افسوس کہ میں بھی چور آپ بھی چور

صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر اتنا واویلا نہ مچائیں بلکہ خود میں چھپی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

بدقسمتی یہ کہ ہم سب کی فطرت میں کرپشن شامل ہوچکی ہے۔ جیسے ہم اخلاقی طور پر جھوٹ جیسی بیماری کا شکار ہیں بالکل اِسی طرح کرپشن بھی ہماری قومی بیماری بن چکی ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
آج کل حالیہ حکومت کے پانامہ کرپشن کیس کے چرچے ہر جگہ گونج رہے ہیں۔ آئے روز قوم کو اِس کیس کے حل ہونے کا بے تابی سے انتظار رہتا ہے۔ کچھ وزیراعظم صاحب کو اقتدار کی کرسی سے اُترتا دیکھنا چاہتے ہیں تو کچھ کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومتِ وقت پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو رد کرکے نیچا دکھانے کا شوق ہے۔ تعجب اِس بات پر نہیں کہ حالیہ حکومت کرپٹ ہے اور اُس پر کیس چل نکلا ہے بلکہ تعجب تو اِس بات پر ہے کہ قوم اتنی تجسس کا شکار کیوں ہے؟ حالانکہ 68 سالہ ملکی تاریخ میں کوئی ایک ایسی حکومت نہیں گزری جو کرپٹ نہ ہو۔

اب یا تو ہم پہلے کرپشن کو کرپشن سمجھتے نہیں تھے یا اگر سمجھتے تھے تو ضمیر اُس وقت جاگا نہیں تھا، یا پھر کرپشن کو سمجھنے کے حوالے سے ہماری صلاحیت کچھ کم ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو آئیے تھوڑا ذرا لفظ ''کرپشن'' کے مطلب پر غور کرتے ہیں کہ آخر یہ کرپشن ہوتی کیا ہے؟

کرپشن اکثر اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے، جو اتھارٹی کی پوزیشن میں ایک شخص پر عائد ذمہ داریوں کو بے ایمانی اور غیر اخلاقی صورت میں سر انجام دینے کا نام ہے۔ کرپشن صرف پیسوں یا رشوت سے نہیں ہوتی بلکہ خیانت، بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ و فریب، چوری بھی کرپشن کی ایک شکل ہے۔ اِس صورت میں اگر اپنے اِرد گرد معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پانامہ کیس کے علاوہ بھی قومی سطح پر بے شمار کرپشن مختلف شکلوں میں آئے دن رونما ہوتی نظر آئے گی۔

حالیہ کچھ خبروں میں ملاوٹ شُدہ دودھ کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا میں کافی خبریں سننے کو ملتی رہیں ہیں۔ اِن خبروں کے مطابق دودھ کی ٹیسٹ رپورٹس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ شہری علاقوں میں کہیں دودھ اپنی خالص حالت میں دستیاب نہیں۔ چاہے دودھ گوالے سے لیا جائے یا ڈبے کی پیکنگ میں بند، دونوں صورتوں میں ملاوٹ کرکے قوم کو زہر پلایا جارہا ہے۔ گوالا جن کا تعلق عموماً نیچلے طبقے سے ہے اور ٹیٹرا پیک دودھ تیار کرنے والی کمپنیاں جن کے مالکان اشرافیہ طبقے سے ہیں، دونوں ہی جانے کتنے عرصے سے دودھ کے نام پر پوری قوم کے ساتھ کرپشن کررہے ہیں۔

اسی طرح سبزی، پھلوں اور کھانوں کی اشیاء کا حال یہ ہے کہ کس طرح ادرک پر چمک پالش لگائی جاتی ہے اور پھر تیزاب میں کئی دن بِھگو کر اِسے پھولنے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔ کالی مرچوں کی جگہ اونٹوں کو کِھلایا جانے والا دانہ خطرناک رنگوں اور زہریلے مواد کے ساتھ بیچا جاتا ہے، چیکو پر رنگ چڑھایا جاتا ہے، سیب اور کھجور کو پالش سے چمکایا جاتا ہے اور خربوزوں میں شکرین کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔

اسی طرح جعلی ادویات، گدھے کے گوشت کی فروخت، مشروبات میں زہریلے کیمیکلز کی ملاوٹ عام بات ہے، اور سب سے حیران کُن حالیہ خبر میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ کی فروخت شامل ہے۔ یہ تو ابھی عام کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق کرپشن کا حال ہے جو ہماری روز مرہ کی خوراک و ادویات کی صورت میں ہمارے اندر جارہی ہے۔

تعلیمی، طبی، کاروباری، سرکاری یا نیم سرکاری ادارے ہوں ہر سطح پر اِس طرح کی کرپشن موجود ہے۔ ہمارا ہر ادارہ اور لوگ کرپٹ ہوچکے ہیں۔ پی آئی اے، واپڈا، پی ٹی سی ایل، ریلوے، پاکستان پوسٹ، اسٹیل مل، پاکستان پولیس، پٹواری، تحصیل دار وغیرہ سب جگہ کرپٹ عناصر موجود ہیں اور رشوت دیئے بِناء جائز کام بھی نہیں ہوسکتے۔ ہمارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ جس کو 5 روپے کی کرپشن کا موقع ملے تو وہ بھی اِس چانس کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دے۔


اداروں کو تو چھوڑ دیں، وہ تو ہم دن رات سنتے ہی رہتے ہیں، ایک عام آدمی کا تجزیہ کرلیں۔ یہ سب کام کسی بیرونی سازش کے تحت نہیں ہورہے اور نہ ہی اُن کو کرنے والی کوئی اور مخلوق ہے، بلکہ ہم خود اور ہم میں موجود ہماری ہی طرح کے عام افراد دن رات اِن دھندوں کا حصہ ہیں خواہ اُن کا تعلق زیریں، متوسط یا اشرافیہ طبقہ ہی سے کیوں نہ ہوں، ہر کوئی اِس میں شامل ہے۔

اِس سے ایک بات یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ اِس میں مفلسی اور تنگدستی کو کرپشن کی وجہ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اِس بیماری کا سب میں بیک وقت موجود ہونا اِس رویے کی عکاسی کررہا ہے کہ بدقسمتی سے ہم سب کی فطرت میں کرپشن شامل ہوچکی ہے۔ جیسے ہم اخلاقی طور پر جھوٹ جیسی بیماری کا شکار ہیں بالکل اِسی طرح کرپشن بھی ہماری قومی بیماری بن چکی ہے۔

خواہ وہ حکمران ہوں یا عوام دونوں ایک دوسرے کا عملاً عکس ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آئینے کے اِس طرف کھڑے ہم تو بڑے صاف ستھرے مہذب لباس میں ہوں اور عکس ہمارا پھٹے پرانے کپڑوں میں گندگی سے بھرا ہوا ہو۔ دن رات ہم اپنی زبانوں کو حکمرانوں کی بد فعالیوں پر تو چلاتے ہیں لیکن اپنے کرداروں کو ہم نے کہیں گہری کھائی میں پھینک رکھا ہے۔

ہم میں تربیت کرنے والے تقریباً ناپید ہوچکے ہیں۔ ہمیں یہ سبق تو بار بار پڑھا دیئے جاتے ہیں کہ فلاں کام کرنے والا بُرا اور بدعنوان ہے لیکن ہماری انفرادی برائیوں کی طرف اب تربیت تو کیا توجہ بھی کم ہی دلائی جاتی ہے۔ کٹہرے کے ایک طرف کھڑے ہم انصاف لینے کے دعویدار بنتے ہیں لیکن ہماری اپنی ذات میں دوسروں کے لئے کتنی سچائی اور دیانتداری ہے اس کی مثالیں اوپر بیان کردہ ملاوٹوں میں موجود ہیں۔

اپنے عکس کو سنوارنے کے لئے اپنے وجود کو نکھاریئے۔ بحثیت مسلمان اگر ہم نے اپنی تربیت پر زور نہ دیا تو ہم وہیں کھڑے رہیں گے، جہاں ہم ہمیشہ سے ہیں۔ پھر ایک وزیراعظم کے اُترنے سے ہماری خوشی عارضی تو ہوسکتی ہے دائمی نہیں۔ لہذا صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر اتنا واویلا نہ مچائیں بلکہ خود میں چھپی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں، اور جب وہ دور ہوجائیں تو اِس سے بڑی خوشی نہ آپ کے لیے کوئی ہوسکتی ہے اور نہ وطنِ عزیز کے لیے۔

بقول اقبال،
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا وہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story