تفریق کے خانے میں بٹی سوچ
ورتوں کا مرد کے متعلق نظریہ تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے اگر وہ بیوی ہے تو
عورتوں کا مرد کے متعلق نظریہ تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے اگر وہ بیوی ہے تو۔ اسے مرد میں بہت ساری خامیاں نظرآتی ہیں۔ مرد، یکسانیت سے جلد اکتا جاتا ہے۔ اسے تنقید پسند نہیں ہے یا اپنی آزادی میں مداخلت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے جب کہ عورت، مرد کو بدلنا چاہتی ہے اپنے معیار کے مطابق۔ مرد نہ بدلنا چاہتا ہے نہ بدل سکتا ہے۔ البتہ عورت، مردکی سوچ کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔
مرد اورعورت کے بیچ ایک دوسرے کے لیے غلط فہمی کا فاصلہ موجود رہتا ہے۔ دونوں اگر ایک دوسرے کو زیادہ سمجھنے کی کوشش کیے بغیر اگر زندگی گزار دیں تو اچھی گزر سکتی ہے، مگر مسئلہ سمجھنے کی کوشش سے شروع ہوتا ہے۔ جب وہ ایک دوسرے کو پرکھنے لگتے ہیں۔ ایک مفکر نے عورت کو بے چین لہر سے تشبیہ دی ہے، جب کہ مرد کو ربڑ بینڈ سے جو دور جاکے پھر پلٹتا ہے۔ وہ محبت سے گریزاں ہے۔ کیونکہ اس کی آزادی کو عورت سے سلب ہونے کا خطرہ ہے۔
وہ مکمل احساس دینے سے گھبراتا ہے کہ کہیں عورت اس کی آزادی پر قابض ہی نہ ہو جائے۔ دونوں کے درمیان صنفی تفریق اورسوچ کا ٹکراؤ ملتا ہے۔ معاشرے، میڈیا یا ادب نے مرد کی جو تشریح کی ہے، وہ عورت کے ذہن پر حاوی ہوتی ہے۔ عورت مرد کی خامیوں کو نظراندازکرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ مرد، عورت کی ذہانت سے خائف رہتا ہے۔ اس کی پرکھ کی صلاحیت سے خوفزدہ۔ وہ زندگی گزارنے کا معیار، انفرادی طور پر وضع کرتا ہے۔ اسے معاشرے سے غرض نہیں ہوتی۔ مگر ماں، بہن سے زیادہ اسے مداخلت کا اندیشہ بیوی سے رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد مرد اپنی بیویوں سے جھوٹ بولتے ہیں۔ لہٰذا طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
2005ء سے 2008ء تک پچھتر ہزار طلاق کے کیسز کا اندراج کیا گیا، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں علیحدگی کے واقعات نے جنم لیا۔ بقول نفسیاتی ماہرین تعلیم یافتہ افراد میں طلاق کا تناسب زیادہ ہے۔ زیادہ تر مسائل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ مرد، عورت کو ملازمت چھوڑنے پر زور بھرتے ہیں انھیں گھر داری تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ شادی کیوں کرتے ہیں؟ دوسری جانب مردوں کا کہنا ہے کہ نوکری کرنے کی صورت، گھر اور بچے نظرانداز ہوتے ہیں۔یہ ایک تکراری موضوع ہے، جوگھروں کے ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے۔
ایک لحاظ سے عورت کی حساسیت اور مرد کی حاکمیت کے بیچ تصادم جاری رہتا ہے۔
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلے کا ہے۔ جن گھروں میں میاں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں، لہٰذا گھرکے اخراجات (اگر ان میں توازن ہے تو) بہتر طور پر پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ خوشحالی، مثبت رویوں کو جنم دیتی ہے۔ اچھے رویے، اطمینان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ معاشی بوجھ، انتشار کا باعث بنتا ہے۔گھر ایک اکائی ہے، اگر گھرکے افراد ذہنی طور پر متحد اور ایک دوسرے کے لیے سمجھ رکھتے ہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ اگر مرد باہر اپنے مشاغل یا ضروریات پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہو اورگھر میں فیاضی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو یہ بہت بڑا تضاد اور ناانصافی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو لوگ مستحق ہیں انھیں ہر طرح سے نوازا جائے جب کہ وہ مراعات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
معاشی مسائل بھی گھروں میں تکراری تنازعات میں بدل جاتے ہیں۔ سری لنکا میں مرد کا رویہ بہت فعال دیکھا۔ وہ نہ فقط گھروں کو دیکھتے ہیں بلکہ بچوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سات بجے کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ مرد ضرورتاً باہر نکلتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد ہر وقت باہر دکھائی دیتے ہیں۔ بازاروں میں بغیرکسی کام کے بھی ہر طرف لوگ موجود رہتے ہیں۔
لہٰذا مرد کا کردار، بچوں کے حوالے سے ہرگزفعال نہیں ہے۔ بچوں کی پڑھائی میں عدم دلچسپی ہو یا دیگر مسائل، ماں کو ہی ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت ان تمام مسائل کا ذمے دار والد ہے،کیونکہ مرد کنبے کا کفیل اور بڑا ہے۔ لہٰذا اس کی ذمے داری عورت کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ سربراہ کو سیراب کرنے کا ہنر نہ آتا ہو تو اس بے اطمینانی سے گھر جہنم بنتے ہیں۔ اسے احساس کی نگہبانی کا سلیقہ آتا ہو۔ چاہے بچے ہوں، بیوی ہو یا دیگر رشتے۔ سربراہ کو ترتیب وتوازن برقرار رکھنا ہے۔ سوچ اور برداشت کا توازن۔ انصاف سے چلنے کی عادت اپنا لینی چاہیے۔ سربراہ، منصف بھی ہوتا ہے۔
جدید دنیا کے بہت سے المیے ہیں۔ جدیدیت کنزیومر ازم کو فروغ دیتی ہے۔ خوشبوکا تصور، قوت خرید سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ رول ماڈل بھی بدل گئے ہیں۔ یہ ماورائی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو ہر طرح کی خامیوں سے مبرا ہیں۔ ایک ایسی حقیقت متعارف کرائی جاتی ہے جس کا حقیقتوں سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا جھوٹ یا بناوٹ کو حقیقت بنادیا جاتا ہے اورگمان زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
جدید رویے شک کو جنم دیتے ہیں۔ چاہے گھر ہوں یا ادارے۔ ہر طرف ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو کسی سے خوش نہیں ہیں۔اس کی وجہ انسانی رویوں اور خامیوں کو دھتکارنا ہے۔
جن معاشروں میں جنس کی جبلت کو پیچیدہ بنایا جاتا ہے وہاں مرد اورعورت کے درمیان رشتہ مشکوک ہو جاتا ہے اور صنفی امتیاز بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ گناہ کا خیال جنس سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ جس کے خلاف اخلاق کے نام پرکئی حد بندیاں قائم کردی جاتی ہیں۔ ہمارے بچے اور نوجوان ایسے ماحول میں رہتے ہیں، جہاں ان کی دسترس میں انٹرنیٹ و دیگر ذرایع ہوتے ہیں، مگر گھروں یا معاشرتی رویوں میں جنس کے موضوع پر بات چیت کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار ذہنوں میں کئی ابہام جنم دیتا ہے اور یہ دبی ہوئی خواہشات، ندامت یا کسی سزا کا ذہن میں احساس فرد کی ذہنی و جسمانی نفسیات کا تعین کرتا ہے۔ چونکہ معاشرہ مرد کو کھلی آزادی دیتا ہے۔ یہ اعلانیہ آزادی اس کی اخلاقی بے راہ روی کا سبب بنتی ہے۔ خواہشوں میں بٹا ہوا مرد کبھی وجود کے مرکز پر نہیں ملتا اور جو مرکز سے دور ہٹ جاتا ہے۔ وہ انتشار کو ہوا دینے کا مجاز ہے۔
ذہن کا یہ رخش بے عناں انسانی قدروں کو روندتا آگے نکل جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جدت کے نام پر بہت آگے جا رہا ہے۔ طرز زندگی تبدیل ہوچکا ہے اور ہم جدید دنیا سے مقابلے کی دوڑ میں ذہنی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے اپنے ذہن کو جدید انسانی رویوں و اخلاقی قدروں سے روشناس نہیں کروایا۔ جس نہج پر ترقی یافتہ ملک آج دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف ہم عورت کی آزادی کے دعوے کرتے ہیں، تو دوسری طرف اشتہاری دنیا میں اسے محض جنس کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر معاشرتی اقدار عورت کے ناپسندیدہ سمجھوتے (من مارنے) کے ستون پر ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ جب کہ ہر عورت کا خواب ذہنی آزادی ہوتا ہے۔ جسم کو قید کرنے کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس کا ذہن بھی اظہار کی پابندی کے حصار میں جکڑ لیا جاتا ہے۔
مرد اورعورت کے بیچ ایک دوسرے کے لیے غلط فہمی کا فاصلہ موجود رہتا ہے۔ دونوں اگر ایک دوسرے کو زیادہ سمجھنے کی کوشش کیے بغیر اگر زندگی گزار دیں تو اچھی گزر سکتی ہے، مگر مسئلہ سمجھنے کی کوشش سے شروع ہوتا ہے۔ جب وہ ایک دوسرے کو پرکھنے لگتے ہیں۔ ایک مفکر نے عورت کو بے چین لہر سے تشبیہ دی ہے، جب کہ مرد کو ربڑ بینڈ سے جو دور جاکے پھر پلٹتا ہے۔ وہ محبت سے گریزاں ہے۔ کیونکہ اس کی آزادی کو عورت سے سلب ہونے کا خطرہ ہے۔
وہ مکمل احساس دینے سے گھبراتا ہے کہ کہیں عورت اس کی آزادی پر قابض ہی نہ ہو جائے۔ دونوں کے درمیان صنفی تفریق اورسوچ کا ٹکراؤ ملتا ہے۔ معاشرے، میڈیا یا ادب نے مرد کی جو تشریح کی ہے، وہ عورت کے ذہن پر حاوی ہوتی ہے۔ عورت مرد کی خامیوں کو نظراندازکرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ مرد، عورت کی ذہانت سے خائف رہتا ہے۔ اس کی پرکھ کی صلاحیت سے خوفزدہ۔ وہ زندگی گزارنے کا معیار، انفرادی طور پر وضع کرتا ہے۔ اسے معاشرے سے غرض نہیں ہوتی۔ مگر ماں، بہن سے زیادہ اسے مداخلت کا اندیشہ بیوی سے رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد مرد اپنی بیویوں سے جھوٹ بولتے ہیں۔ لہٰذا طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
2005ء سے 2008ء تک پچھتر ہزار طلاق کے کیسز کا اندراج کیا گیا، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں علیحدگی کے واقعات نے جنم لیا۔ بقول نفسیاتی ماہرین تعلیم یافتہ افراد میں طلاق کا تناسب زیادہ ہے۔ زیادہ تر مسائل اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ مرد، عورت کو ملازمت چھوڑنے پر زور بھرتے ہیں انھیں گھر داری تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ شادی کیوں کرتے ہیں؟ دوسری جانب مردوں کا کہنا ہے کہ نوکری کرنے کی صورت، گھر اور بچے نظرانداز ہوتے ہیں۔یہ ایک تکراری موضوع ہے، جوگھروں کے ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے۔
ایک لحاظ سے عورت کی حساسیت اور مرد کی حاکمیت کے بیچ تصادم جاری رہتا ہے۔
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلے کا ہے۔ جن گھروں میں میاں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں، لہٰذا گھرکے اخراجات (اگر ان میں توازن ہے تو) بہتر طور پر پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ خوشحالی، مثبت رویوں کو جنم دیتی ہے۔ اچھے رویے، اطمینان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ معاشی بوجھ، انتشار کا باعث بنتا ہے۔گھر ایک اکائی ہے، اگر گھرکے افراد ذہنی طور پر متحد اور ایک دوسرے کے لیے سمجھ رکھتے ہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ اگر مرد باہر اپنے مشاغل یا ضروریات پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہو اورگھر میں فیاضی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو یہ بہت بڑا تضاد اور ناانصافی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو لوگ مستحق ہیں انھیں ہر طرح سے نوازا جائے جب کہ وہ مراعات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
معاشی مسائل بھی گھروں میں تکراری تنازعات میں بدل جاتے ہیں۔ سری لنکا میں مرد کا رویہ بہت فعال دیکھا۔ وہ نہ فقط گھروں کو دیکھتے ہیں بلکہ بچوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سات بجے کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ مرد ضرورتاً باہر نکلتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد ہر وقت باہر دکھائی دیتے ہیں۔ بازاروں میں بغیرکسی کام کے بھی ہر طرف لوگ موجود رہتے ہیں۔
لہٰذا مرد کا کردار، بچوں کے حوالے سے ہرگزفعال نہیں ہے۔ بچوں کی پڑھائی میں عدم دلچسپی ہو یا دیگر مسائل، ماں کو ہی ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت ان تمام مسائل کا ذمے دار والد ہے،کیونکہ مرد کنبے کا کفیل اور بڑا ہے۔ لہٰذا اس کی ذمے داری عورت کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ سربراہ کو سیراب کرنے کا ہنر نہ آتا ہو تو اس بے اطمینانی سے گھر جہنم بنتے ہیں۔ اسے احساس کی نگہبانی کا سلیقہ آتا ہو۔ چاہے بچے ہوں، بیوی ہو یا دیگر رشتے۔ سربراہ کو ترتیب وتوازن برقرار رکھنا ہے۔ سوچ اور برداشت کا توازن۔ انصاف سے چلنے کی عادت اپنا لینی چاہیے۔ سربراہ، منصف بھی ہوتا ہے۔
جدید دنیا کے بہت سے المیے ہیں۔ جدیدیت کنزیومر ازم کو فروغ دیتی ہے۔ خوشبوکا تصور، قوت خرید سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ رول ماڈل بھی بدل گئے ہیں۔ یہ ماورائی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو ہر طرح کی خامیوں سے مبرا ہیں۔ ایک ایسی حقیقت متعارف کرائی جاتی ہے جس کا حقیقتوں سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا جھوٹ یا بناوٹ کو حقیقت بنادیا جاتا ہے اورگمان زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
جدید رویے شک کو جنم دیتے ہیں۔ چاہے گھر ہوں یا ادارے۔ ہر طرف ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو کسی سے خوش نہیں ہیں۔اس کی وجہ انسانی رویوں اور خامیوں کو دھتکارنا ہے۔
جن معاشروں میں جنس کی جبلت کو پیچیدہ بنایا جاتا ہے وہاں مرد اورعورت کے درمیان رشتہ مشکوک ہو جاتا ہے اور صنفی امتیاز بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ گناہ کا خیال جنس سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ جس کے خلاف اخلاق کے نام پرکئی حد بندیاں قائم کردی جاتی ہیں۔ ہمارے بچے اور نوجوان ایسے ماحول میں رہتے ہیں، جہاں ان کی دسترس میں انٹرنیٹ و دیگر ذرایع ہوتے ہیں، مگر گھروں یا معاشرتی رویوں میں جنس کے موضوع پر بات چیت کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار ذہنوں میں کئی ابہام جنم دیتا ہے اور یہ دبی ہوئی خواہشات، ندامت یا کسی سزا کا ذہن میں احساس فرد کی ذہنی و جسمانی نفسیات کا تعین کرتا ہے۔ چونکہ معاشرہ مرد کو کھلی آزادی دیتا ہے۔ یہ اعلانیہ آزادی اس کی اخلاقی بے راہ روی کا سبب بنتی ہے۔ خواہشوں میں بٹا ہوا مرد کبھی وجود کے مرکز پر نہیں ملتا اور جو مرکز سے دور ہٹ جاتا ہے۔ وہ انتشار کو ہوا دینے کا مجاز ہے۔
ذہن کا یہ رخش بے عناں انسانی قدروں کو روندتا آگے نکل جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جدت کے نام پر بہت آگے جا رہا ہے۔ طرز زندگی تبدیل ہوچکا ہے اور ہم جدید دنیا سے مقابلے کی دوڑ میں ذہنی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے اپنے ذہن کو جدید انسانی رویوں و اخلاقی قدروں سے روشناس نہیں کروایا۔ جس نہج پر ترقی یافتہ ملک آج دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف ہم عورت کی آزادی کے دعوے کرتے ہیں، تو دوسری طرف اشتہاری دنیا میں اسے محض جنس کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر معاشرتی اقدار عورت کے ناپسندیدہ سمجھوتے (من مارنے) کے ستون پر ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ جب کہ ہر عورت کا خواب ذہنی آزادی ہوتا ہے۔ جسم کو قید کرنے کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس کا ذہن بھی اظہار کی پابندی کے حصار میں جکڑ لیا جاتا ہے۔