اگر کسی فلم پر پے در پے تنازعات اور مشکلات پڑیں تو اُس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ اور ایکسل انٹرٹینمنٹ کی مشترکہ پیشکش 'رئیس' کیساتھ رہا۔ سب سے پہلے انڈر ورلڈ کے اہم کردار داؤد ابراہیم کے قریبی ساتھی کے اوراقِ زیست کو بلِا اجازت فلم کی کہانی میں استعمال کرنے کا الزام لگا، پھر دوسرا اہم تنازعہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں فلم کی کاسٹ میں پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کے ہونے پر تھا جبکہ بھارت میں رہنے والے شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا، آخر میں انتہا پسند متعصب ہندوؤں نے انتہائی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے فلم پر سیاست کرنی شروع کردی۔ تاہم تمام مشکلات عبور کرتے ہوئے رئیس 'آرہا ہوں میں' کہتا رہا اور آج بالآخر ہم سب کے سامنے آہی گیا۔
فلم ہمیں 35،40 برس پہلے کے گجرات میں لے جاکر غربت اور کٹھن حالات سے لڑ کر خود اپنا راستہ بناتے رئیس (شاہ رخ خان) سے ملواتی ہے جو شراب کا ناجائز کاروبار کرتے کرتے خوب طاقتور ہوچکا ہے اور اپنے تعلقات کے باعث قانون کی پکڑ سے محفوظ ہے لیکن چونکہ ہر برائی کا سامنے ایک دیوار ہوتی ہے، لہذٰا رئیس کی زندگی اور کاروبار کیلئے یہ دیوار پولیس آفیسر جے دیپ مجمودار (نواز الدین صدیقی) کی صورت میں سامنے آتی ہے جو ہر قیمت پر رئیس کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہتا ہے۔
یہ ایک روایتی سی کہانی ہے جس کا دارومدار پلاٹ کو سپورٹ کرنیوالے دیگر شعبہ جات پر ہے، جن میں سب سے اوپر اداکاری ہے۔ شاہ رخ خان نے رئیس میں ایک بار پھر جان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈئیر زندگی کے ہنستے مسکراتے ڈاکٹر جہانگیر کے برعکس یہاں کنگ خان سنجیدہ اور بے رحم رئیس کے ایکشن سے بھرپور کردار میں بہترین اداکاری کرتے دکھائی دئیے۔ یوں تو شاہ رخ خان ہمیشہ ہی اپنے ہر کردار سے انصاف کرتے ہیں لیکن یہ فلم یقیناً اُن کے فنی سفر کی ایک اور یادگار پرفارمنس کیلئے یاد رکھی جائے گی۔
مکالموں کی ادائیگی ہو یا صرف خاموش رہ کر تاثرات دینے ہوں، رومانس ہو یا ایکشن، شاہ رخ خان نے پوری فلم میں کوئی ایک جگہ بھی خالی نہیں چھوڑی۔ اُنہوں نے اِس سے پہلے بھی کئی بار منفی کردار نبھائے ہیں، لیکن اس دفعہ اداکاری کے ہر ہر پہلو پر اُن کی گرفت بے مثال ہے۔ اُن میں ایک اداکار کی وقت گزرنے کے ساتھ اپنے فن میں پختگی کی جھلک نمایاں ہے، وہ اپنے کردار کی چھوٹی سے چھوٹی جزئیات کو بھی خوبصورتی سے سامنے لاکر اُس کے منفی پہلو کو بھی مثبت بنادیتے ہیں۔
بالی ووڈ کا ایک اور زبردست فنکار نوازالدین صدیقی بھی جے دیپ مجمودار کے کردار میں خوب جگمگایا۔ نوازالدین نے پوری فلم میں شائقین کو کہیں بھی مایوس نہیں کیا۔ وہ اِس فلم میں کنگ خان سے بہتر نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ اگر شاہ رخ خان نے دیکھنے والوں کو رئیس کے اچھے بُرے کام اور نرم گرم مزاج کے سحر میں جکڑ کر رکھا ہے تو نوازالدین پُرسکون اور دھیمے لہجے میں ہر آرڈر 'ان رائٹنگ' مانگ کر پولیس آفیسر کی مجبوریوں اور قانون کی طاقت سے روشناس کراتے رہتے ہیں۔
توقعات کے برعکس ماہرہ خان کوئی بھی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہیں۔ اُن کی اداکاری تو ٹی وی ڈراموں میں بھی واجبی ہی ہوتی ہے لیکن اُمید یہ ہی تھی کہ وہ اتنے بڑے چانس کو ضائع نہیں کریں گیں لیکن ماہرہ خان کچھ نہ کرسکیں۔
اُنہوں نے اپنا نکھرا ہوا انداز چھوڑ کر اِس زمانے کی گجراتی لڑکی بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کنگ خان کے آگے وہ ٹِک نہیں پائیں۔ فلم کے ہدایتکار راہول ڈھولکیا نے کہانی کی کمزوریوں پر بہترین طریقے سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن پلاٹ کے مطابق ایک بُرے انسان کی اندر کی اچھائی اسکرین تک آتے آتے کہیں درمیان میں ہی کھو گئی۔
غیر ضروری انسانیت اور جذباتیت نے فلم کی کہانی کو نقصان پہنچایا ہے، لہذٰا رئیس صرف اداکاری کے سہارے کھڑی ہو پائی ہے۔ اگر شاہ رخ خان اور نواز الدین کو الگ کردیا جائے تو دلچسپی بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔ البتہ ایکشن سین بہت خوبصورتی سے فلمائے گئے ہیں۔
موسیقی کے شعبے میں فلم انتہائی کمزور ہے یا یوں کہہ لیں کہ لیلیٰ کو چھوڑ کر کوئی بھی گانا بار بار سننے کے لائق نہیں ہے۔ شاید ایک ایکشن تھرلر کے لوازمات پورے کرتے کرتے فلمساز موسیقی کو نظر انداز کرگئے۔
شاہ رخ خان کی 'رئیس' کا مقابلہ ریتھک روشن کی 'قابل' سے ہے لیکن شاہ رخ خان کے اسٹارڈم اور زبردست پروموشن کے باعث رئیس تقریباً تمام چکاچوند سمیٹ رہی ہے لیکن پھر بھی ایکشن فلموں کے پرانے فارمیٹ پر بنائی گئی یہ فلم 5 میں سے 3 نمبر لیکر ایک بار ہی دیکھی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔