مائیکل اینجلو ایڈم

مائیکل اینجلو نے جب ’’ایڈم‘‘کے نام سے جو بْت تراشا تھا، اس کے اندر بھرپور زندگی تھی

Jvqazi@gmail.com

کچھ اس طرح سے میرے کانوں تک پہنچی یہ بات ہے کہ مائیکل اینجلو نے جب ''ایڈم''کے نام سے جو بْت تراشا تھا، اس کے اندر بھرپور زندگی تھی، مگر وہ بولنے سے قاصر تھا۔ کہتے ہیں کہ مائیکل اینجلو چیخ کر ایڈم کو کہنے لگا کہ بولو، مگر جب وہ نہ بولا تو مائیکل اینجلو نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے اس پر وار کر دیا جس سے اس کا ایک بازو ٹوٹ گیا۔ مائیکل اینجلو خدا نہیں تھا کہ اس کے بت بول پڑیں، جاگ پڑیں، ہنس پڑیں، رو پڑیں۔ مائیکل اینجلو بت تراش تھا۔ اس کا ایڈم جیتا جاگتا تو لگتا تھا لیکن انسان نہ تھا، آدمی نہ تھا، مٹی کا مجسمہ ہی تو تھا۔ خدا نے انسان بولنے کے لیے بنائے تھے، سچ بولنے کے لیے اور سچ کی بھی جزا وسزا ہوتی ہے۔ سزا اس کو اس کے دل کے دھڑکنے کے سمے ملتی ہے وہ جو بولتا ہے، اور جزا اس کو اس کے مرنے کے بعد ملتی ہے۔ جس طرح جگجیت اپنی آواز میں گائی ہوئی غزل میں کہتا ہے۔

تم نے سولی پہ لٹکتے ہوئے جسے دیکھا ہوگا
وقت آئے گا وہی شخص مسیحا ہوگا

اب دیکھیے نا یسوع مسیح نے زندگی میں کیا پایا اور زندگی کے بعد کیا۔ سقراط کا بھی تو یہی ماجرا تھا، وہ جس زماں ومکاںسے بڑا تھا، جینے اور مرنے سے بڑا ہونے اور نہ ہونے سے بھی بڑا کہ جب یونان کے شرفاء نے سیکڑوں لوگوں پر مبنی اپنی ''جیوری'' کی اکثریتی رائے پر عدالت کے فیصلے نے یہ حکم صادر کردیا کہ سقراط اپنے افکار سے یونان کے نوجوانوں کو کرپٹ بنا رہا ہے۔ سقراط کے لیے زہر کا پیالا پینا، اس پیالے کے پینے کے بعد مرنا اس کی سزا تھی۔ وہ سمجھے سقراط گڑگڑائے گا، جھک جائے گا پاؤں کے بل، ایڑیاں رگڑے گا اور معافیاں مانگے گا۔ اس کو جس جیل کے کٹہرے میں بھی رکھا تھا، اس میں بھی بڑی گنجائش تھی بھاگنے کی۔ وہ سمجھے کہ بوڑھا سقراط اپنے ان کرپٹ شاگردوں کی مدد سے جیل کی دیواریں پھلانگ جائے گا اور یوں شرفاؤں کی عزت رہ جائے گی ''دیکھا کہ تمھارا سقراط کتنا ڈرپوک نکلا۔''

جیل میں سزا کی رات سے پہلے، شام کا سورج ڈھلنے کے بعد اس کا شاگرد ''کریٹو'' اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے کہ ''بھاگ چلو سقراط'' میں نے تمھارے لیے سارے انتظامات کردیے ہیں فرار ہونے کے لیے''۔ مگر سقراط کی نظر بہت دور تک جاتی تھی، جہاں اس کے پیارے شاگرد ''کریٹو'' کی نظر نہیں جاتی تھی۔ سقراط اپنے پیارے شاگرد ''کریٹو'' کو کہنے لگا کہ میں یوں کر تو سکتا ہوں مگر یونانیوں کے تھانوں کا کیا ہوگا، ریاست کے ستونوںکا کیا ہوگا، مجھے زندگی تو مل جائے گی مگر ریاست کے ستون ریزہ ریزہ و بھسم ہوکر گر جائیں گے۔

کریٹو قانون بڑا ہے اور میں چھوٹا، اس کے تابع ہوں، قانوں کو روا رہنے دو اور مجھے مرنے دو اور تم بھاگ جاؤ''۔ یہ وہ ''بول'' تھے جس نے بنیاد ڈالی تھی ''قانون کی بالادستی'' کے استعارے کی۔ مگر سچ بولنے کے بعد اگر فرد ڈر کے مارے سچ بول کے گڑگڑا اٹھے، ایڑیاں رگڑے، گھٹنوں کے بل گر جائے، معافیاں مانگے تو بھی سچ کو کوئی خراش نہیں آتی۔

سولہویں صدی میں ''گلیلیو'' نے اپنی ایجاد کی ہوئی دوربین کی مدد سے جو سچ پایا، جس نے مروج مسیحائی مذہب کے اعتقاد کو زبردست ٹھیس پہنچائی، وہ سچ یہ تھا کہ دھرتی کائنات کا محور نہیں۔ اس کی اسی بات پر کلیسا برہم ہوگئی۔ گلیلیو کو یا اب معافی مانگی تھی یا اب سزا کے تابع ہونا تھا۔ گلیلیو کو پتہ تھا کہ اس کے بولے ہوئے سچ سے مکرنے سے سچ کو کچھ نہیں ہوگا، اس کے بدلے اس کو زندگی مل جائے گی، چاہے وہ ذلتوں سے بھری ہوئی کیوں نہ ہو اور اس نے معافی مانگی اور اپنے سچ سے مکر گیا اور یوں جان کی امان پائی، مگر اپنے شاگرد ''آندرے'' کی نظروں میں گر گیا۔ آندرے اس سے الوداع کہہ کر اس کے کہے سچ کو اپنی جھولی میں لے کر آگے نکل گیا اور گلیلیو پیچھے رہ گیا۔


ہمارے آئین کے آرٹیکل 19 میں مہذب دنیا میں مروج ''عمرانی معاہدے'' کے اس اصول کو محفوظ کیا کہ فرد کو بولنے کا حق حاصل ہے، مگر کہاں ہے یہ حق؟ کہاں ہیں عدالتیں؟ کہاں ہیں اس آئین کے رکھوالے؟ جو افراد کے بولنے کے حق کو یقینی بنا سکیں، محکم کر سکیں، کامل بنا سکیں۔ بولنے اور تہمت لگانے میں دن اور رات کا فرق ہے۔

تہمتوں کی اس خرید وفروخت میں اب تو عدالت ریاست سے لے کر اپنی جیب میں ڈال دی ہے، جِسے چاہو غدارکہہ دو، کافرکہہ دو، جو چاہے، جب چاہے اس صادر کیے ہوئے فیصلے پر سزا وارد کردے۔ کتنے چھوٹے ہیں ہم، اپنی ذات، اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی بیچ سکتے ہیں، زہر سے لے کر انسانی گردوں تک، آلودہ پانی سے لوگ مررہے ہیں، جعلی دواؤں سے وہ صحت نہیں پا سکتے اور کچھ ٹاک شوز کے اینکر ہیں جو ''بول'' کے نام پر نفرتیں، تہمتیں، فتویٰ صادر کر رہے ہیں۔ خود ہی جج، خود ہی وکیل، خود ہی عدالت، خود ہی مفتی، خود ہی عالم اور خود ہی عامل بن رہے ہیں۔ وہ مسخرے بھی ہیں، ہنساتے بھی ہیں، روتے بھی ہیں اور ناچتے بھی ہیں۔ وہ مقبول ہونے کے لیے کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا نا کچھ بھی۔ اور دوسری طرف ریاست اندھی و بہری، خاموش، جیسے اسے کچھ بھی خبر نہیں۔

سچ کیا ہے؟ وہی سقراط کی طرح ہو یا گلیلیو کی طرح، فرد سے بڑا ہے، وہ ڈر سے بڑا ہے۔ مائیکل اینجلو کے ''ایڈم'' میں تو جان نہیں تھی، پر خدا کے بندے میں تو جان ہے، اسے بولنا ہے، چاہے پاکستان کا آرٹیکل 19 اسے بولنے کا حق دیتا ہے یا آرٹیکل 9 جو اسے بولنے جینے کا حق دیتا ہے۔ اس کا تحفظ یقینی بناسکے یا نہ بنا سکے۔ ''آندرے'' ہو یا ''کریٹو'' زندگی میں سزا ہو یا زندگی کے بعد جزا ہو، تہمت لگانے والے بہت چھوٹے لوگ ہیں۔ شہرت پانے کے نشے میں نفرتیں بیچنے والوں کا حشر بھی اسی طرح کا ہوگا جنھوں نے یسوع مسیح کو صلیب پر لٹکایا، سقراط کو زہر کا پیالا پلایا تھا۔ سقراط، یسوع مسیح اب بھی زندہ ہیں، مگر ان کے مارنے والوں کا نام و نشان نہیں۔

دل سے پیہم یہ خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہرگھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہے وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے گر توکیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
(فیضؔ)
Load Next Story