ٹرمپ اور پاکستان
ڈونلڈٹرمپ نئے امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لے چکے ہیں
HYDERABAD:
ڈونلڈٹرمپ نئے امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لے چکے ہیں۔ ان کے صدرمنتخب ہونے پرامریکا سمیت پوری دنیامیں جوہاہاکارمچی ہے، وہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آرہی۔ عین اس وقت جب وہ وہائٹ ہاوس کے اندرحلف لے رہے تھے، باہر احتجاجی مظاہرہ جاری تھا۔ گزشتہ روزیہ سلسلہء احتجاج ان یورپی ملکوں تک پھیل گیا۔
صدارتی الیکشن میں پاکستان کی حکمران پارٹی کی ہمدردیاں واضح طورپرٹرمپ کی حریف ہیلری کے ساتھ تھیں۔ حکومت کے حامی تمام تجزیہ کارامریکی میڈیاکے پروپیگنڈاکی پیداکردہ فضامیں ہی سانس لے رہے تھے۔ بعضے توایک روزاس قدرجذباتی ہوگئے کہ کہا، الیکشن تو بس ضابطے کی کارروائی ہے۔ ٹرمپ کی شکست نوشتہ دیوار ہے۔یہی نہیں، پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کاربھی یہ تاثردینے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔
الیکشن سے صرف دوروزپہلے اسلام آباد میں ہونے والے ایک لنچ میں، جہاں امریکی سفارتی عملہ بھی موجودتھا، ہرمردوزن کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ امریکا میں پہلی بارایک خاتون صدر منتخب ہونے جارہی ہے۔ جب پاکستان کے ایک سینئر اخبارنویس نے ٹرمپ کی جیت کے امکانات کے بارے میں بات کرناچاہی تو لنچ میں شریک تمام خواتین وحضرات نے ان کی اوردیکھااورکہا، یہ آپ نے عجیب بات کہہ دی، بلکہ ایک دونے توازرہِ تفنن یہ بھی کہہ دیاکہ ٹرمپ امریکی صدربننے کی صورت میں وہ مستقل طورپرپاکستان میں رہنا پسندکریں گے۔ پتہ نہیں، اب وہ اپنے اس عزم پرقائم ہیں یا نہیں، یا 'رات گئی بات گئی' کہہ کے امریکاسدھارچکے ہیں۔ اسی طرح اسلام آبادمیں حکومتی وزرا اوراعلیٰ عہدے داربھی ٹرمپ کی مخالفت میں کوئی مضایقہ نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک ان کی شکست یقینی تھی۔
ان کا تجزیہ تھا کہ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نوازشریف حکومت کی موجودہ اندرونی وبیرونی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا، جب کہ ہیلری کے صدرمنتخب ہوتے ہی نوازشریف حکومت کی تمام تراندرونی اوربیرونی مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا یہ بات اس پس منظر میں کہی جارہی تھی کہ1999ء میں جب نوازشریف حکومت ختم ہوئی تھی،اوراس کے بعدان کو عمر قید کی سزا بھی سنادی گئی تھی، تویہ ہیلری کے میاںاوراس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن تھے، جنھوںنے ان کو ریسکیو کیاتھا۔ چنانچہ امریکی میڈیاکی تقلید میں یہاں بھی ٹرمپ کو'ڈریکولا' کے روپ میں پیش کیاجارہاتھا،حالانکہ یہ ہیلری تھیں، جھنوں نے لیبیا، عراق اورشام کوجنگ کی طرف دھکیلنے میں بڑااہم کرداراداکیاتھا،جب کہ ٹرمپ نے ان جنگوں کی مخالفت کی تھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی میڈیا، جس پرامریکی ایسٹیبلشمنٹ بہت حاوی ہے، اس نے آج تک کسی صدارتی امیدوارکے خلاف ایسی منفی، زہریلی اورجارحانہ مہم نہیں چلائی، جیسی ٹرمپ کے خلاف چلائی۔ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ٹرمپ کا 'حلقہ انتخاب' بنیادی طورپرامریکا کی سفید فام اکثریت ہے، جوامریکا کی مجموعی آبادی کا79%ہے۔ یہ وہ حلقہ انتخاب ہے، جس کی اعلیٰ ملازمتوں میں نمایندگی بہت کم ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں پر 21% غیرملکی اوریجن کے شہری چھائے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ اپنے حلقہ انتخاب کویہ یقین دلانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ غیرملکی 21% آبادی پرقدغنیں عائدکرکے ہی باقی 79% آبادی کے لیے اعلیٰ ملازمتوں اوربہترین روزگار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ بعینہ عالمی دہشتگردی کے خلاف انھوں نے جولائن لی، وہ بھی ان کے حلقہ انتخاب کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہے، جس نے ٹرمپ کو امریکی اشرافیہ کی شدیدمخالفت کے باوجود ایوان صدر میں پہنچا دیاہے۔ صدر کی حیثیت سے ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریرمیںغیرملکی امیگریشن اورغیرملکی ٹیررازم کے بارے میں جوپالیسی دی ہے، وہ ان کے انتخابی نعروں بہت حد تک مطابقت رکھتی ہے۔
وجوہات جوبھی ہوں، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے سفارتی بزرجمہر ٹرمپ کی جیت کے لیے ذہنی طورپرتیارنہیںتھے۔پھرٹیلی فون پرنومنتخب امریکی صدرکی وزیراعظم پاکستان سے ''بے تکلفانہ گفتگو'' کی حکومت پاکستان نے جس غیرذمے دارانہ انداز میں جاری کی، وہ بجائے خود اپنے اندرجگ ہنسائی کاسامان لیے ہوئے تھی۔ یہاں تک کہ امریکی ترجمان کواس کی باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی تھی۔ ٹرمپ کی اس ٹیلے فون کال سے کوئی حتمی نتیجہ اخذکرنا اس لیے بھی درست نہیں کہ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات ابھی تک کافی متضاد رہے ہیں۔
مثلاً، انھوں نے کہاکہ پاکستان دنیا کاخطرناک ترین ملک ہے۔ پھرانھوں نے کہاکہ آئی لو پاکستان۔ انتخابی مہم کے دوران میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگروہ صدر بن گئے تو افغانستان میں کم ازکم دس ہزارفوج ضرور رہنے دیں گے، کیونکہ افغانستان کی سرحدپاکستان سے متصل ہے، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔اس طرح ٹرمپ چین کے بارے میں ان کی ناپسندیدگی بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بھارت کے لیے یقیناً ایک اچھی خبر ہے، مگرپاکستان کے لیے یہ کوئی اچھی خبرنہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے ٹرمپ کی نوازشریف سے گفتگو کی جوتفصیلات جاری کی ہیں، ان میں کہاگیا ہے کہ ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کادورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، بلکہ تنازع کشمیر کے تصفیہ کے لیے مثبت کردارادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
مگراس کے کوئی آثارنظر نہیں آتے ہیں اور ظاہراًپاکستانی حکومت اورملٹری ایسٹیبلشمنٹ کی مشکلات بڑھنے ہی کاامکان ہے۔ تنازع کشمیر کے تصفیہ کے لیے امریکی صدرکلنٹن نے بہت سال پہلے اس طرح کی بات کی تھی، مگر یہ محض بات ہی تھی۔بلکہ پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد جب مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بن کرسامنے آیا تواقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے پاکستان اوربھارت کا دورہ بھی کیا تھا، مگر پھریہ بات بھی رفت گزشت ہوگئی۔
بعض مبصرین کاکہناتھا کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جوکچھ کہا، اس کوسنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں، انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی جذباتی باتیںکہی جاتی ہیں؛ لیکن بطورصدر، ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریرمیں اپنی جو ترجیحات بیان کیںاورجس طرح سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کے لیے امریکی ویزہ پرپابندی اورمیکسیکوامریکا بارڈر پردیوار کی تعمیرکے احکامات جاری کیے ہیں، وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اگلے مرحلہ میں وہ پاکستان سے بھی ڈومور کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات کا انتہائی مشکل دورشروع ہوچکاہے، مگروہ جوشاعر نے کہا تھاکہ
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اورجان عزیز