’گھر سے نہیں بیوی سے خوف آتا ہے‘
آفس سے تاخیر سے آو تب بھی عدالت لگے اور جلدی آؤ تو بھی کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھا جاتا ہے خیریت آج بہت جلدی آگئے؟
لڑکا کنوارہ ہو تو گرل فرینڈ کی غلامی کرتے جوانی گزرجاتی ہے اور شادی ہوجائے تو بیوی کی۔ شادی سے پہلے گرل فرینڈ کے سوالات کا جوابات دیتے اور اُس کو کھانا کھلاتے ہوئے بیشتر وقت گزر جاتا ہے، اور اگر کسی وجہ سے گرل فرینڈ کھانا نہیں کھارہی ہو تو دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ اگر تم کھانا نہیں کھاؤگی تو میں بھی بھوکا مرجاؤں گا، بے شک لڑکا یہ کھانا کھاتے ہوئے دے رہا ہو۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تو رات بھر میں بھی نہیں سویا (بے شک فلم دیکھ کر جاگ رہا ہو)۔
پھر شادی کے بعد مرد گھر دیر سے آئے تو بیوی کا سوال ہوتا ہے کہ آج اتنی دیر سے کیوں آئے؟ خیریت تو ہے آفس میں بہت دل لگنے لگ گیا ہے؟ جلدی آؤ تب بھی کٹہرے میں کھڑے ہو کہ خیریت آج بہت جلدی آگئے، آفس میں کام نہیں تھا؟ تنخواہ اگر آفس والے دیر سے دیں تو جب تک تنخواہ نہیں آجاتی روز عدالتی کارروائی کی طرح پیشی بھگتنی پڑے گی، صفائیاں دینی پڑیں گیں اور اگر آپ کے کل اور آج کے بیان میں کوئی فرق پایا گیا تو ایک نیا مقدمہ بن سکتا ہے اور اُس کی تفتیش الگ سے کی جائے گی۔ جب آپ کی بیوی نے کال کرے اور اُس وقت اگر غلطی سے آپ کا موبائل نمبر مصروف چلا گیا تو خیریت بعد میں پوچھی جائے گی، پہلے سوال ہوگا کہ نمبر اتنی دیر سے کہاں اور کیوں مصروف تھا؟ (بیشک آپ کی کال چند سیکنڈ کی ہی ہو)۔
دن بھر نوکری کرنے کے بعد رات کو بیوی کی تمام کہانیاں سُنے بغیر سوگئے تو آپ وہ مرد تصور کئے جائیں گے جو اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا، جو کسی اور لڑکی میں دلچسپی لینے لگا ہے، اور خبردار گھر میں موبائل استعمال کرتے ہوئے احتیاط کریں، کیونکہ اگر موبائل پر کوئی لطیفہ بھی پڑھتے ہیں تو اپنی ہنسی پر قابو پانا سیکھیں کیونکہ اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل ہے اور آپ ہنس پڑے تو پیشی کے لئے تیار رہیں کہ میری بات تو دھیان سے سنتے نہیں موبائل دیکھ کر بہت ہنسی آرہی ہے۔ دکھائیں کس کا میسج ہے؟ آج کل آپ کا دل موبائل میں لگنے لگا ہے۔
ایسی ہی بہت سی باتیں ہیں جو بیچارے مرد پر گزرتی ہیں لیکن کوئی اُس کی مظلومیت پر آواز نہیں اٹھاتا۔ جو خواتین گھروں سے باہر تو برابری کی تحریک چلاتی ہیں لیکن وہی خواتین گھروں میں مردوں پر ذہنی تشدد کرتی ہیں، اور المیہ یہ کہ یہ تشدد مرد اپنی مردانگی چھپانے کے لئے کسی سے بیان بھی نہیں کرسکتا۔ بہت سے مردوں کا حال تو صدرِ پاکستان کا سا ہے، کہنے کو تو گھر کے صدر ہیں لیکن نہ کوئی سنتا ہے نہ ہی وہ بول سکتے ہیں۔
ہیر رانجھا کی محبت کی داستان سُن تو رکھی ہوگی کہ ایک دوسرے سے کس حد تک محبت کرتے تھے مل نہیں سکے تو ساتھ مرگئے۔ لیلیٰ مجنوں کا نام بھی ہر محبت کرنے والے کی زبان پر ہوتا ہے، اور پھر بھی اگر اُن میں سے آپ نے کچھ نہیں پڑھا، سُنا نہیں تو پھر کسی نوجوان لڑکے کا اپنی محبوبہ کے نام پیغام پڑھ کر دیکھ لیجیئے (اگر موقع ملے) گا۔ کس طرح سے وہ آسمان سے تارے توڑنے، دنیا سے ٹکرانے، اُسے پانے کے لئے دنیا بھر کی طاقتوں سے ٹکرانے کے دعوے کرتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ اگر محبوبہ کہہ دے کہ ہاں آسمان سے تارے توڑ کر لادو تو جواب ہوتا ہے کہ لا تو دوں لیکن تارے تمہارے کس کام کے؟ میں ہی تو تمہارا تارا ہوں۔
محبت کی داستان صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے تو یہ تک کہا تھا کہ ٹارگٹ کِلنگ میں گرل فرینڈز ملوث ہیں جو انتقام کے لئے اپنے محبوب کو مرواتی ہیں۔ اللہ جانے اِس بیان کے بعد کتنے لڑکوں نے اپنی گرل فرینڈز کو شک کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا۔
حال ہی میں ڈی جی نیب نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دیا کہ مرد حضرات اپنی بیوی، بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کرپشن کرتے ہیں گویا ثابت ہوا کہ مرد کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی، اپنے لئے کوئی کرپشن نہیں کرتا۔ گرل فرینڈ کو دھوکا دے تو گرل فرینڈ مروادے، اور اگر بیوی بچوں کے لئے کرپشن کرے تو پکڑا جائے بیچارا مرد ۔۔۔۔۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے ہی مرد مظلوم ہیں تو آپ غلطی پر ہیں کیونکہ مرد پاکستان کا ہو یا امریکہ کا، ہوتا مظلوم ہی ہے۔ چند دن پہلے امریکا میں 70 سالہ شخص لارنس ریپل نے اپنی بیوی سے تنگ آ کر بینک میں ڈاکہ مارا اور ڈاکہ مار کر موصوف بھاگے نہیں بلکہ پولیس کا انتظار کرتے رہے کہ پولیس آئے، اور اس کو پکڑ کر لے جائے کیونکہ اُس کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں رہنے کے برعکس جیل میں رہنے کو ترجیح دے گا۔
تفصیل جانی تو معلوم ہوا کہ عدالتی دستاویزات کے مطابق لارنس ریپل نے بینک کے کلرک کو ایک نوٹ دیا جس پر رقم دینے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ لکھا کہ اُن کے پاس بندوق بھی ہے۔ بینک نے 3 ہزار ڈالر کے قریب رقم دی لیکن وہ بینک سے گئے نہیں اور لابی میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئے اور گارڈ کو کہا کہ میں وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔
قانون کے مطابق اُن جناب کو 20 برس کی قید ہوسکتی ہے، لیکن یہ قید اُن لوگوں کے لئے ہے جو کنوارے ہیں، باقی تمام شادی شدہ افراد کے لئے یہ کسی آزادی سے کم نہیں، اب آپ اسے کسی ایک شخص کی رُوداد کہہ لیں یا ہر شادی شُدہ مرد کے دل کی آواز۔ اس کہانی کو کنوارے سبق کے طور پر پڑھ سکتے ہیں اور شادی شُدہ حوصلہ بلند رکھنے کیلئے کہ وہ ہی اکیلے نہیں ہیں بلکہ دنیا جہان کے مرد اُن کے جیسے ہیں۔ یہ امریکہ، پاکستان، بھارت، برطانیہ کا بس نام ہی ہے۔
[poll id="1309"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پھر شادی کے بعد مرد گھر دیر سے آئے تو بیوی کا سوال ہوتا ہے کہ آج اتنی دیر سے کیوں آئے؟ خیریت تو ہے آفس میں بہت دل لگنے لگ گیا ہے؟ جلدی آؤ تب بھی کٹہرے میں کھڑے ہو کہ خیریت آج بہت جلدی آگئے، آفس میں کام نہیں تھا؟ تنخواہ اگر آفس والے دیر سے دیں تو جب تک تنخواہ نہیں آجاتی روز عدالتی کارروائی کی طرح پیشی بھگتنی پڑے گی، صفائیاں دینی پڑیں گیں اور اگر آپ کے کل اور آج کے بیان میں کوئی فرق پایا گیا تو ایک نیا مقدمہ بن سکتا ہے اور اُس کی تفتیش الگ سے کی جائے گی۔ جب آپ کی بیوی نے کال کرے اور اُس وقت اگر غلطی سے آپ کا موبائل نمبر مصروف چلا گیا تو خیریت بعد میں پوچھی جائے گی، پہلے سوال ہوگا کہ نمبر اتنی دیر سے کہاں اور کیوں مصروف تھا؟ (بیشک آپ کی کال چند سیکنڈ کی ہی ہو)۔
دن بھر نوکری کرنے کے بعد رات کو بیوی کی تمام کہانیاں سُنے بغیر سوگئے تو آپ وہ مرد تصور کئے جائیں گے جو اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا، جو کسی اور لڑکی میں دلچسپی لینے لگا ہے، اور خبردار گھر میں موبائل استعمال کرتے ہوئے احتیاط کریں، کیونکہ اگر موبائل پر کوئی لطیفہ بھی پڑھتے ہیں تو اپنی ہنسی پر قابو پانا سیکھیں کیونکہ اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل ہے اور آپ ہنس پڑے تو پیشی کے لئے تیار رہیں کہ میری بات تو دھیان سے سنتے نہیں موبائل دیکھ کر بہت ہنسی آرہی ہے۔ دکھائیں کس کا میسج ہے؟ آج کل آپ کا دل موبائل میں لگنے لگا ہے۔
ایسی ہی بہت سی باتیں ہیں جو بیچارے مرد پر گزرتی ہیں لیکن کوئی اُس کی مظلومیت پر آواز نہیں اٹھاتا۔ جو خواتین گھروں سے باہر تو برابری کی تحریک چلاتی ہیں لیکن وہی خواتین گھروں میں مردوں پر ذہنی تشدد کرتی ہیں، اور المیہ یہ کہ یہ تشدد مرد اپنی مردانگی چھپانے کے لئے کسی سے بیان بھی نہیں کرسکتا۔ بہت سے مردوں کا حال تو صدرِ پاکستان کا سا ہے، کہنے کو تو گھر کے صدر ہیں لیکن نہ کوئی سنتا ہے نہ ہی وہ بول سکتے ہیں۔
ہیر رانجھا کی محبت کی داستان سُن تو رکھی ہوگی کہ ایک دوسرے سے کس حد تک محبت کرتے تھے مل نہیں سکے تو ساتھ مرگئے۔ لیلیٰ مجنوں کا نام بھی ہر محبت کرنے والے کی زبان پر ہوتا ہے، اور پھر بھی اگر اُن میں سے آپ نے کچھ نہیں پڑھا، سُنا نہیں تو پھر کسی نوجوان لڑکے کا اپنی محبوبہ کے نام پیغام پڑھ کر دیکھ لیجیئے (اگر موقع ملے) گا۔ کس طرح سے وہ آسمان سے تارے توڑنے، دنیا سے ٹکرانے، اُسے پانے کے لئے دنیا بھر کی طاقتوں سے ٹکرانے کے دعوے کرتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ اگر محبوبہ کہہ دے کہ ہاں آسمان سے تارے توڑ کر لادو تو جواب ہوتا ہے کہ لا تو دوں لیکن تارے تمہارے کس کام کے؟ میں ہی تو تمہارا تارا ہوں۔
محبت کی داستان صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے تو یہ تک کہا تھا کہ ٹارگٹ کِلنگ میں گرل فرینڈز ملوث ہیں جو انتقام کے لئے اپنے محبوب کو مرواتی ہیں۔ اللہ جانے اِس بیان کے بعد کتنے لڑکوں نے اپنی گرل فرینڈز کو شک کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا۔
حال ہی میں ڈی جی نیب نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دیا کہ مرد حضرات اپنی بیوی، بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کرپشن کرتے ہیں گویا ثابت ہوا کہ مرد کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی، اپنے لئے کوئی کرپشن نہیں کرتا۔ گرل فرینڈ کو دھوکا دے تو گرل فرینڈ مروادے، اور اگر بیوی بچوں کے لئے کرپشن کرے تو پکڑا جائے بیچارا مرد ۔۔۔۔۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے ہی مرد مظلوم ہیں تو آپ غلطی پر ہیں کیونکہ مرد پاکستان کا ہو یا امریکہ کا، ہوتا مظلوم ہی ہے۔ چند دن پہلے امریکا میں 70 سالہ شخص لارنس ریپل نے اپنی بیوی سے تنگ آ کر بینک میں ڈاکہ مارا اور ڈاکہ مار کر موصوف بھاگے نہیں بلکہ پولیس کا انتظار کرتے رہے کہ پولیس آئے، اور اس کو پکڑ کر لے جائے کیونکہ اُس کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں رہنے کے برعکس جیل میں رہنے کو ترجیح دے گا۔
تفصیل جانی تو معلوم ہوا کہ عدالتی دستاویزات کے مطابق لارنس ریپل نے بینک کے کلرک کو ایک نوٹ دیا جس پر رقم دینے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ لکھا کہ اُن کے پاس بندوق بھی ہے۔ بینک نے 3 ہزار ڈالر کے قریب رقم دی لیکن وہ بینک سے گئے نہیں اور لابی میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئے اور گارڈ کو کہا کہ میں وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔
قانون کے مطابق اُن جناب کو 20 برس کی قید ہوسکتی ہے، لیکن یہ قید اُن لوگوں کے لئے ہے جو کنوارے ہیں، باقی تمام شادی شدہ افراد کے لئے یہ کسی آزادی سے کم نہیں، اب آپ اسے کسی ایک شخص کی رُوداد کہہ لیں یا ہر شادی شُدہ مرد کے دل کی آواز۔ اس کہانی کو کنوارے سبق کے طور پر پڑھ سکتے ہیں اور شادی شُدہ حوصلہ بلند رکھنے کیلئے کہ وہ ہی اکیلے نہیں ہیں بلکہ دنیا جہان کے مرد اُن کے جیسے ہیں۔ یہ امریکہ، پاکستان، بھارت، برطانیہ کا بس نام ہی ہے۔
[poll id="1309"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔