رہتی ہے۔ مدرسے کا استاد اسے کئی سو برس پیچھے کی دنیا میں لے جاتا ہے اور سرکاری اسکول کا استاد (چند فی صد کو چھوڑ کر) نہ صرف بغیر پڑھائے تنخواہ لیتا ہے بلکہ ان میں سے اکثر اس بنیادی صلاحیت سے ہی محروم ہوتے ہیں جو استاد بننے کے لیے لازمی ہے۔ چند روز قبل ایک ٹی وی سروے میں صوبہ سندھ کے چند پرائمری ٹیچرز کے انٹرویو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جن کی تعلیمی قابلیت کو قابلیت کہنے کے لیے شیر کا جگر چاہیے۔
معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرائے گئے وہ مزارعے ہیں جن کا سارا وقت اپنے بھرتی کرانے والے سائیں کے ڈیرے پر یا اس کی خدمت میں گزرتا ہے اور یہ سرے سے بچوں کو پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یہاں تک کہ ان میں سے کئی کو بالکل بنیادی الفاظ کے معانی اور ہجے تک نہیں آتے یعنی ان گھوسٹ اساتذہ کو خود کسی پرائمری اسکول میں داخلہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس طرح کے اسکول اور اساتذہ زیادہ تر ملک بھر کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں مگر اطلاعات کے مطابق اندرون سندھ میں صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
نیم متوسط طبقے کے بچے زیادہ تر گلی محلوں میں قائم نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن میں سے بیشتر کرائے کے مکانوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ یہاں کے بیشتر اساتذہ ارد گرد کے علاقے کے میٹرک یا ایف اے پاس لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں جن کو وقت پر اور پوری تنخواہ قسمت ہی سے ملتی ہے اپنی محدود قابلیت اور پڑھانے کی تربیت اور صلاحیت کی کمی کو یہ لوگ طرح طرح کی تقریبات اور ڈریس شوز سے پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے نیم خواندہ والدین کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے امتحانی نتائج مرتب کرتے ہیں.
جن میں سے تقریباً ہر بچے کے نمبر9% سے زیادہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ پانچ سو میں سے چار سو نوے پچانوے نمبر بھی ایک ساتھ کئی کئی طلبہ و طالبات کو دیے جاتے ہیں جب کہ ان میں سے بیشتر بچے سرکاری امتحانات میں تھرڈ ڈویژن تک میں پاس نہیں ہو پاتے۔ طلبہ کی تیسری قسم بالائی متوسط طبقے اورامیر خاندانوں کے بچوں پر مشتمل ہے جو بھاری فیسوں والے ایسے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کا نصاب تعلیم اور پڑھائی جانے والی کتابیں دونوں کہیں اور سے امپورٹ کیے جاتے ہیں یوں بچوں کی حد تک ہمارا نظام تعلیم چوں چوں کے مربے سے کسی طور کم نہیں۔
کم و بیش یہی صورت حال نصاب تعلیم کی ہے مختلف اسکولوں میں ایک ہی کلاس کے بچوں کو مختلف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اگرچہ تعلیم اور نصاب تعلیم کی ذمے داری مرکز کے بجائے صوبوں کو دے دی گئی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق سرکاری سطح پر اب بھی نصاب تعلیم کی حد تک وہی افراتفری ہے جو اس تبدیلی سے پہلے ہوا کرتی تھی میں خود چار برس پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈائریکٹر کری کلم رہا ہوں اور یہ بات ایک تکلیف دہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری پرائمری' مڈل' ہائی اور سیکنڈری نصاب سازی کے دوران نہ تو کسی تدریجی ارتقا کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی یہ سب لوگ کسی مشترکہ سائبان تلے اکٹھے ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو تکرار کے ساتھ ساتھ اکثر ایسے اسباق سے واسطہ پڑتا ہے جنھیں اس سے کسی اوپر یا نیچے کی جماعت میں ہونا چاہیے تھا۔ اس سب پر مستزاد پرائمری کلاسوں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دینا ہے جب کہ استاد کی قابلیت اور کمٹ منٹ اور کتاب کی ترتیب اور افادیت ایسی ہے کہ بچہ نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔
سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بھانت بھانت کے تعلیمی اداروں کو کسی ایک سسٹم میں ضم کیا جائے۔ قابل اور بہتر اساتذہ کو معاشی آسودگی کے ساتھ ساتھ مسلسل تربیتی کورسز کرائے جائیں اور ان کی ترقی کو ان کے ساتھ مربوط کیا جائے اور پورے ملک کے ہر اسکول میں ایک طے شدہ نظام کے مطابق ایک ہی طرح کی کتاب پڑھائی جائے اور اس کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
ممکن ہو تو مڈل ورنہ پرائمری تک ذریعہ تعلیم اردو ہو جب کہ ہر علاقے میں بولی جانے والی مختلف پاکستانی زبانوں کو بھی حسب ضرورت کام میں لایا جائے، انگریزی کو ایک زبان کے طور پر بے شک سکھایا اور پڑھایا جائے مگر کم از کم میٹرک تک اسے ذریعہ تعلیم کی حیثیت نہ دی جائے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اسکول کی حد تک کسی غیر ملکی نصاب یا طریقہ امتحان کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اس بات کو اس کلیشے نما مگر حقائق پر مبنی مصرعے پر ختم کرنا پڑے گا کہ
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی