نیند کے 7 حیرت انگیز کرشمے
جدید سائنس انسان کو صحت جیسی نعمت عطا کرنے والی قیمتی دولت کے نئے فوائد سامنے لے آئی
KARACHI:
ایک آئرش کہاوت ہے ''ہنسئے، سبھی آپ کے ساتھ ہنسیں گے۔ خراٹے لیجیے، آپ اکیلے سوئیں گے۔'' یہ کہاوت خراٹے لینے والوں پر لطیف طنز ہے تاہم نیند کی افادیت سے انکار نہیں کرتی۔
حقیقت یہ ہے کہ نیند فطرت کے ان عظیم ترین تحائف میں سے ایک ہے جو اشرف المخلوقات کو عطا ہوئے۔ بیسویں صدی میں سائنس کا بول بالا ہوا، تو بعض مغربی ماہرین کے اذہان میں اس خیال نے جنم لیا کہ آخر انسان سوتا کیوں ہے؟ دراصل وہ نیند کی تاریخ جاننا چاہتے تھے۔ چناں چہ پچھلے پچاس ساٹھ برس سے نیند کی ماہیت و تاریخ کا سراغ لگاتے لگاتے اربوں ڈالر تحقیق پر خرچ ہوچکے۔ اس تحقیق سے بہرحال دلچسپ و نادر معلومات بنی نوع انسان پر عیاں ہوئی۔
ہم کیوں سوتے ہیں؟... اس سوال کے مختلف جواب وجود میں آچکے۔ مثلاً ماہرین ارتقا کا دعویٰ ہے کہ نیند کی وجہ سے لاکھوں سال پہلے کے قدیم انسانوں کویہ سہولت مل گئی کہ وہ رات کے وقت شکار کرنے والے خونخوار حیوانوں سے بچ اور دور رہ سکیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیںکہ نیند کی مدد سے انسان اپنی جسمانی و ذہنی توانائی بچانے کے قابل ہوگیا۔
بعض جواب مزے دار ہیں۔ مثلاً والدین مذاقاً کہتے ہیں کہ اگر نیند نہ ہوتی، تو نٹ کھٹ بچے ان کا تیا پانچہ کر ڈالتے۔ یہ نیند ہی انہیں وقفہِ آرام بہم پہنچاتی اور شرارتی بچوں سے پناہ فراہم کرتی ہے۔ غرض طبی تحقیق رفتہ رفتہ نیند کی بہت سی خوبیاں سامنے لے آئی۔اکیسویں صدی میں تحقیق نے انکشاف کیا کہ کارخانہِ جسمِ انسانی کے مرکز ''دماغ'' کے لیے تو نیند آب حیات جیسی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ نیند ہی ہے جس کی بدولت دماغ دن بھر کی تھکن اتار کر تازہ دم ہوجاتا ہے۔انسان جب محو خواب ہو، توبظاہر نیم مردہ دکھائی دیتا ہے۔ تب یہی لگتا ہے کہ اس کے سارے اعضا بھی ساکن و ساکت ہیں۔ مگر انسانی دماغ کی مخصوص مشینری ان پُرسکون لمحات میں بھی خوب رواں دواں ہوتی ہے۔ دراصل دماغ کے بہت سے حصّے سارا دن کام کرنے کے باعث شکست و ریخت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خصوصی مشینری ہی ٹھونک بجا کر ان کے کل پرزے درست کرتی اور دوبارہ قابل استعمال بناتی ہے۔ گویا ہماری نیند میں بھی دماغ کا پیچیدہ ترین نظام اپنے کاموں میں محو رہتا ہے۔
رنیڈ کارپوریشن کا شمار دنیا کے بڑے تھنکس ٹینکس میں ہوتا ہے۔ اس امریکی ادارے سے منسلک سائنس داں پچھلے پانچ برس سے یہ تحقیق کرنے میں محو تھے کہ نیند انسان پر کس قسم کے جسمانی و ذہنی اثرات مرتب کرتی ہے؟ اور یہ کہ نیند کی کمی کے کیا نقصانات ہیں۔ حال ہی میں اس پانچ سالہ تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ نیند کی کمی کے باعث لاکھوں امریکی نہ صرف دفاتر میں خراب کارکردگی دکھاتے بلکہ اکثر چھٹیاں بھی کرتے ہیں۔ چناں چہ ہر سال صرف امریکی معیشت کو کمیِ نیند کی وجہ سے 410 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مناسب نیند نہ لینے سے جنم لینے والی خرابیوں کا یہ معاشی پہلو ہے۔ رنیڈ کارپوریشن کے سائنس دانوں کی تحقیق سے نیند کی جو مزید طبی خوبیاں و خامیاں آشکارا ہوئیں، وہ درج ذیل ہیں۔
(1) یادداشت بہتر بنائے
نیند کے اہم ترین فوائد میں یہ ایک ہے کہ وہ انسانی دماغ میں طویل المیعاد یادوں کو مضبوط و مستحکم بنادیتی ہے۔ یہ کام وہ تندو تیز دماغی خلیوں(نیورونز) کے مابین بندھنوں کو مضبوط بناکر انجام دیتی ہے۔ یہی نہیں، دماغ نیند کی مدد سے غیر ضروری یادیں بھی تلف کردیتا ہے۔دن میں دماغی خلیے سیکڑوں یادوں پر مشتمل بندھن تخلیق کرتے ہیں۔ مگر سبھی یادیں اس لائق نہیں ہوتیں کہ انہیں مستقل بنیادوں پر محفوظ کیا جائے۔چناںچہ دوران نیند ہی دماغ سکیڑوں یادوں کی چھان پھٹک کرتا اور غیر ضروری یا دیں ضائع کر دیتا ہے۔
اکثر لوگوںنے نوٹ کیا ہو گا کہ جب وہ سات آٹھ گھنٹے کی نیند لے کر بیدار ہوں' تو پچھلے دن سیکھی گئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے کہ دماغ دوران نیند سیکھنے سے وابستہ یادوں کو پختہ و مستحکم بنا دیتا ہے۔ دماغ کو علم ہے کہ اس کے مالک کو ان یادوں کی ضرورت ہے جبکہ عام یادوں کے بندھن قصّہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم بیداری میں انسان بیشتر وقت منفی خیالات میں گھرا رہے ' تو اس کے دماغ میں یادیں منظم کرنے والا شعبہ بھی یہی رخ اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا جب ایسا انسان نیند لے' تو دماغ اس کی منفی یادوں کو پائیداربنادیتا ہے' جبکہ مثبت یادیں عموماً ضائع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے منفی خیالات میں گھرا رہنے والا انسان بتدریج بدی کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ وجہ یہی کہ اس کا دماغ منفی و شرانگیز یادوں کو پختہ بناتا رہتا ہے۔چناںچہ منفی یادوں کے زیر اثر وہ شیطانی کام انجام دینے لگتا ہے۔ گویا ایک انسان کو مجرم بنانے میں پختہ ہوجانے والی یادوں کا بھی اہم کردار ہے۔
(2) زہریلے مادوں کا خاتمہ
رینڈ کارپوریشن کی تحقیق نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جب ہم سو رہے ہوں' تو ہمارا دماغ زیادہ مؤثر انداز میں اپنے ہاں جمع ہو جانے والے زہریلے مادوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق سے وابستہ اور البرٹ آئن سٹائن کالج کے پروفیسر' ڈاکٹر مائیکل تھارپی کہتے ہیں:''دوران تحقیق ہم نے گلائیمفٹیک نظام (glymphatic system) پر توجہ مرکوز رکھی۔ دماغ اور ہمارے اعصابی نظام کا یہ حصہ ان میں جمع ہونے والے زہریلے مادوں کی صفائی کا ذمے دار ہے۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ گلائیمفٹیک نظام رات کو حرکت میں آتا ہے جب ہم نیند کے مزے لوٹ رہے ہوں۔ تب وہ سارے زہریلے عناصر صاف کر ڈالتا ہے۔''
گلائیمفٹیک نظام دماغ اور اعصاب کے خلیوں کے مابین موجود خلا بڑھا دیتا ہے۔ پھر نظام کا سیر یبرو سپائنل مادہ (cerebrospinal fluid)سارا ''گنک'' (gunk) بہا لے جاتا ہے۔ ( دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرنے والے زہریلے مواد سائنسی اصطلاح میں ''گنک'' کہلاتے ہیں۔)ان زہریلے مادوں میں بی۔ ایملوئڈ پروٹین بھی شامل ہے۔ یہی مادہ ہمارے دماغ میں خطرناک الزائمر مرض کو جنم دینے والا بلاک بناتا ہے ۔ دن بھر کام کاج کے دوران بی ایملوئڈ پروٹین اور دیگر زہریلا مواد ہمارے دماغ میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ جب ہم نیند لیں' تو دماغ سارے زہریلے مادوں سے چھٹکارا پالیتا ہے۔
درج بالا حقائق آشکارا کرتے ہیں کہ ہر انسان کو روزانہ مطلوبہ گھنٹے کی نیند لینی چاہیے ۔ اگر وہ کم سوئے' تو اس کے دماغ میں زہریلے مادے جمع ہو کر اسے الزائمر مرض سمیت دیگر طبی خرابیوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
(3) قوت ادراک کی مدد گار
ایک عام انسان بھی یہ سچائی جانتا ہے کہ کم نیند لینے سے اس کی قوت ادراک کمزور ہو جاتی ہے۔ جدید طبی تحقیق کہتی ہے کہ کمیِ نیندسے سوچنے سمجھنے کی انسانی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے' انسان توجہ سے کام نہیں' کر پاتا اور بعض اوقات غلط فیصلے کر بیٹھا ہے۔ڈاکٹر مائیکل تھارپی کا کہنا ہے:
''ماہرین اب جان چکے کہ انسان اگر بیک وقت دو تین ذہنی کام کرنا چاہتا ہے' تو ضروری ہے کہ وہ مناسب نیند لے۔ نیند کی کمی سے تمام ''ملٹی ٹاسک'' کام متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرائیونگ کو لیجیے۔ یہ کام کرتے ہوئے انسان کے کئی اعضا... ہاتھ' پیر' نظر'اردگرد کا شعور استعمال ہوتے ہیں۔ مگر ڈرائیور مناسب نیند نہ لے تو اس کا ملٹی ٹاسک انجام دینے والا دماغی نظام گڑ بڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے' کاروں سے لے کر ریلوں تک اکثر بدقسمت حادثات کے ذمے دار نیند کی کمی سے دو چار ڈرائیور ہوتے ہیں۔''
نیند کی کمی ہماری توجہ دینے کی صلاحیت اور روزمرہ کام کاج میں مدد دینے والی (ورکنگ) یاد داشت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے ماہرین نے دوران تحقیق ایک انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے پندرہ مرد وزن کو مسلسل دو ہفتے دو گھنٹے کی نیند سے محروم رکھا۔ پھر دن بھر ان کی سرگرمیاں نوٹ کی گئیں ۔ اس تجربے نے آشکارا کیا کہ کمیِ نیند نے مرد وزن کے ان کاموں کو ازحد متاثر کیا' ارتکاز توجہ اور مختصر مدت (شارٹ ٹرم) والی یادداشت سے متعلق تھے۔
(4) تخلیقیت نیند مانگتی ہے
زمانہ قدیم سے انسان یہ حقیقت جان چکا کہ جب وہ مناسب نیند لے کر اٹھے تو تازہ دم اور ہشاش بشاش ہوتا ہے۔ اسی وقت انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ نیند لینے سے قوت تخلیقیت کو جلا ملتی ہے جبکہ انسان کم نیند لے' تو اس کی تخلیقی قوتیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
دوران تحقیق ماہرین پر منکشف ہوا کہ جب لوگ کمی نیند کا شکار ہوں' تو ان کی ''اختلافی خیالی قوت''(divergent thinking)کو ضعف پہنچتا ہے۔اختلافی خیالی قوت سوچ بچار کی ایک اہم قسم ہے۔اس کی مدد سے انسان نت نئے تصّورات ذہن میں لاتا ہے۔اس خیالی قوت کے سہارے بنی نوع انسان رنگ برنگ ایجادات منصفہ شہود میں لایا اور سائنس وٹیکنالوجی کے جدید دور کی بنیاد رکھی۔گویا اختلافی خیالی قوت انسان میں تخلیق کا منبع ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ نیند کی کمی سے ہماری ''مرتکز خیالی طاقت''(convergent thinking)کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔ہم سوچ بچار کی اسی قوت کے ذریعے کسی مسئلے کا درست حل ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ جو مردوزن مطلوبہ نیند لے لیں،وہ اس معاملے میں بھی بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔خاص طور پر نیند لینے سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بہت بڑھ جاتی ہیں۔اکثر جب لوگ پوری نیند لے کر بیدار ہوں،تو اچانک کوئی نیا اور اچھوتا خیال ان کے دماغ میں آن دھمکتا اور بعض اوقات زندگی تک بدل ڈالتا ہے۔
(5)ڈپریشن کی قاتل
نیند اور ڈپریشن میں چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ڈپریشن کا شکار مرد وزن عموماً کمی ِنیند میں مبتلا رہتے ہیں اور آسانی سے سو نہیں پاتے۔یا پھر ہر وقت ان پہ غنودگی چھائی رہتی ہے۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ انسان مطلوبہ گھنٹے نیند نہ لے تو اس کا ڈپریشن مذید گھمبیر ہو جاتا ہے۔اب ڈاکٹر نیند کی مدت جان کر بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ ڈپریشن کس سطح پر ہے۔ان کی رو سے جو انسان رات کو چھ گھنٹے سے کم یا آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیند لے،وہ خاصی حد تک ڈپریشن کا نشانہ بنا ہوتا ہے۔
دور جدید میں بے خوابی( insomnia)ایک عام بیماری بن چکی۔بے خوابی کے مریض عموماً ڈپریشن اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔نیند اور ڈپریشن میں قریبی تعلق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈپریس افراد کے دماغ میں وہ حصہ گڑبڑا جاتا ہے جو انسانوں میں ''نیند کا نظام''(circadian rhythm)کنٹرول کرتا ہے۔یہی نظام متعلقہ جسمانی اعضا کی مدد سے انسان کو وقت پر سلاتا اور جگاتا ہے۔
(6)طویل عمر کی ضامن
دماغ کے برعکس انسانی جسم کو نیند کی لازمی ضرورت نہیں مگر یہ قدرتی نعمت کئی بیماریوں اور طبی خللوں کو ہم سے دور رکھنے میں کام آتی ہے۔نیند کی کمی سے انسان کو کینسر(جسمانی سوزش میں اضافے کے باعث)،بلڈ پریشر،امراض قلب اور موٹاپے جیسی موذی بیماریاں چمٹ سکتی ہیں۔طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کو ہر رات چھ گھنٹے سے زیادہ مگر آٹھ گھنٹے سے کم نیند لینی چاہیے۔یہ اعتدال پسندانہ نیند ہے۔جبکہ نیند کی زیادتی طبّی طور پر نقصان دہ ہے۔
(7)بچوں کو سونے دیجیے
انسانوں میں بچوں کو سب سے زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر وہ نیند نہ لیں تو ان کا روزمرہ معمول تلپٹ ہو جاتا ہے۔لہذا بچوں کو ہرگز نیند سے محروم نہ رکھیں ورنہ ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایک آئرش کہاوت ہے ''ہنسئے، سبھی آپ کے ساتھ ہنسیں گے۔ خراٹے لیجیے، آپ اکیلے سوئیں گے۔'' یہ کہاوت خراٹے لینے والوں پر لطیف طنز ہے تاہم نیند کی افادیت سے انکار نہیں کرتی۔
حقیقت یہ ہے کہ نیند فطرت کے ان عظیم ترین تحائف میں سے ایک ہے جو اشرف المخلوقات کو عطا ہوئے۔ بیسویں صدی میں سائنس کا بول بالا ہوا، تو بعض مغربی ماہرین کے اذہان میں اس خیال نے جنم لیا کہ آخر انسان سوتا کیوں ہے؟ دراصل وہ نیند کی تاریخ جاننا چاہتے تھے۔ چناں چہ پچھلے پچاس ساٹھ برس سے نیند کی ماہیت و تاریخ کا سراغ لگاتے لگاتے اربوں ڈالر تحقیق پر خرچ ہوچکے۔ اس تحقیق سے بہرحال دلچسپ و نادر معلومات بنی نوع انسان پر عیاں ہوئی۔
ہم کیوں سوتے ہیں؟... اس سوال کے مختلف جواب وجود میں آچکے۔ مثلاً ماہرین ارتقا کا دعویٰ ہے کہ نیند کی وجہ سے لاکھوں سال پہلے کے قدیم انسانوں کویہ سہولت مل گئی کہ وہ رات کے وقت شکار کرنے والے خونخوار حیوانوں سے بچ اور دور رہ سکیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیںکہ نیند کی مدد سے انسان اپنی جسمانی و ذہنی توانائی بچانے کے قابل ہوگیا۔
بعض جواب مزے دار ہیں۔ مثلاً والدین مذاقاً کہتے ہیں کہ اگر نیند نہ ہوتی، تو نٹ کھٹ بچے ان کا تیا پانچہ کر ڈالتے۔ یہ نیند ہی انہیں وقفہِ آرام بہم پہنچاتی اور شرارتی بچوں سے پناہ فراہم کرتی ہے۔ غرض طبی تحقیق رفتہ رفتہ نیند کی بہت سی خوبیاں سامنے لے آئی۔اکیسویں صدی میں تحقیق نے انکشاف کیا کہ کارخانہِ جسمِ انسانی کے مرکز ''دماغ'' کے لیے تو نیند آب حیات جیسی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ نیند ہی ہے جس کی بدولت دماغ دن بھر کی تھکن اتار کر تازہ دم ہوجاتا ہے۔انسان جب محو خواب ہو، توبظاہر نیم مردہ دکھائی دیتا ہے۔ تب یہی لگتا ہے کہ اس کے سارے اعضا بھی ساکن و ساکت ہیں۔ مگر انسانی دماغ کی مخصوص مشینری ان پُرسکون لمحات میں بھی خوب رواں دواں ہوتی ہے۔ دراصل دماغ کے بہت سے حصّے سارا دن کام کرنے کے باعث شکست و ریخت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خصوصی مشینری ہی ٹھونک بجا کر ان کے کل پرزے درست کرتی اور دوبارہ قابل استعمال بناتی ہے۔ گویا ہماری نیند میں بھی دماغ کا پیچیدہ ترین نظام اپنے کاموں میں محو رہتا ہے۔
رنیڈ کارپوریشن کا شمار دنیا کے بڑے تھنکس ٹینکس میں ہوتا ہے۔ اس امریکی ادارے سے منسلک سائنس داں پچھلے پانچ برس سے یہ تحقیق کرنے میں محو تھے کہ نیند انسان پر کس قسم کے جسمانی و ذہنی اثرات مرتب کرتی ہے؟ اور یہ کہ نیند کی کمی کے کیا نقصانات ہیں۔ حال ہی میں اس پانچ سالہ تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ نیند کی کمی کے باعث لاکھوں امریکی نہ صرف دفاتر میں خراب کارکردگی دکھاتے بلکہ اکثر چھٹیاں بھی کرتے ہیں۔ چناں چہ ہر سال صرف امریکی معیشت کو کمیِ نیند کی وجہ سے 410 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مناسب نیند نہ لینے سے جنم لینے والی خرابیوں کا یہ معاشی پہلو ہے۔ رنیڈ کارپوریشن کے سائنس دانوں کی تحقیق سے نیند کی جو مزید طبی خوبیاں و خامیاں آشکارا ہوئیں، وہ درج ذیل ہیں۔
(1) یادداشت بہتر بنائے
نیند کے اہم ترین فوائد میں یہ ایک ہے کہ وہ انسانی دماغ میں طویل المیعاد یادوں کو مضبوط و مستحکم بنادیتی ہے۔ یہ کام وہ تندو تیز دماغی خلیوں(نیورونز) کے مابین بندھنوں کو مضبوط بناکر انجام دیتی ہے۔ یہی نہیں، دماغ نیند کی مدد سے غیر ضروری یادیں بھی تلف کردیتا ہے۔دن میں دماغی خلیے سیکڑوں یادوں پر مشتمل بندھن تخلیق کرتے ہیں۔ مگر سبھی یادیں اس لائق نہیں ہوتیں کہ انہیں مستقل بنیادوں پر محفوظ کیا جائے۔چناںچہ دوران نیند ہی دماغ سکیڑوں یادوں کی چھان پھٹک کرتا اور غیر ضروری یا دیں ضائع کر دیتا ہے۔
اکثر لوگوںنے نوٹ کیا ہو گا کہ جب وہ سات آٹھ گھنٹے کی نیند لے کر بیدار ہوں' تو پچھلے دن سیکھی گئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے کہ دماغ دوران نیند سیکھنے سے وابستہ یادوں کو پختہ و مستحکم بنا دیتا ہے۔ دماغ کو علم ہے کہ اس کے مالک کو ان یادوں کی ضرورت ہے جبکہ عام یادوں کے بندھن قصّہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم بیداری میں انسان بیشتر وقت منفی خیالات میں گھرا رہے ' تو اس کے دماغ میں یادیں منظم کرنے والا شعبہ بھی یہی رخ اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا جب ایسا انسان نیند لے' تو دماغ اس کی منفی یادوں کو پائیداربنادیتا ہے' جبکہ مثبت یادیں عموماً ضائع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے منفی خیالات میں گھرا رہنے والا انسان بتدریج بدی کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ وجہ یہی کہ اس کا دماغ منفی و شرانگیز یادوں کو پختہ بناتا رہتا ہے۔چناںچہ منفی یادوں کے زیر اثر وہ شیطانی کام انجام دینے لگتا ہے۔ گویا ایک انسان کو مجرم بنانے میں پختہ ہوجانے والی یادوں کا بھی اہم کردار ہے۔
(2) زہریلے مادوں کا خاتمہ
رینڈ کارپوریشن کی تحقیق نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جب ہم سو رہے ہوں' تو ہمارا دماغ زیادہ مؤثر انداز میں اپنے ہاں جمع ہو جانے والے زہریلے مادوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق سے وابستہ اور البرٹ آئن سٹائن کالج کے پروفیسر' ڈاکٹر مائیکل تھارپی کہتے ہیں:''دوران تحقیق ہم نے گلائیمفٹیک نظام (glymphatic system) پر توجہ مرکوز رکھی۔ دماغ اور ہمارے اعصابی نظام کا یہ حصہ ان میں جمع ہونے والے زہریلے مادوں کی صفائی کا ذمے دار ہے۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ گلائیمفٹیک نظام رات کو حرکت میں آتا ہے جب ہم نیند کے مزے لوٹ رہے ہوں۔ تب وہ سارے زہریلے عناصر صاف کر ڈالتا ہے۔''
گلائیمفٹیک نظام دماغ اور اعصاب کے خلیوں کے مابین موجود خلا بڑھا دیتا ہے۔ پھر نظام کا سیر یبرو سپائنل مادہ (cerebrospinal fluid)سارا ''گنک'' (gunk) بہا لے جاتا ہے۔ ( دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرنے والے زہریلے مواد سائنسی اصطلاح میں ''گنک'' کہلاتے ہیں۔)ان زہریلے مادوں میں بی۔ ایملوئڈ پروٹین بھی شامل ہے۔ یہی مادہ ہمارے دماغ میں خطرناک الزائمر مرض کو جنم دینے والا بلاک بناتا ہے ۔ دن بھر کام کاج کے دوران بی ایملوئڈ پروٹین اور دیگر زہریلا مواد ہمارے دماغ میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ جب ہم نیند لیں' تو دماغ سارے زہریلے مادوں سے چھٹکارا پالیتا ہے۔
درج بالا حقائق آشکارا کرتے ہیں کہ ہر انسان کو روزانہ مطلوبہ گھنٹے کی نیند لینی چاہیے ۔ اگر وہ کم سوئے' تو اس کے دماغ میں زہریلے مادے جمع ہو کر اسے الزائمر مرض سمیت دیگر طبی خرابیوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
(3) قوت ادراک کی مدد گار
ایک عام انسان بھی یہ سچائی جانتا ہے کہ کم نیند لینے سے اس کی قوت ادراک کمزور ہو جاتی ہے۔ جدید طبی تحقیق کہتی ہے کہ کمیِ نیندسے سوچنے سمجھنے کی انسانی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے' انسان توجہ سے کام نہیں' کر پاتا اور بعض اوقات غلط فیصلے کر بیٹھا ہے۔ڈاکٹر مائیکل تھارپی کا کہنا ہے:
''ماہرین اب جان چکے کہ انسان اگر بیک وقت دو تین ذہنی کام کرنا چاہتا ہے' تو ضروری ہے کہ وہ مناسب نیند لے۔ نیند کی کمی سے تمام ''ملٹی ٹاسک'' کام متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرائیونگ کو لیجیے۔ یہ کام کرتے ہوئے انسان کے کئی اعضا... ہاتھ' پیر' نظر'اردگرد کا شعور استعمال ہوتے ہیں۔ مگر ڈرائیور مناسب نیند نہ لے تو اس کا ملٹی ٹاسک انجام دینے والا دماغی نظام گڑ بڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے' کاروں سے لے کر ریلوں تک اکثر بدقسمت حادثات کے ذمے دار نیند کی کمی سے دو چار ڈرائیور ہوتے ہیں۔''
نیند کی کمی ہماری توجہ دینے کی صلاحیت اور روزمرہ کام کاج میں مدد دینے والی (ورکنگ) یاد داشت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے ماہرین نے دوران تحقیق ایک انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے پندرہ مرد وزن کو مسلسل دو ہفتے دو گھنٹے کی نیند سے محروم رکھا۔ پھر دن بھر ان کی سرگرمیاں نوٹ کی گئیں ۔ اس تجربے نے آشکارا کیا کہ کمیِ نیند نے مرد وزن کے ان کاموں کو ازحد متاثر کیا' ارتکاز توجہ اور مختصر مدت (شارٹ ٹرم) والی یادداشت سے متعلق تھے۔
(4) تخلیقیت نیند مانگتی ہے
زمانہ قدیم سے انسان یہ حقیقت جان چکا کہ جب وہ مناسب نیند لے کر اٹھے تو تازہ دم اور ہشاش بشاش ہوتا ہے۔ اسی وقت انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ نیند لینے سے قوت تخلیقیت کو جلا ملتی ہے جبکہ انسان کم نیند لے' تو اس کی تخلیقی قوتیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
دوران تحقیق ماہرین پر منکشف ہوا کہ جب لوگ کمی نیند کا شکار ہوں' تو ان کی ''اختلافی خیالی قوت''(divergent thinking)کو ضعف پہنچتا ہے۔اختلافی خیالی قوت سوچ بچار کی ایک اہم قسم ہے۔اس کی مدد سے انسان نت نئے تصّورات ذہن میں لاتا ہے۔اس خیالی قوت کے سہارے بنی نوع انسان رنگ برنگ ایجادات منصفہ شہود میں لایا اور سائنس وٹیکنالوجی کے جدید دور کی بنیاد رکھی۔گویا اختلافی خیالی قوت انسان میں تخلیق کا منبع ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ نیند کی کمی سے ہماری ''مرتکز خیالی طاقت''(convergent thinking)کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔ہم سوچ بچار کی اسی قوت کے ذریعے کسی مسئلے کا درست حل ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ جو مردوزن مطلوبہ نیند لے لیں،وہ اس معاملے میں بھی بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔خاص طور پر نیند لینے سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں بہت بڑھ جاتی ہیں۔اکثر جب لوگ پوری نیند لے کر بیدار ہوں،تو اچانک کوئی نیا اور اچھوتا خیال ان کے دماغ میں آن دھمکتا اور بعض اوقات زندگی تک بدل ڈالتا ہے۔
(5)ڈپریشن کی قاتل
نیند اور ڈپریشن میں چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ڈپریشن کا شکار مرد وزن عموماً کمی ِنیند میں مبتلا رہتے ہیں اور آسانی سے سو نہیں پاتے۔یا پھر ہر وقت ان پہ غنودگی چھائی رہتی ہے۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ انسان مطلوبہ گھنٹے نیند نہ لے تو اس کا ڈپریشن مذید گھمبیر ہو جاتا ہے۔اب ڈاکٹر نیند کی مدت جان کر بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ ڈپریشن کس سطح پر ہے۔ان کی رو سے جو انسان رات کو چھ گھنٹے سے کم یا آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیند لے،وہ خاصی حد تک ڈپریشن کا نشانہ بنا ہوتا ہے۔
دور جدید میں بے خوابی( insomnia)ایک عام بیماری بن چکی۔بے خوابی کے مریض عموماً ڈپریشن اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔نیند اور ڈپریشن میں قریبی تعلق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈپریس افراد کے دماغ میں وہ حصہ گڑبڑا جاتا ہے جو انسانوں میں ''نیند کا نظام''(circadian rhythm)کنٹرول کرتا ہے۔یہی نظام متعلقہ جسمانی اعضا کی مدد سے انسان کو وقت پر سلاتا اور جگاتا ہے۔
(6)طویل عمر کی ضامن
دماغ کے برعکس انسانی جسم کو نیند کی لازمی ضرورت نہیں مگر یہ قدرتی نعمت کئی بیماریوں اور طبی خللوں کو ہم سے دور رکھنے میں کام آتی ہے۔نیند کی کمی سے انسان کو کینسر(جسمانی سوزش میں اضافے کے باعث)،بلڈ پریشر،امراض قلب اور موٹاپے جیسی موذی بیماریاں چمٹ سکتی ہیں۔طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کو ہر رات چھ گھنٹے سے زیادہ مگر آٹھ گھنٹے سے کم نیند لینی چاہیے۔یہ اعتدال پسندانہ نیند ہے۔جبکہ نیند کی زیادتی طبّی طور پر نقصان دہ ہے۔
(7)بچوں کو سونے دیجیے
انسانوں میں بچوں کو سب سے زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر وہ نیند نہ لیں تو ان کا روزمرہ معمول تلپٹ ہو جاتا ہے۔لہذا بچوں کو ہرگز نیند سے محروم نہ رکھیں ورنہ ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔