بُک شیلف
دلچسپ اور عمدہ کتابوں کے احوال۔
رات بہت ہوا چلی (شاعری)
شاعر: رئیس فروغ،
صفحات: 364، قیمت: 800 روپے، ناشر: طارق رئیس فروغ
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں، اتنا برا تو میں بھی ہوں
60 اور 70 کی دہائی میں کراچی میں جن شعرا کا چرچا رہا، رئیس فروغ ان میں سے ایک۔ لیکن میدان ادب میں چرچا ہونا کافی نہیں صاحب۔ بات تو تب بنے گی، جب آپ کی بات دلوں میں اتر جائے، وہاں گھر کر جائے۔ اب آپ کے اشعار کتابوں کے محتاج نہیں رہتے۔ رئیس فروغ کی تخلیقی قوت نے یہ اہم مرحلہ سہولت سے طے کیا۔ فرماتے ہیں:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
اُن کی شاعری نہ صرف اپنے تازہ موضوعات کے باعث قابل توجہ ٹھہری، بلکہ اُن احساسات کے باعث بھی دل پذیر قرار پائی، جن کے بانکپن نے سامع کو متوجہ کیا۔ آگے کا کام لفظیات، تشبیہات اور استعاروں کے متوازن برتاؤ نے سنبھالا، اور یوں اُن کے چاہنے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔
اک اپنے سلسلے میں اہل یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں، اِس کے علاوہ نہیں ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صَرف ہُوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
اُن کی غزل میں عصری شعور دوڑتا ہے۔ البتہ عصری شعور انھیں کلاسیکی روایات کا باغی نہیں بناتا۔ یہ توازن اُن کے کلام کا حُسن۔
کیا پوچھتے ہو یار کہ سیدھی سی بات ہے
جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں وہ گھر گئے
سہل ممتنع کا عنصر ہے۔ جدت بھی جھلکتی ہے:
باتیں سڑک پر رہ جاتی ہیں
ساتھی دور نکل جاتے ہیں
نظموں میں جدید رنگ واضح ہے۔ وہ زمانے کی ہم رکاب ہیں۔
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہ سر بہ فلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے!
رئیس فروغ صاحب کا ایک ہی مجموعہ ''رات بہت ہوا چلی'' 82ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ اِسی مجموعے کا دوسرا ایڈیشن۔ اہتمام کیا اُن کے صاحب زادے، طارق رئیس فروغ نے۔ اچھا، کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے رئیس صاحب کا غیرمطبوعہ کلام شایع کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یقینی طور پر وہ کتاب سامعین کے لیے ایک تحفہ ہوگی۔
اے دل آوارہ (ناول)
مصنف: شموئل احمد
صفحات: 128، قیمت: 300 روپے
ناشر: رنگ اب پبلی کیشنز، کراچی
''مجھے سگریٹ پینے والی عورتیں اچھی لگتی ہیں، لیکن میرے حلقۂ احباب میں ایسی تخلیق کارہ نہیں ہے، جسے سگریٹ نوشی کا شوق ہو۔''
فکشن لکھنا، یا کہہ لیجیے اچھا فکشن لکھنا وہ صلاحیت، جس کے لیے قدرت پر تکیہ کرنا کافی نہیں۔ آمد ایک تحفہ، مگر فقط اِسی پر انحصار مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہاں آورد کی بڑی اہمیت۔ ان الفاظ کا انتخاب، جو خیال کے ترجمان بنیں۔ ضرورت ہو، تو بہتی ندی، تقاضا ہو، تو منہ زور دریا۔ پھر گُتھا ہوا پلاٹ، جو قاری کو باندھ لے، مضبوط کردار، جو چاہے آدھے صفحے کا ہو، قاری کے ذہن پر نقش ہوجائے، آخر میں تیکنیک۔ الغرض ڈھیروں تقاضے پورے کیے جائیں، تب فکشن کا بیانیہ بنتا ہے۔ شموئل احمد کی خوبی یہی صاحب کہ اُن کے ہاں یہ تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ زور آور فکشن نگار ہیں۔ ہندوستان میں اُن کا بڑا چرچا۔ افسانے اور ناول؛ دونوں مقبول۔ پاکستان میں بھی اب تذکرہ ہونے لگا ہے، مگر اس تواتر سے نہیں، جیسا ہونا چاہیے۔
زیرتبصرہ کتاب ''اے دل آوارہ'' کا سرورق اِسے ناول قرار دیتا ہے۔ ''عمر گذشتہ کی کتاب'' کا عنوان بھی ہے۔ جانے یہ ناشر کا فیصلہ تھا یا صاحب کتاب کا۔ اچھا فکشن نگار Narrative nonfiction اتنے پراثر ڈھب پر لکھتا ہے کہ اس پر فکشن ہی کا گمان ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی معاملہ اس کتاب کا۔ جی ہاں، شاید اسے ناول نہ ٹھہرایا جاسکے، مگر ناول نما یا یادداشتیں نما کہا جاسکتا ہے۔ کہانی پن ہے، مگر پلاٹ نہیں۔ یادداشتیں ہیں، مگر ایسے مناظر کی طرح، جن میں ربط نہ ہو۔ ویسے ربط کی ضرورت بھی نہیں۔ بلا کا بہاؤ ہے۔ شعور کی رو ہے۔ وہ مناظر تو بیش قیمت، جہاں شموئل احمد وہ یادیں بیان کرتے ہیں، جنھوں نے اُنھیں ''سنگھار دان'' اور ''بگولے'' جیسی کہانیاں عطا کیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:''میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا، مجھے کہانی سوجھتی نہیں ہے۔ مجھے کہانی مل جاتی ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ بس، دیکھنے والی نظر چاہیے۔''
شموئل احمد علم نجوم میں بھی گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے جوتشی مشہور۔ اس مختصر سی کتاب میں ہماری اس جوتشی سے بھی ملاقات ہوتی ہے، جو دل چسپی کو مہمیز کرتا ہے۔ ایک جگہ لکھا: ''میں علم الاعداد اور حروف کے اسرار پر ایک مفصل کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔'' زندگی کے بیش قیمت تجربات بھی ہیں: ''بوڑھے کے پاس مستقبل نہیں ہوتا، اس کے پاس صرف یادیں ہوتی ہیں!''
پاکستان میں شموئل احمد کی تخلیقات کی اشاعت احسن اقدام ہے۔ امید ہے، ناشر کی جانب اِس سلسلے کو بڑھایا جائے گا۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
تاریخ اسلام کی عظیم جنگیں
مصنف: سعیدالدین ہاشمی،قیمت:400 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک، اردوبازار ،لاہور
اسلام سلامتی اور امن کو پسند کرتاہے، وہ جنگ کو ناپسند کرتاہے لیکن اگر دشمن جنگ مسلط کردے تو پھر وہ ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتاہے۔ اگراسلام جنگ کی اجازت دیتاہے تو وہ امن قائم کرنے کے لئے۔ پھر اس جنگ کے اصول متعین کرتاہے کہ جنگ میں درخت نہیں کاٹنے،بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا احترام کرناہے، دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں اور عمارتوں کو نقصان نہیں پہچانا، جنگ میں جو فرار ہورہے ہوں انھیں بھی ہلاک نہیں کرنا، مریضوں کو بھی ضرر نہ پہنچے، عبادت گاہوں کی خدمت کرنیوالوں کو بھی ہلاک نہیں کرنا، جانور اور مویشی بھی محفوظ رہنے چاہیں، قیدیوں کو بھی ہلاک نہیں کرنااورہاں! کسی کو زبردستی دائرہ اسلام میں نہیں لانا۔ جب ایک مذہب اپنے پیروکاروں کو ایسی ہدایات دے رہاہو تو اس کے بارے میں یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ وہ مذہب تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔زیرنظر کتاب میں تاریخ اسلام کی چند مشہور جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کی ابتدا حق و باطل کے اولین معرکہ غزوہ بدر سے ہوئی، پہلے حیات پاک ﷺ کی چند جنگوں کا ذکر ہے، پھر حضرت خالد بن ولید ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ کی جنگوں کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ تاریخ اسلام کے مشہور سلاطین نے غیرمسلموں سے جو جنگیں کیں، ان کا بھی ذکر ہے۔
یہ ایسی ولولہ خیز داستان ہے جو رگوں میں خون کی گردش کو دوبالا کردیتی ہے، ہمارے سرفخر سے بلند کردیتی ہے، ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم خود کو بھی تاریخ کا مسافر سمجھنے لگتے ہیں، خود کو اسی مقام اور اس عہد میں پاتے ہیں۔ ہماری رگوں کا خون جوش مار کر ابلنے لگتاہے۔ ہمارے سرخود بخود تاریخ اسلام کے ان مجاہدین کے احترام میں عقیدت و محبت سے جھکتے چلے جاتے ہیں۔
( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
زنجبار سے پاکستان
مصنف : علی غلام حسین زنجباری
صفحات: 199 ،قیمت: 30روپے
ناشر: ماہنامہ '' آتش فشا ں '' ستلج بلاک ، لاہور
یہ کتاب دراصل زنجبار سے سوڈان ، مصر، لبنان ، شام ، عراق اور ایران پاکستان تک کا سفر نامہ ہے جو آج سے نصف صدی سے بھی قبل کیا گیا تھا اور یہ عرصہ چارسال میں ختم ہوا تھا جو باتیں اس کتاب میں لکھی گئی ہیں وہ مصنف کے بقول'' نہ تو کسی سے سنی ہیں اور نہ ہی کسی نے کہی ہیں یہ سب واقعات میں نے اپنی نظروں سے دیکھے ہیں۔ یہ سارے واقعات و حالات حقیقی ہیں۔ تاہم اندازِ تحریر افسانوی ہے ''۔ ساراسفر نامہ انتہائی دلچسپ اور تحیر انگیز واقعات اور گرانقدر معلومات سے مزین ہے۔ چونکہ وہ یہ تمام سفر پیدل یا بائیسکل اور بحری جہاز کے ذریعے کرتے رہے اس لیے مصنف کے مشاہدات میں ایک خاص تنوع کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے یہی چیز انہیں دوسرے سفرنامہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ سفر نامہ روائتی سفرناموں سے اس لیے بھی مختلف اور منفرد ہے کہ زیب داستاں کے لیے اس میں فرضی کردار شامل نہیں کیے گئے بلکہ وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو سفر نامہ نگار کو درپیش آتا رہاہے یا جن حالات کا انہیں سامنا رہا ہے۔ اس طرح یہ بلا خوف ِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ چند اوریجنل سفرناموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ سفر نامہ پڑھنے کے خواہش مند افراد کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔
( تبصرہ نگار شہباز انورخان )
ہاتھ قلم رکھنا (مضامین)
اہتمام: ایوب ملک، صفحات: 246، قیمت: 1200 روپے، ناشر: بدلتی دنیا پبلی کیشنز، اسلام آباد
وہ تو یہ کہیے کہ ہم تھے، آج بھی زندہ ہیں ہم
ورنہ ان حالات میں بے موت مرجاتے ہیں لوگ
زیرتبصرہ کتاب ممتاز شاعر، خالد علیگ کی بابت ہے، جنھیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری پختہ سماجی شعور، مثبت انقلابی سوچ اور توانا فکر و نظر کا شاعر کہہ کر پکارتے ہیں، اور سرشار صدیقی ایک درویش صفت انسان ٹھہراتے ہیں۔ پروفیسر آفاق صدیقی کو اُن کی غزلوں میں منفرد رنگ و آہنگ نظر آتا ہے، سرور جاوید مزاحتمی شاعری کے کارواں میں اُن کی اولیت کا ذکر کرتے ہیں، اور جاذب قریشی کے بہ قول: ''خالد علیگ کی نامیاتی درویشی نے اور اُن کے فنی بانکپن نے اُن کی شخصیت اور شاعری کو ایک زندہ وجود بنا دیا ہے!''
ان ابتدائی سطروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب خالد علیگ سے متعلق تحریر کردہ، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب میں 34 مضامین شامل ہیں۔ جہاں سنیئر لکھاریوں کے نام دکھائی دیتے ہیں، وہیں نئی نسل کے شاعروں، ادیبوں کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ منظر ایوبی کے مضمون کا ابتدائیہ ''خالد علیگ کے مسلک شعر گوئی کی بنیادی شق یہ ہے کہ ادب خلائوں میں تخلیق نہیں ہوتا!'' اِس بڑے تخلیق کار کے طرز ادب پر بلیغ انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ فلیپ پر احفاظ الرحمان اور سرور جاوید کی رائے درج ہے۔ احفاظ الرحمان کے بہ قول: ''خالد بھائی کا منفرد اسلوب، جداگانہ لب و لہجہ اور الفاظ کا دل نشیں دروبست اردو اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے کا ثمر ہے۔ ان کی لفظیات اور ان کے وضع کردہ استعاروں، تراکیب اور امیجری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا رچائو اپنے بھرپور حسن اور بانکپن کے ساتھ موجود ہے۔''
سرور جاوید لکھتے ہیں: ''شخصیت کی شفافیت اُن پر اپنی تکمیل کرتی نظر آتی تھی۔ اُن کے قول و فعل میں کبھی ذرہ برابر بھی دوئی نہیں پائی گئی!''
یہ ایک قابل مطالعہ کتاب ہے، جو قارئین کو ایک کھرے شاعر کے فن و شخصیت سے متعارف کروانے میں معاون رہے گی۔ ڈسٹ کور کے ساتھ معیاری کاغذ پر شایع ہونے والی یہ خوب صورت کتاب نشر و اشاعت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ البتہ قیمت کچھ زیادہ ہے۔ ایوب ملک قابل مبارک باد ہیں کہ وہ اس درویش صفت اور توانا شاعر کی یاد تازہ رکھنے کے لیے کئی کتابیں شایع کر چکے ہیں۔آخر میں جناب خالد علیگ کے دو اشعار:
زندگی تو ہی بتا تجھ سے بھلا کیا پایا
زندگی، کب ترا احسان لیا ہے میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سانچے میں آرام سے ڈھل جاتے ہیں کچھ لوگ
ہم بے ہُنروں کو یہ ہنر کیوں نہیں آتا
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
جگجیت سنگھ (غزلیں نظمیں گیت)
مرتب: گل شیربٹ،قیمت: 600 روپے،ناشر: بک کارنر،جہلم
کسی نے کہاتھا کہ جب دھیمے سروں کی بات ہو، کانوں کو بھلی لگنے والی آواز ہو، سخت اداسی کے دنوں میں، من مندر میں خاموشی کی بجتی ہوئی گھنٹیاں ہوں، دور کسی شام کے پار افق پر ناچتے شبد ہوں، آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوں اور دکھ کی لے پہ ایک آواز آپ کو اپنے اندر اترتی محسوس ہو تو سمجھ لیجئے گا کہ کہیں قریب ہی یا آپ کے اندر جگجیت سنگھ آپ کو شانت ہو جانے کو کہہ رہا ہے۔ لوگوں کو جگجیت کو سنتے رہنے کی ایک وجہ وہ کلام بھی ہے جس کا انتخاب جگجیت سنگھ نے کیا لیکن سب سے نمایاں وجہ اس کی آواز تھی جس میں سکون آور درد ہوتا تھا، بڑا سلجھا ہوا درد ۔ لوگ اپنے اندر الجھاؤ محسوس کرتے ہیں تو جگجیت سنگھ ان کی محبت میں سلجھاؤ پیدا کردیتے ہیں۔ ایک شخص نے بڑے تیقن سے کہا تھا کہ اگر آپ محبت کرنے سے پہلے جگجیت سنگھ کو سننا شروع کردیں تو آپ کا انتخاب بدل جائے گا۔
زیرنظر کتاب انہی غزلوں، نظموں اور گیتوں کا مجموعہ ہے جو جگجیت سنگھ نے اپنی مدھر آواز میں گائے۔مرتب نے زمانی ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ ترتیب دیا۔آزادی کے بعد بھارت میں غزل گائیکی کے فن کے حالات اچھے نہیں رہے تھے لیکن جگجیت نے اس فن کو دوبارہ زندہ کیا اور غزل کو درباروں یا ادب کی محفلوں سے نکال کر عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جگجیت سنگھ غزل گلوکاری کے لیے بھارت میں تو مشہور ہیں ہی لیکن ان کے مداح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت جب اردو اور غزل انحطاط کا شکار تھے جگجیت نے دونوں کا مقدر سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس لئے یہ کتاب جہاں موسیقی سے شغف ر کنے والوں کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں وہیں اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے بھی اس تخلیقی و تحقیقی شاہکار سے مستفید ہوں گے۔
رسیدی ٹکٹ(خودنوشت)
مصنفہ: امرتا پریتم،قیمت:600 روپے،ناشر:بک کارنر ،جہلم
ستانوے برس قبل امرتا پریتم گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں، گیارہ برس قبل دہلی میں انتقال کرگئیں۔بس! اتنی سی کہانی ہے انسان کی۔ تاہم یہ ایک بھرپور کہانی ہے، سو سے زائد کتابیں جس میں شاعری، کہانیاں، ناول اور تنقیدی مضامین سمیت نجانے کیا کچھ تھا۔ ایک کہانی ساری زندگی ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی، یہ تھی ان کی ساحرلدھیانوی سے محبت۔ لکھتی ہیں:'' ایک دن ساحر آیا تو اس کو ہلکا سا بخار چڑھا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں درد تھا، سانس کھنچا کھنچا تھا۔ اس روز اس کے گلے اور چھاتی پر وکس ملی تھی، کتنی ہی دیر ملتی رہی تھی اور لگا تھا یوں پاؤں کے بل کھڑی، میں پوروں سے، انگلیوں سے اور ہتھیلی کے ساتھ، اس کی چھاتی کو ہولے ہولے ملتی ہوئی ساری عمر بِتا سکتی ہوں۔
میرے بیچ کی ، خالص عورت کو اس پل دنیا کے کسی کاغذ قلم کی ضرورت نہیں تھی''۔ پھر ایک دوسری جگہ لکھتی ہیں:'' امروز جب ساحر کی کتاب'' آؤ ، کوئی خواب بنیں'' کا ٹائٹل بنا رہاتھا تو ہاتھ میں کاغذ تھامے کمرے سے باہر آگیا۔ بیرونی کمرے میں ، مَیں اور دیویندر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے ٹائٹل دکھایا۔ دیویندر تنہا دوست ہے جس سے میں ساحر کی بات کرلیا کرلیتی تھی۔ اس لئے دیویندر نے کچھ ماضی میں اتر کر ایک بار ٹائٹل کی طرف دیکھا، ایک بار میری طرف۔ لیکن مجھ سے اور دیویندر سے کہیں زیادہ امروز نے ماضی کے عمق میں اتر کر کہا:'' سالا، خواب بُننے کی بات کرتا ہے ، بننے کی نہیں!'' میں ہنس پڑی:'' سالا جولاہا، ساری عمر خواب بُنتا ہی رہا، کسی کا خواب نہ بنا۔'' میں، دیویندر ، امروز کتنی دیر تک ہنستے رہے...سمیت اس درد کے جو اس قسم کے موقعہ پر، اس قسم کی ہنسی میں شامل ہوتا ہے''۔
دل چاہتاہے کہ امرتا پریتم کی بھرپور کہانی اسی لمحے میں آپ کو سناتا رہوں انہی کے لفظوں میں لیکن بھلا کیسے! اس لئے باقی آپ ان کی خودنوشت میں خود ہی پڑھ لیں۔ 'بک کارنر' نے امرتا پریتم کی خودنوشت مکمل صورت میں شائع کی۔ کتاب میں وہ تمام تصاویرشامل ہیں جن کا تعلق امرتا پریتم سے ہے۔خوشونت سنگھ ہی نے امرتا پریتم سے کہا'' تمہاری سوانح کا کیاہے، بس ایک حادثہ! لکھنے بیٹھو تو رسیدی ٹکٹ کی پشت پر درج ہو جائے''۔
(تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
شاعر: رئیس فروغ،
صفحات: 364، قیمت: 800 روپے، ناشر: طارق رئیس فروغ
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں، اتنا برا تو میں بھی ہوں
60 اور 70 کی دہائی میں کراچی میں جن شعرا کا چرچا رہا، رئیس فروغ ان میں سے ایک۔ لیکن میدان ادب میں چرچا ہونا کافی نہیں صاحب۔ بات تو تب بنے گی، جب آپ کی بات دلوں میں اتر جائے، وہاں گھر کر جائے۔ اب آپ کے اشعار کتابوں کے محتاج نہیں رہتے۔ رئیس فروغ کی تخلیقی قوت نے یہ اہم مرحلہ سہولت سے طے کیا۔ فرماتے ہیں:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
اُن کی شاعری نہ صرف اپنے تازہ موضوعات کے باعث قابل توجہ ٹھہری، بلکہ اُن احساسات کے باعث بھی دل پذیر قرار پائی، جن کے بانکپن نے سامع کو متوجہ کیا۔ آگے کا کام لفظیات، تشبیہات اور استعاروں کے متوازن برتاؤ نے سنبھالا، اور یوں اُن کے چاہنے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔
اک اپنے سلسلے میں اہل یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں، اِس کے علاوہ نہیں ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صَرف ہُوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
اُن کی غزل میں عصری شعور دوڑتا ہے۔ البتہ عصری شعور انھیں کلاسیکی روایات کا باغی نہیں بناتا۔ یہ توازن اُن کے کلام کا حُسن۔
کیا پوچھتے ہو یار کہ سیدھی سی بات ہے
جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں وہ گھر گئے
سہل ممتنع کا عنصر ہے۔ جدت بھی جھلکتی ہے:
باتیں سڑک پر رہ جاتی ہیں
ساتھی دور نکل جاتے ہیں
نظموں میں جدید رنگ واضح ہے۔ وہ زمانے کی ہم رکاب ہیں۔
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہ سر بہ فلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے!
رئیس فروغ صاحب کا ایک ہی مجموعہ ''رات بہت ہوا چلی'' 82ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ اِسی مجموعے کا دوسرا ایڈیشن۔ اہتمام کیا اُن کے صاحب زادے، طارق رئیس فروغ نے۔ اچھا، کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے رئیس صاحب کا غیرمطبوعہ کلام شایع کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یقینی طور پر وہ کتاب سامعین کے لیے ایک تحفہ ہوگی۔
اے دل آوارہ (ناول)
مصنف: شموئل احمد
صفحات: 128، قیمت: 300 روپے
ناشر: رنگ اب پبلی کیشنز، کراچی
''مجھے سگریٹ پینے والی عورتیں اچھی لگتی ہیں، لیکن میرے حلقۂ احباب میں ایسی تخلیق کارہ نہیں ہے، جسے سگریٹ نوشی کا شوق ہو۔''
فکشن لکھنا، یا کہہ لیجیے اچھا فکشن لکھنا وہ صلاحیت، جس کے لیے قدرت پر تکیہ کرنا کافی نہیں۔ آمد ایک تحفہ، مگر فقط اِسی پر انحصار مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہاں آورد کی بڑی اہمیت۔ ان الفاظ کا انتخاب، جو خیال کے ترجمان بنیں۔ ضرورت ہو، تو بہتی ندی، تقاضا ہو، تو منہ زور دریا۔ پھر گُتھا ہوا پلاٹ، جو قاری کو باندھ لے، مضبوط کردار، جو چاہے آدھے صفحے کا ہو، قاری کے ذہن پر نقش ہوجائے، آخر میں تیکنیک۔ الغرض ڈھیروں تقاضے پورے کیے جائیں، تب فکشن کا بیانیہ بنتا ہے۔ شموئل احمد کی خوبی یہی صاحب کہ اُن کے ہاں یہ تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ زور آور فکشن نگار ہیں۔ ہندوستان میں اُن کا بڑا چرچا۔ افسانے اور ناول؛ دونوں مقبول۔ پاکستان میں بھی اب تذکرہ ہونے لگا ہے، مگر اس تواتر سے نہیں، جیسا ہونا چاہیے۔
زیرتبصرہ کتاب ''اے دل آوارہ'' کا سرورق اِسے ناول قرار دیتا ہے۔ ''عمر گذشتہ کی کتاب'' کا عنوان بھی ہے۔ جانے یہ ناشر کا فیصلہ تھا یا صاحب کتاب کا۔ اچھا فکشن نگار Narrative nonfiction اتنے پراثر ڈھب پر لکھتا ہے کہ اس پر فکشن ہی کا گمان ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی معاملہ اس کتاب کا۔ جی ہاں، شاید اسے ناول نہ ٹھہرایا جاسکے، مگر ناول نما یا یادداشتیں نما کہا جاسکتا ہے۔ کہانی پن ہے، مگر پلاٹ نہیں۔ یادداشتیں ہیں، مگر ایسے مناظر کی طرح، جن میں ربط نہ ہو۔ ویسے ربط کی ضرورت بھی نہیں۔ بلا کا بہاؤ ہے۔ شعور کی رو ہے۔ وہ مناظر تو بیش قیمت، جہاں شموئل احمد وہ یادیں بیان کرتے ہیں، جنھوں نے اُنھیں ''سنگھار دان'' اور ''بگولے'' جیسی کہانیاں عطا کیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:''میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا، مجھے کہانی سوجھتی نہیں ہے۔ مجھے کہانی مل جاتی ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ بس، دیکھنے والی نظر چاہیے۔''
شموئل احمد علم نجوم میں بھی گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے جوتشی مشہور۔ اس مختصر سی کتاب میں ہماری اس جوتشی سے بھی ملاقات ہوتی ہے، جو دل چسپی کو مہمیز کرتا ہے۔ ایک جگہ لکھا: ''میں علم الاعداد اور حروف کے اسرار پر ایک مفصل کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔'' زندگی کے بیش قیمت تجربات بھی ہیں: ''بوڑھے کے پاس مستقبل نہیں ہوتا، اس کے پاس صرف یادیں ہوتی ہیں!''
پاکستان میں شموئل احمد کی تخلیقات کی اشاعت احسن اقدام ہے۔ امید ہے، ناشر کی جانب اِس سلسلے کو بڑھایا جائے گا۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
تاریخ اسلام کی عظیم جنگیں
مصنف: سعیدالدین ہاشمی،قیمت:400 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک، اردوبازار ،لاہور
اسلام سلامتی اور امن کو پسند کرتاہے، وہ جنگ کو ناپسند کرتاہے لیکن اگر دشمن جنگ مسلط کردے تو پھر وہ ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتاہے۔ اگراسلام جنگ کی اجازت دیتاہے تو وہ امن قائم کرنے کے لئے۔ پھر اس جنگ کے اصول متعین کرتاہے کہ جنگ میں درخت نہیں کاٹنے،بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا احترام کرناہے، دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں اور عمارتوں کو نقصان نہیں پہچانا، جنگ میں جو فرار ہورہے ہوں انھیں بھی ہلاک نہیں کرنا، مریضوں کو بھی ضرر نہ پہنچے، عبادت گاہوں کی خدمت کرنیوالوں کو بھی ہلاک نہیں کرنا، جانور اور مویشی بھی محفوظ رہنے چاہیں، قیدیوں کو بھی ہلاک نہیں کرنااورہاں! کسی کو زبردستی دائرہ اسلام میں نہیں لانا۔ جب ایک مذہب اپنے پیروکاروں کو ایسی ہدایات دے رہاہو تو اس کے بارے میں یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ وہ مذہب تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔زیرنظر کتاب میں تاریخ اسلام کی چند مشہور جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کی ابتدا حق و باطل کے اولین معرکہ غزوہ بدر سے ہوئی، پہلے حیات پاک ﷺ کی چند جنگوں کا ذکر ہے، پھر حضرت خالد بن ولید ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ کی جنگوں کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ تاریخ اسلام کے مشہور سلاطین نے غیرمسلموں سے جو جنگیں کیں، ان کا بھی ذکر ہے۔
یہ ایسی ولولہ خیز داستان ہے جو رگوں میں خون کی گردش کو دوبالا کردیتی ہے، ہمارے سرفخر سے بلند کردیتی ہے، ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم خود کو بھی تاریخ کا مسافر سمجھنے لگتے ہیں، خود کو اسی مقام اور اس عہد میں پاتے ہیں۔ ہماری رگوں کا خون جوش مار کر ابلنے لگتاہے۔ ہمارے سرخود بخود تاریخ اسلام کے ان مجاہدین کے احترام میں عقیدت و محبت سے جھکتے چلے جاتے ہیں۔
( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
زنجبار سے پاکستان
مصنف : علی غلام حسین زنجباری
صفحات: 199 ،قیمت: 30روپے
ناشر: ماہنامہ '' آتش فشا ں '' ستلج بلاک ، لاہور
یہ کتاب دراصل زنجبار سے سوڈان ، مصر، لبنان ، شام ، عراق اور ایران پاکستان تک کا سفر نامہ ہے جو آج سے نصف صدی سے بھی قبل کیا گیا تھا اور یہ عرصہ چارسال میں ختم ہوا تھا جو باتیں اس کتاب میں لکھی گئی ہیں وہ مصنف کے بقول'' نہ تو کسی سے سنی ہیں اور نہ ہی کسی نے کہی ہیں یہ سب واقعات میں نے اپنی نظروں سے دیکھے ہیں۔ یہ سارے واقعات و حالات حقیقی ہیں۔ تاہم اندازِ تحریر افسانوی ہے ''۔ ساراسفر نامہ انتہائی دلچسپ اور تحیر انگیز واقعات اور گرانقدر معلومات سے مزین ہے۔ چونکہ وہ یہ تمام سفر پیدل یا بائیسکل اور بحری جہاز کے ذریعے کرتے رہے اس لیے مصنف کے مشاہدات میں ایک خاص تنوع کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے یہی چیز انہیں دوسرے سفرنامہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ سفر نامہ روائتی سفرناموں سے اس لیے بھی مختلف اور منفرد ہے کہ زیب داستاں کے لیے اس میں فرضی کردار شامل نہیں کیے گئے بلکہ وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو سفر نامہ نگار کو درپیش آتا رہاہے یا جن حالات کا انہیں سامنا رہا ہے۔ اس طرح یہ بلا خوف ِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ چند اوریجنل سفرناموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ سفر نامہ پڑھنے کے خواہش مند افراد کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔
( تبصرہ نگار شہباز انورخان )
ہاتھ قلم رکھنا (مضامین)
اہتمام: ایوب ملک، صفحات: 246، قیمت: 1200 روپے، ناشر: بدلتی دنیا پبلی کیشنز، اسلام آباد
وہ تو یہ کہیے کہ ہم تھے، آج بھی زندہ ہیں ہم
ورنہ ان حالات میں بے موت مرجاتے ہیں لوگ
زیرتبصرہ کتاب ممتاز شاعر، خالد علیگ کی بابت ہے، جنھیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری پختہ سماجی شعور، مثبت انقلابی سوچ اور توانا فکر و نظر کا شاعر کہہ کر پکارتے ہیں، اور سرشار صدیقی ایک درویش صفت انسان ٹھہراتے ہیں۔ پروفیسر آفاق صدیقی کو اُن کی غزلوں میں منفرد رنگ و آہنگ نظر آتا ہے، سرور جاوید مزاحتمی شاعری کے کارواں میں اُن کی اولیت کا ذکر کرتے ہیں، اور جاذب قریشی کے بہ قول: ''خالد علیگ کی نامیاتی درویشی نے اور اُن کے فنی بانکپن نے اُن کی شخصیت اور شاعری کو ایک زندہ وجود بنا دیا ہے!''
ان ابتدائی سطروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب خالد علیگ سے متعلق تحریر کردہ، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب میں 34 مضامین شامل ہیں۔ جہاں سنیئر لکھاریوں کے نام دکھائی دیتے ہیں، وہیں نئی نسل کے شاعروں، ادیبوں کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ منظر ایوبی کے مضمون کا ابتدائیہ ''خالد علیگ کے مسلک شعر گوئی کی بنیادی شق یہ ہے کہ ادب خلائوں میں تخلیق نہیں ہوتا!'' اِس بڑے تخلیق کار کے طرز ادب پر بلیغ انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ فلیپ پر احفاظ الرحمان اور سرور جاوید کی رائے درج ہے۔ احفاظ الرحمان کے بہ قول: ''خالد بھائی کا منفرد اسلوب، جداگانہ لب و لہجہ اور الفاظ کا دل نشیں دروبست اردو اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے کا ثمر ہے۔ ان کی لفظیات اور ان کے وضع کردہ استعاروں، تراکیب اور امیجری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا رچائو اپنے بھرپور حسن اور بانکپن کے ساتھ موجود ہے۔''
سرور جاوید لکھتے ہیں: ''شخصیت کی شفافیت اُن پر اپنی تکمیل کرتی نظر آتی تھی۔ اُن کے قول و فعل میں کبھی ذرہ برابر بھی دوئی نہیں پائی گئی!''
یہ ایک قابل مطالعہ کتاب ہے، جو قارئین کو ایک کھرے شاعر کے فن و شخصیت سے متعارف کروانے میں معاون رہے گی۔ ڈسٹ کور کے ساتھ معیاری کاغذ پر شایع ہونے والی یہ خوب صورت کتاب نشر و اشاعت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ البتہ قیمت کچھ زیادہ ہے۔ ایوب ملک قابل مبارک باد ہیں کہ وہ اس درویش صفت اور توانا شاعر کی یاد تازہ رکھنے کے لیے کئی کتابیں شایع کر چکے ہیں۔آخر میں جناب خالد علیگ کے دو اشعار:
زندگی تو ہی بتا تجھ سے بھلا کیا پایا
زندگی، کب ترا احسان لیا ہے میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سانچے میں آرام سے ڈھل جاتے ہیں کچھ لوگ
ہم بے ہُنروں کو یہ ہنر کیوں نہیں آتا
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
جگجیت سنگھ (غزلیں نظمیں گیت)
مرتب: گل شیربٹ،قیمت: 600 روپے،ناشر: بک کارنر،جہلم
کسی نے کہاتھا کہ جب دھیمے سروں کی بات ہو، کانوں کو بھلی لگنے والی آواز ہو، سخت اداسی کے دنوں میں، من مندر میں خاموشی کی بجتی ہوئی گھنٹیاں ہوں، دور کسی شام کے پار افق پر ناچتے شبد ہوں، آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوں اور دکھ کی لے پہ ایک آواز آپ کو اپنے اندر اترتی محسوس ہو تو سمجھ لیجئے گا کہ کہیں قریب ہی یا آپ کے اندر جگجیت سنگھ آپ کو شانت ہو جانے کو کہہ رہا ہے۔ لوگوں کو جگجیت کو سنتے رہنے کی ایک وجہ وہ کلام بھی ہے جس کا انتخاب جگجیت سنگھ نے کیا لیکن سب سے نمایاں وجہ اس کی آواز تھی جس میں سکون آور درد ہوتا تھا، بڑا سلجھا ہوا درد ۔ لوگ اپنے اندر الجھاؤ محسوس کرتے ہیں تو جگجیت سنگھ ان کی محبت میں سلجھاؤ پیدا کردیتے ہیں۔ ایک شخص نے بڑے تیقن سے کہا تھا کہ اگر آپ محبت کرنے سے پہلے جگجیت سنگھ کو سننا شروع کردیں تو آپ کا انتخاب بدل جائے گا۔
زیرنظر کتاب انہی غزلوں، نظموں اور گیتوں کا مجموعہ ہے جو جگجیت سنگھ نے اپنی مدھر آواز میں گائے۔مرتب نے زمانی ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ ترتیب دیا۔آزادی کے بعد بھارت میں غزل گائیکی کے فن کے حالات اچھے نہیں رہے تھے لیکن جگجیت نے اس فن کو دوبارہ زندہ کیا اور غزل کو درباروں یا ادب کی محفلوں سے نکال کر عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جگجیت سنگھ غزل گلوکاری کے لیے بھارت میں تو مشہور ہیں ہی لیکن ان کے مداح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت جب اردو اور غزل انحطاط کا شکار تھے جگجیت نے دونوں کا مقدر سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس لئے یہ کتاب جہاں موسیقی سے شغف ر کنے والوں کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں وہیں اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے بھی اس تخلیقی و تحقیقی شاہکار سے مستفید ہوں گے۔
رسیدی ٹکٹ(خودنوشت)
مصنفہ: امرتا پریتم،قیمت:600 روپے،ناشر:بک کارنر ،جہلم
ستانوے برس قبل امرتا پریتم گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں، گیارہ برس قبل دہلی میں انتقال کرگئیں۔بس! اتنی سی کہانی ہے انسان کی۔ تاہم یہ ایک بھرپور کہانی ہے، سو سے زائد کتابیں جس میں شاعری، کہانیاں، ناول اور تنقیدی مضامین سمیت نجانے کیا کچھ تھا۔ ایک کہانی ساری زندگی ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی، یہ تھی ان کی ساحرلدھیانوی سے محبت۔ لکھتی ہیں:'' ایک دن ساحر آیا تو اس کو ہلکا سا بخار چڑھا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں درد تھا، سانس کھنچا کھنچا تھا۔ اس روز اس کے گلے اور چھاتی پر وکس ملی تھی، کتنی ہی دیر ملتی رہی تھی اور لگا تھا یوں پاؤں کے بل کھڑی، میں پوروں سے، انگلیوں سے اور ہتھیلی کے ساتھ، اس کی چھاتی کو ہولے ہولے ملتی ہوئی ساری عمر بِتا سکتی ہوں۔
میرے بیچ کی ، خالص عورت کو اس پل دنیا کے کسی کاغذ قلم کی ضرورت نہیں تھی''۔ پھر ایک دوسری جگہ لکھتی ہیں:'' امروز جب ساحر کی کتاب'' آؤ ، کوئی خواب بنیں'' کا ٹائٹل بنا رہاتھا تو ہاتھ میں کاغذ تھامے کمرے سے باہر آگیا۔ بیرونی کمرے میں ، مَیں اور دیویندر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے ٹائٹل دکھایا۔ دیویندر تنہا دوست ہے جس سے میں ساحر کی بات کرلیا کرلیتی تھی۔ اس لئے دیویندر نے کچھ ماضی میں اتر کر ایک بار ٹائٹل کی طرف دیکھا، ایک بار میری طرف۔ لیکن مجھ سے اور دیویندر سے کہیں زیادہ امروز نے ماضی کے عمق میں اتر کر کہا:'' سالا، خواب بُننے کی بات کرتا ہے ، بننے کی نہیں!'' میں ہنس پڑی:'' سالا جولاہا، ساری عمر خواب بُنتا ہی رہا، کسی کا خواب نہ بنا۔'' میں، دیویندر ، امروز کتنی دیر تک ہنستے رہے...سمیت اس درد کے جو اس قسم کے موقعہ پر، اس قسم کی ہنسی میں شامل ہوتا ہے''۔
دل چاہتاہے کہ امرتا پریتم کی بھرپور کہانی اسی لمحے میں آپ کو سناتا رہوں انہی کے لفظوں میں لیکن بھلا کیسے! اس لئے باقی آپ ان کی خودنوشت میں خود ہی پڑھ لیں۔ 'بک کارنر' نے امرتا پریتم کی خودنوشت مکمل صورت میں شائع کی۔ کتاب میں وہ تمام تصاویرشامل ہیں جن کا تعلق امرتا پریتم سے ہے۔خوشونت سنگھ ہی نے امرتا پریتم سے کہا'' تمہاری سوانح کا کیاہے، بس ایک حادثہ! لکھنے بیٹھو تو رسیدی ٹکٹ کی پشت پر درج ہو جائے''۔
(تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)