پاناما کیس مریم نواز کے وکیل کو آج تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت
وزیراعظم کو بچوں سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کروا دوں گا، شاہد حامد
پاناما کیس میں مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون زیر کفالت افراد کی تعریف میں نہیں آتی جب کہ سپریم کورٹ نے شاہد حامد کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ تیار کر لیا گیا ہے جو عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا، مریم نواز نے انٹرویو میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے نواز شریف کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی لیکن زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے، زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں اور زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کو طلب کرسکتےہیں، سپریم کورٹ
شاہد حامد نے کہا کہ غیر شادی بیٹی کے ذرائع آمدن نہ ہوں تو وہ زیر کفالت ہو گی جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹگری ہے، شاہدحامد نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹگری 2015 میں شامل کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی؟
قطری شہزادے کی جانب سے 22 دسمبر کو پیش کئے گئے دوسرے خط کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، دوسرا خط پہلے والے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ حماد بن جاسم کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی جبکہ قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ 2005 میں کاروبار کے زمرے میں 80 لاکھ ڈالر بقایا تھے، 80 لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں پیش
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کیے جائیں گے، نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی، ڈکشنری کے مطابق دوسرے پر مکمل انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کاروباری خاندان میں ایک مضبوط آدمی پورے خاندان کو چلاتا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں، بالغ بچے خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں تو کیا انہیں زیر کفالت تصور کیا جائے۔
حسن اور حسین نواز کی جانب سے قطری شہزادے کی جانب سے 22 دسمبر کو لکھے گئے دوسرے خط کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، دوسرا خط پہلے والے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ انٹر ویو میں میاں شریف کی الثانی فیملی سے رقم واپسی کا ذکر ضروری نہیں تھا، میاں شریف کی درخواست پر الثانی فیملی نے جدہ اسٹیل مل میں 5.4 ملین درہم کی سرمایہ کاری کی، مکہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن پراپرٹی خریدی گئی، بینکوں اور دوستوں سے بھی مالی مدد لی گئی۔ میاں شریف نے اپنی زندگی میں بتایا تھا کہ دبئی میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کی ہے اور 12 ملین درہم اسٹیل مل کی فروخت سے حاصل کئے گئے ہیں، میاں شریف نے یہ بھی بتایا کہ شیخ جاسم نے انہیں اپنے کاروبار میں استعمال کیا اور اسٹیل مل سے حاصل ہونے والے 12 ملین درہم حسین نواز کو دینے کا کہا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں
قطری شہزادے کے خط کے متن کے مطابق دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی جبکہ قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ 2005 میں کار وبار کے زمرے میں 80 لاکھ ڈالر بقایا تھے، 80 لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔ جواب میں بتایا گیا کہ الثانی خاندان کا بندہ جدہ میں شریف فیملی سے ملا اور رقم کی واپسی لندن کے انٹر بینک ریٹس کے مطابق ادائیگی پر اتفاق ہواتھا، اس ملاقات میں 3.2 ملین درہم کی رقم بھی لندن کے انٹر بینک آفر ریٹ کے مطابق ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سعودی عرب میں العزیز اسٹیل مل دبئی مل بیچ کر لگائی گئی، حسین 2006 میں سعودی ملز کی آمدن سے والد کو زر مبادلہ بھیجنے کے قابل ہوئے اور حسین نواز کو پتہ ہے کہ والد نے تحفے کی رقم سے مریم صفدر کو مالی طور پر مستحکم کیا۔
حسن نواز نے جواب میں بتایا کہ جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے تو شریف خاندان کے زیر کفالت نہیں تھے، 2001 میں لندن میں فلیگ شپ کمپنی بنائی، حسن نواز کی فلیگ شپ کمپنی کے لئے 4.2 ملین ڈالر میاں شریف نے دیئے، 4 فروری 2006 کو ٹرسٹ ڈیڈ بھی تیار کی گئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ نواز شریف نے مریم نواز کے لیے زمین انہی تاریخوں میں خریدی جن میں حسین نواز نے رقم بھیجی؟ لگتا ہے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی جس سے باپ نے بیٹی کیلئے زمین خریدی، بیٹی قانونی طور جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی تحریری کوتاہی ہو سکتی ہے اور اس کوتاہی کے سنگین نتائج نہیں نکلتے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رقم کی منتقلی، تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھیں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما کیس میں جعلی ریکارڈ پیش کیا جا رہا ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیل ڈیڈ کے لئے پہلے سادہ پیپر اور پھر بیان حلفی تیار کیا گیا، آپ خود بتا دیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائے۔ شاہد حامد نے کہا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رقم بیرون ملک سے آئی، باپ نے بیٹی کے لیے زمین خریدی اور بیٹی نے رقم باپ کو واپس کر دی، آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت میں اتنا منافع کیسے ہوا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ 2006 میں حسن نواز نے لندن میں بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدی اور دبئی بھجوائی، دو سال بعد انہوں نے گاڑی مریم نواز کو تحفے میں دیدی جو انہوں نے 37 لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کر کے حاصل کی، 2011 میں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی، پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2 کروڑ 80 لاکھ لگائی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں نئی گاڑی کی خریداری کے لئے پرانی گاڑی مجوزہ قیمت پر بیچ دی، آپ کے مطابق منافع کی رقم مؤکلہ کے پاس نہیں آئی، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم کو بچوں سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کروا دوں گا۔
اس کے علاوہ وزیراعظم کی جانب سے جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب عدالت میں جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی، بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم نے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، لندن فلیٹس وزیراعظم کی ملکیت نہیں اور وہ چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بھی بینیفشل آنر نہیں ہیں۔ عدالت نے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ تیار کر لیا گیا ہے جو عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا، مریم نواز نے انٹرویو میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے نواز شریف کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی لیکن زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے، زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں اور زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کو طلب کرسکتےہیں، سپریم کورٹ
شاہد حامد نے کہا کہ غیر شادی بیٹی کے ذرائع آمدن نہ ہوں تو وہ زیر کفالت ہو گی جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹگری ہے، شاہدحامد نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹگری 2015 میں شامل کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی؟
قطری شہزادے کی جانب سے 22 دسمبر کو پیش کئے گئے دوسرے خط کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، دوسرا خط پہلے والے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ حماد بن جاسم کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی جبکہ قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ 2005 میں کاروبار کے زمرے میں 80 لاکھ ڈالر بقایا تھے، 80 لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں پیش
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کیے جائیں گے، نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی، ڈکشنری کے مطابق دوسرے پر مکمل انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کاروباری خاندان میں ایک مضبوط آدمی پورے خاندان کو چلاتا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں، بالغ بچے خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں تو کیا انہیں زیر کفالت تصور کیا جائے۔
حسن اور حسین نواز کی جانب سے قطری شہزادے کی جانب سے 22 دسمبر کو لکھے گئے دوسرے خط کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں، دوسرا خط پہلے والے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ انٹر ویو میں میاں شریف کی الثانی فیملی سے رقم واپسی کا ذکر ضروری نہیں تھا، میاں شریف کی درخواست پر الثانی فیملی نے جدہ اسٹیل مل میں 5.4 ملین درہم کی سرمایہ کاری کی، مکہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن پراپرٹی خریدی گئی، بینکوں اور دوستوں سے بھی مالی مدد لی گئی۔ میاں شریف نے اپنی زندگی میں بتایا تھا کہ دبئی میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کی ہے اور 12 ملین درہم اسٹیل مل کی فروخت سے حاصل کئے گئے ہیں، میاں شریف نے یہ بھی بتایا کہ شیخ جاسم نے انہیں اپنے کاروبار میں استعمال کیا اور اسٹیل مل سے حاصل ہونے والے 12 ملین درہم حسین نواز کو دینے کا کہا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں
قطری شہزادے کے خط کے متن کے مطابق دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی جبکہ قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی، سرمایہ کاری کے وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ 2005 میں کار وبار کے زمرے میں 80 لاکھ ڈالر بقایا تھے، 80 لاکھ ڈالر کے بقایا جات نیلسن اور نیسکول کے شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔ جواب میں بتایا گیا کہ الثانی خاندان کا بندہ جدہ میں شریف فیملی سے ملا اور رقم کی واپسی لندن کے انٹر بینک ریٹس کے مطابق ادائیگی پر اتفاق ہواتھا، اس ملاقات میں 3.2 ملین درہم کی رقم بھی لندن کے انٹر بینک آفر ریٹ کے مطابق ادا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سعودی عرب میں العزیز اسٹیل مل دبئی مل بیچ کر لگائی گئی، حسین 2006 میں سعودی ملز کی آمدن سے والد کو زر مبادلہ بھیجنے کے قابل ہوئے اور حسین نواز کو پتہ ہے کہ والد نے تحفے کی رقم سے مریم صفدر کو مالی طور پر مستحکم کیا۔
حسن نواز نے جواب میں بتایا کہ جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے تو شریف خاندان کے زیر کفالت نہیں تھے، 2001 میں لندن میں فلیگ شپ کمپنی بنائی، حسن نواز کی فلیگ شپ کمپنی کے لئے 4.2 ملین ڈالر میاں شریف نے دیئے، 4 فروری 2006 کو ٹرسٹ ڈیڈ بھی تیار کی گئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ نواز شریف نے مریم نواز کے لیے زمین انہی تاریخوں میں خریدی جن میں حسین نواز نے رقم بھیجی؟ لگتا ہے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی جس سے باپ نے بیٹی کیلئے زمین خریدی، بیٹی قانونی طور جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی تحریری کوتاہی ہو سکتی ہے اور اس کوتاہی کے سنگین نتائج نہیں نکلتے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رقم کی منتقلی، تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھیں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما کیس میں جعلی ریکارڈ پیش کیا جا رہا ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیل ڈیڈ کے لئے پہلے سادہ پیپر اور پھر بیان حلفی تیار کیا گیا، آپ خود بتا دیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائے۔ شاہد حامد نے کہا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رقم بیرون ملک سے آئی، باپ نے بیٹی کے لیے زمین خریدی اور بیٹی نے رقم باپ کو واپس کر دی، آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت میں اتنا منافع کیسے ہوا، جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ 2006 میں حسن نواز نے لندن میں بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدی اور دبئی بھجوائی، دو سال بعد انہوں نے گاڑی مریم نواز کو تحفے میں دیدی جو انہوں نے 37 لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کر کے حاصل کی، 2011 میں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی، پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2 کروڑ 80 لاکھ لگائی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں نئی گاڑی کی خریداری کے لئے پرانی گاڑی مجوزہ قیمت پر بیچ دی، آپ کے مطابق منافع کی رقم مؤکلہ کے پاس نہیں آئی، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم کو بچوں سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کروا دوں گا۔
اس کے علاوہ وزیراعظم کی جانب سے جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب عدالت میں جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی، بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم نے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، لندن فلیٹس وزیراعظم کی ملکیت نہیں اور وہ چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بھی بینیفشل آنر نہیں ہیں۔ عدالت نے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔