تھرپارکر تاریخ اور ثقافت کی تباہی کے مناظر
پاکستان میں سب سے ابتر زندگی گزارنے والوں کا تذکرہ۔
GENEVA:
دنیا کے مختلف معاشروں میں انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب ہوتاہے، جس کے ذریعے معلوم ہوتاہے کہ کس علاقے کے انسان کیسی زندگی بسر کررہے ہیں۔ زندگی کا معیار جانچنے کی تین بڑی بنیادیں ہوتی ہیں۔
اوّل : وہاں کے باسی اوسطاً کتنی عمر جیتے ہیں، دوم: وہ کتنا پڑھے لکھے ہیں، سوم : ان کی اوسط آمدن کیا ہے؟ آپ یہ بھی جان کر حیران ہوں گے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ابتر حالت ضلع تھرپارکر والوںکی ہے۔ 20ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ضلع، یہاں گزشتہ چھ برسوں کے دوران میں پانچ برس سے کم عمر 2000بچے انتقال کرچکے ہیں۔ صوبائی حکومت ہرسال رپورٹس تیارکرتی ہے، کمیشن اور ہنگامی منصوبے بنتے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوتے۔ ہسپتالوں کی فارمیسیز ادویات سے بھری پڑی ہیں، بعض اوقات سٹاک رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی، تاہم ڈاکٹرز نہیں ہیں۔ اگرکہیں ڈاکٹرز ہیں تو مریضوں کی رسائی سے بہت دور ہیں۔ براعظم افریقہ میں بھی ڈاکٹر تک رسائی اتنی مشکل نہیں ہوتی۔
پریم چند کے چار بچے پانچ برسوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے، اس نے انھیں بچانے کے لئے بیوی کا سارا زیور، اپنی دکان، سارا کاروبار ، موٹرسائیکل بھی غرضیکہ سب کچھ بیچ دیا۔ پریم چند کا کہناہے کہ حکومت اندھی اور بہری ہے، اسے غریبوں کا کوئی خیال نہیں''۔ کچھ عرصہ پہلے معروف عرب ٹی وی چینل' الجزیرہ' نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایاگیاکہ تھرپارکرکے 15 لاکھ لوگوں کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں۔
غربت، بڑھتی ہوئی آبادی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، بے روزگاری اور انتہائی کم شرح خواندگی۔ حکومت تھرپارکر کی خواتین کے رنگین اور روایتی ملبوسات کو سندھ کی ثقافت بنا کر پیش کرتی ہے لیکن ان کی بھوک اور پیاس دور کرنے کا خیال نہیں۔ ضلع میں بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے لیکن بچوں کے ڈاکٹرز صرف چھ۔ گائناکالوجسٹس کی تعداد پانچ ہے۔ بچے کیوں مررہے ہیں؟ اہم وجہ نوعمری کی شادی ہے۔12سال کے بعد شادی کردی جاتی ہے، پھر اس پر سارے گھر کے کاموں کا بوجھ ، حمل کے باوجود اسے آرام نہیں ملتا۔ وہ صبح چار بجے بیدار ہوتی ہے، بچوں کو سنبھالتی ہے، کھانے پکاتی ہے، کنویں سے پانی بھر کے لاتی ہے، حتیٰ کہ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہے۔ ہر مہینے ایسی ہی مائوں کے 300سے 400 بچے ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔
سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی کی قیادت اور رہنماء یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ دوسرے صوبوں میں کیاکچھ بُرا ہورہاہے لیکن شاید انھیں خبر نہیں کہ ان کے صوبہ میں لوگ زیادہ ابتر زندگی بسر کرتے ہیں۔30فیصد خواتین اور بچوں کو پانی لانے کے لئے ایک گھنٹہ طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے،ہسپتالوں تک پہنچنے میں دو دن لگ جاتے ہیں، 90فیصد خواتین کم وزن ہیں، 93 فیصد گھرانوں کے پاس خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں، وہ موسمی فصلوں ہی پر گزارہ کرتے ہیں یا پھر مجبور ہوکر بھیڑ، بکری اور اونٹ بیچ دیتے ہیں۔ پریم چند کہتاہے:'' یہ حکومت ہمیں مٹی کا تیل ہی فراہم کردے کہ ہم اسے اپنے آپ ، بیوی بچوں پر چھڑک کر آگ ہی لگادیں''۔
1۔تھرپارکر کے لوگوں کی زندگی کا بنیادی انحصار لائیوسٹاک پر ہے۔ ان کے پاس 46 لاکھ بھیڑیں، بکریاں، گائیں، اونٹ، گدھے اور خچر ہیں۔ وہ ان مویشیوں سے گھر میں دودھ کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں اور مقامی مارکیٹ میں ان جانوروں کو فروخت کرکے نقد رقم بھی حاصل کرتے ہیں۔
2۔ گدھے اور خچر کنووں اور واٹرپلانٹس سے پانی لانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ صحرائی زندگی میں کڑکتی دھوپ ہو، دن میں کئی بار پانی لانا کتنا مشکل کام ہے۔
3۔ اونٹ کے جسم پر بالوں کا آرٹ تھرپارکر میں کثرت سے دیکھنے کو ملتاہے۔ تاہم 'گل کاری' کا یہ فن اب دم توڑ رہاہے۔ جو لوگ اس فن سے متعلق ہیں، وہ اونٹنیوں کا دودھ بھی فروخت کرتے ہیں۔
4۔ اس پورے ضلع میں لائیوسٹاک کے شعبے میں 46لاکھ جانور ہیں لیکن ان کے لئے صرف 12معالج ہیں۔ حکومت خشک موسم گزرنے کے بعد ضلع بھر کے 68 دیہاتوں میں ویکسی نیشن کی مہم چلاتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سن 2014ء میں یہاں تین لاکھ مویشی ہلاک ہوئے۔
5۔ تھرپارکر کا 80 فیصد علاقہ ایسا ہے کہ وہاں چارپہیوں والی گاڑی نہیں جاسکتی۔ یہاں گھر مٹی کے ہوتے ہیں جن کی چھتیں گھاس پھونس کی بنی ہوتی ہیں۔2300گھر حکومت کے ریکارڈ میں ہیں لیکن 2000 سے زائد رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کو معلوم نہیں کہ بجلی نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو گھروں میں روشنی کرتی ہے۔
6۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مشکل زندگی کا سامنا 'تھر' کی خواتین کو ہے۔ بظاہر وہ روایتی رنگین ملبوسات پہنتی ہیں، ان کے کندھوں تک چوڑیاں(اگر وہ شادی شدہ ہوں) ہوتی ہیں، تاہم ان کی زندگی میںکس قدر مشکلات ہیں، یہ وہی جانتی ہیں یا پھر ان کا پیدا کرنے والا۔ وہ غذائی کمی کا شکار ہوتی ہیں ، نوعمری ہی میں مائیں بن جاتی ہیں، عمر اور استطاعت سے بڑھ کر سخت کام کاج کرنا پڑتا ہے اور پورے گھرانے کی پرورش کی ذمہ داری انہی کے کندھوں پر ہوتی ہے۔
7۔ تھرپارکر میں قریباً پانچ لاکھ بچے زندگی بسر کررہے ہیں، ان میں سے ایک لاکھ 65ہزار تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ضلع میں شرح خواندگی20 فیصد سے بھی کم ہے۔ زیادہ تر بچے مویشیوں کی خدمت کرتے ہیں یا پھر اپنی مائوں کے ساتھ مل کر دن میں کئی بار کنویں سے پانی بھر کے لاتے ہیں۔
8۔ تھرپارکر کے شہری علاقوں میں دکانیں مقامی ہینڈی کرافٹس اور کپڑوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہاں کے لوگ خریدتے ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں، کچھ مال بیرون ملک بھی جاتاہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہینڈی کرافٹس اور کپڑے تیار کرنے والے ہاتھوں کو نہایت معمولی مزدوری ملتی ہے۔
9۔ تھرپارکر میں آبادی سے دور تاریخ پڑی ہوئی ہے۔ پاک بھارت سرحد کے ساتھ نگرپارکر، کارونجھر کی پہاڑیوں میں گرینائٹ کی چٹانیں ہیں۔
10۔پہاڑیوں کی چوٹیوں پر ایک مندر موجود ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد بارش مانگنے آتی ہے۔'شیوا' اور مون سون میلہ کے وقت یہاں ایک بڑا بازار وجود میں آجاتاہے۔
11۔ پاک بھارت سرحد سے تین کلومیٹر اِدھر رام دیو پیر کا مندر ہے۔اس کے پروہت کانجی کے بقول ''یہ مندر 460سال پرانا ہے''۔ یہ خاندان طویل عرصہ سے اس مندر کی رکھوالی کررہا ہے۔ کانجی اور اس کے گھر والے متعدد بار بھارت بھی گئے ہیں لیکن پروہت کا کہناہے:'' ہمیں وہاں رہنا پسند نہیں، اس لئے واپس پاکستان آجاتے ہیں۔''
12۔ ہندو اور جین فن تعمیر کا نظارہ پیش کرنے والی 'بودیسر مسجد'1505ء میں سنگ مر مر سے تعمیر کی گئی، یہ بودیسر ڈیم کے قریب واقع ہے جو بارش کے موسم میں آب پاشی کی ضروریات پوری کرتاہے۔
13۔ نیچے ٹیڑھی میڑھی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے آپ جین مت کے 'گوری مندر' پہنچیں گے۔ یہ کب تعمیر ہواتھا، کسی کو بھی درست معلوم نہیں۔ مندر عام طورپر ویران ہی پڑا رہتاہے۔ اس کے گنبد اور دیواریں خستہ حالی کا شکار ہیں۔
14۔ جین مت کا ایک دوسرا مندر نگرپارکر شہر میں واقع ہے۔ اب اس کا تزئین وآرائش کا کام انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے ہورہاہے۔ اس کا پروہت لکشمن کہتاہے کہ اب بھی بڑی تعداد میں لوگ یہاں آتے ہیں بالخصوص 'شیوا' اور کٹّی میلوں کے دنوں میں۔ زائرین میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارتی بھی شامل ہوتے ہیں۔
15۔ یہاں کھیتوں کے درمیان میں ایک کنواں ہے جسے 'ماروی کا کنواں' کہاجاتا ہے۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ یہاں سے تھر کی ایک لڑکی 'ماروی' کو ایک بادشاہ نے اغوا کیاتھا۔ اب اس کنویں کے اردگرد 'ماروی ہیریٹیج اینڈ کلچرل سنٹر' تعمیر ہوچکا ہے، یہاں ایک مہمان خانہ بھی موجود ہے۔
دنیا کے مختلف معاشروں میں انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب ہوتاہے، جس کے ذریعے معلوم ہوتاہے کہ کس علاقے کے انسان کیسی زندگی بسر کررہے ہیں۔ زندگی کا معیار جانچنے کی تین بڑی بنیادیں ہوتی ہیں۔
اوّل : وہاں کے باسی اوسطاً کتنی عمر جیتے ہیں، دوم: وہ کتنا پڑھے لکھے ہیں، سوم : ان کی اوسط آمدن کیا ہے؟ آپ یہ بھی جان کر حیران ہوں گے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ابتر حالت ضلع تھرپارکر والوںکی ہے۔ 20ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ضلع، یہاں گزشتہ چھ برسوں کے دوران میں پانچ برس سے کم عمر 2000بچے انتقال کرچکے ہیں۔ صوبائی حکومت ہرسال رپورٹس تیارکرتی ہے، کمیشن اور ہنگامی منصوبے بنتے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوتے۔ ہسپتالوں کی فارمیسیز ادویات سے بھری پڑی ہیں، بعض اوقات سٹاک رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی، تاہم ڈاکٹرز نہیں ہیں۔ اگرکہیں ڈاکٹرز ہیں تو مریضوں کی رسائی سے بہت دور ہیں۔ براعظم افریقہ میں بھی ڈاکٹر تک رسائی اتنی مشکل نہیں ہوتی۔
پریم چند کے چار بچے پانچ برسوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے، اس نے انھیں بچانے کے لئے بیوی کا سارا زیور، اپنی دکان، سارا کاروبار ، موٹرسائیکل بھی غرضیکہ سب کچھ بیچ دیا۔ پریم چند کا کہناہے کہ حکومت اندھی اور بہری ہے، اسے غریبوں کا کوئی خیال نہیں''۔ کچھ عرصہ پہلے معروف عرب ٹی وی چینل' الجزیرہ' نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایاگیاکہ تھرپارکرکے 15 لاکھ لوگوں کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں۔
غربت، بڑھتی ہوئی آبادی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، بے روزگاری اور انتہائی کم شرح خواندگی۔ حکومت تھرپارکر کی خواتین کے رنگین اور روایتی ملبوسات کو سندھ کی ثقافت بنا کر پیش کرتی ہے لیکن ان کی بھوک اور پیاس دور کرنے کا خیال نہیں۔ ضلع میں بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے لیکن بچوں کے ڈاکٹرز صرف چھ۔ گائناکالوجسٹس کی تعداد پانچ ہے۔ بچے کیوں مررہے ہیں؟ اہم وجہ نوعمری کی شادی ہے۔12سال کے بعد شادی کردی جاتی ہے، پھر اس پر سارے گھر کے کاموں کا بوجھ ، حمل کے باوجود اسے آرام نہیں ملتا۔ وہ صبح چار بجے بیدار ہوتی ہے، بچوں کو سنبھالتی ہے، کھانے پکاتی ہے، کنویں سے پانی بھر کے لاتی ہے، حتیٰ کہ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہے۔ ہر مہینے ایسی ہی مائوں کے 300سے 400 بچے ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔
سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی کی قیادت اور رہنماء یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ دوسرے صوبوں میں کیاکچھ بُرا ہورہاہے لیکن شاید انھیں خبر نہیں کہ ان کے صوبہ میں لوگ زیادہ ابتر زندگی بسر کرتے ہیں۔30فیصد خواتین اور بچوں کو پانی لانے کے لئے ایک گھنٹہ طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے،ہسپتالوں تک پہنچنے میں دو دن لگ جاتے ہیں، 90فیصد خواتین کم وزن ہیں، 93 فیصد گھرانوں کے پاس خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں، وہ موسمی فصلوں ہی پر گزارہ کرتے ہیں یا پھر مجبور ہوکر بھیڑ، بکری اور اونٹ بیچ دیتے ہیں۔ پریم چند کہتاہے:'' یہ حکومت ہمیں مٹی کا تیل ہی فراہم کردے کہ ہم اسے اپنے آپ ، بیوی بچوں پر چھڑک کر آگ ہی لگادیں''۔
1۔تھرپارکر کے لوگوں کی زندگی کا بنیادی انحصار لائیوسٹاک پر ہے۔ ان کے پاس 46 لاکھ بھیڑیں، بکریاں، گائیں، اونٹ، گدھے اور خچر ہیں۔ وہ ان مویشیوں سے گھر میں دودھ کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں اور مقامی مارکیٹ میں ان جانوروں کو فروخت کرکے نقد رقم بھی حاصل کرتے ہیں۔
2۔ گدھے اور خچر کنووں اور واٹرپلانٹس سے پانی لانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ صحرائی زندگی میں کڑکتی دھوپ ہو، دن میں کئی بار پانی لانا کتنا مشکل کام ہے۔
3۔ اونٹ کے جسم پر بالوں کا آرٹ تھرپارکر میں کثرت سے دیکھنے کو ملتاہے۔ تاہم 'گل کاری' کا یہ فن اب دم توڑ رہاہے۔ جو لوگ اس فن سے متعلق ہیں، وہ اونٹنیوں کا دودھ بھی فروخت کرتے ہیں۔
4۔ اس پورے ضلع میں لائیوسٹاک کے شعبے میں 46لاکھ جانور ہیں لیکن ان کے لئے صرف 12معالج ہیں۔ حکومت خشک موسم گزرنے کے بعد ضلع بھر کے 68 دیہاتوں میں ویکسی نیشن کی مہم چلاتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سن 2014ء میں یہاں تین لاکھ مویشی ہلاک ہوئے۔
5۔ تھرپارکر کا 80 فیصد علاقہ ایسا ہے کہ وہاں چارپہیوں والی گاڑی نہیں جاسکتی۔ یہاں گھر مٹی کے ہوتے ہیں جن کی چھتیں گھاس پھونس کی بنی ہوتی ہیں۔2300گھر حکومت کے ریکارڈ میں ہیں لیکن 2000 سے زائد رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کو معلوم نہیں کہ بجلی نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو گھروں میں روشنی کرتی ہے۔
6۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مشکل زندگی کا سامنا 'تھر' کی خواتین کو ہے۔ بظاہر وہ روایتی رنگین ملبوسات پہنتی ہیں، ان کے کندھوں تک چوڑیاں(اگر وہ شادی شدہ ہوں) ہوتی ہیں، تاہم ان کی زندگی میںکس قدر مشکلات ہیں، یہ وہی جانتی ہیں یا پھر ان کا پیدا کرنے والا۔ وہ غذائی کمی کا شکار ہوتی ہیں ، نوعمری ہی میں مائیں بن جاتی ہیں، عمر اور استطاعت سے بڑھ کر سخت کام کاج کرنا پڑتا ہے اور پورے گھرانے کی پرورش کی ذمہ داری انہی کے کندھوں پر ہوتی ہے۔
7۔ تھرپارکر میں قریباً پانچ لاکھ بچے زندگی بسر کررہے ہیں، ان میں سے ایک لاکھ 65ہزار تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ضلع میں شرح خواندگی20 فیصد سے بھی کم ہے۔ زیادہ تر بچے مویشیوں کی خدمت کرتے ہیں یا پھر اپنی مائوں کے ساتھ مل کر دن میں کئی بار کنویں سے پانی بھر کے لاتے ہیں۔
8۔ تھرپارکر کے شہری علاقوں میں دکانیں مقامی ہینڈی کرافٹس اور کپڑوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہاں کے لوگ خریدتے ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں، کچھ مال بیرون ملک بھی جاتاہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہینڈی کرافٹس اور کپڑے تیار کرنے والے ہاتھوں کو نہایت معمولی مزدوری ملتی ہے۔
9۔ تھرپارکر میں آبادی سے دور تاریخ پڑی ہوئی ہے۔ پاک بھارت سرحد کے ساتھ نگرپارکر، کارونجھر کی پہاڑیوں میں گرینائٹ کی چٹانیں ہیں۔
10۔پہاڑیوں کی چوٹیوں پر ایک مندر موجود ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد بارش مانگنے آتی ہے۔'شیوا' اور مون سون میلہ کے وقت یہاں ایک بڑا بازار وجود میں آجاتاہے۔
11۔ پاک بھارت سرحد سے تین کلومیٹر اِدھر رام دیو پیر کا مندر ہے۔اس کے پروہت کانجی کے بقول ''یہ مندر 460سال پرانا ہے''۔ یہ خاندان طویل عرصہ سے اس مندر کی رکھوالی کررہا ہے۔ کانجی اور اس کے گھر والے متعدد بار بھارت بھی گئے ہیں لیکن پروہت کا کہناہے:'' ہمیں وہاں رہنا پسند نہیں، اس لئے واپس پاکستان آجاتے ہیں۔''
12۔ ہندو اور جین فن تعمیر کا نظارہ پیش کرنے والی 'بودیسر مسجد'1505ء میں سنگ مر مر سے تعمیر کی گئی، یہ بودیسر ڈیم کے قریب واقع ہے جو بارش کے موسم میں آب پاشی کی ضروریات پوری کرتاہے۔
13۔ نیچے ٹیڑھی میڑھی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے آپ جین مت کے 'گوری مندر' پہنچیں گے۔ یہ کب تعمیر ہواتھا، کسی کو بھی درست معلوم نہیں۔ مندر عام طورپر ویران ہی پڑا رہتاہے۔ اس کے گنبد اور دیواریں خستہ حالی کا شکار ہیں۔
14۔ جین مت کا ایک دوسرا مندر نگرپارکر شہر میں واقع ہے۔ اب اس کا تزئین وآرائش کا کام انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے ہورہاہے۔ اس کا پروہت لکشمن کہتاہے کہ اب بھی بڑی تعداد میں لوگ یہاں آتے ہیں بالخصوص 'شیوا' اور کٹّی میلوں کے دنوں میں۔ زائرین میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارتی بھی شامل ہوتے ہیں۔
15۔ یہاں کھیتوں کے درمیان میں ایک کنواں ہے جسے 'ماروی کا کنواں' کہاجاتا ہے۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ یہاں سے تھر کی ایک لڑکی 'ماروی' کو ایک بادشاہ نے اغوا کیاتھا۔ اب اس کنویں کے اردگرد 'ماروی ہیریٹیج اینڈ کلچرل سنٹر' تعمیر ہوچکا ہے، یہاں ایک مہمان خانہ بھی موجود ہے۔