ٹرمپ کی صدارتی کرسی کیسے رہے گی

امریکا نے صدربش کے دور حکومت سے شرق اوسط کے کئی نقشے بنائے تھے جو عراق کی جنگ سے شروع ہوئے


Anis Baqar January 26, 2017
[email protected]

میرا علم نجوم سے دور کا بھی تعلق نہیں، پھر بھی مشاہدوں اور ماضی کی سیاسی دوڑ میں شرکت کی بنیاد پر جو کچھ تحریر کر رہا ہوں اس کی بنیاد گزرے ہوئے دانشوروں کی جہت ہے اور ان لوگوں کی جہت مسلسل کا دور بھی جن میں فیض صاحب، حبیب جالب، ناقد سید سبط حسن اور بہت سے وہ دانشور، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے ''وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔'' یہاں عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ امریکا میں اصل جمہوریت ہے اور اس کی روایت قدیم ہے۔ یہ تو 45 واں صدر ہے، واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل کیا تھا؟ جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ کا دخل کم تھا مگر جنگ عظیم دوم کے بعد بظاہر تو حکومت عوام کی ہوتی ہے مگر پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہوتا ہے، کہیں کم کہیں زیادہ اور بعض جگہوں پر برائے نام، جیساکہ کیوبا۔

امریکا نے صدربش کے دور حکومت سے شرق اوسط کے کئی نقشے بنائے تھے جو عراق کی جنگ سے شروع ہوئے۔ یہ نقشے ان کے تھنک ٹینک اور اسٹیبلشمنٹ نے متفقہ طور پر تیار کیے۔ پھر سیاسی پارٹیوں میں سے کسی شخص کا چناؤ کیا جو عالمی طور پر اس کو عملی جامہ پہنا سکے۔ صدر بش دو مرتبہ چناؤ جیتے اور پھر صدر اوباما، مگر ان دونوں کے پلان بری طرح فیل ہونے کے بعد ری پبلکن پارٹی نے کھرب پتی ٹرمپ کو امیدوار بنایا، جس پر ان کے تھنک ٹینک میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا تھا۔

ڈیموکریٹ میں سینڈر کو پہلے میدان میں ڈالا مگر اس کے خیالات سوشلسٹوں سے قریب تر تھے، اس لیے ہلیری کلنٹن کو آگے لایا گیا، مگر ہلیری چونکہ اوباما کی لائن چل رہی تھی اور وہ سیاست چونکہ فیل ہوگئی، اس لیے امریکا نے کولڈوار کے بعد اب روس سے مفاہمت کی ٹھانی اور ٹرمپ نے ایسی گفتگو کی، جیسے وہ کسی غریب اور کم پڑھے لکھے ملک میں انتخاب لڑ رہے ہیں، لہٰذا ان علاقوں سے جو نسبتاً زیادہ پسماندہ تھے ان کی اکثریت نے ٹرمپ کو کامیاب بنایا۔ لہٰذا ٹرمپ کو ان لوگوں کے زیادہ ووٹ ملے، جن کو الیکٹورل ووٹ بھی زیادہ ملے اور اب امریکی شام کی جنگ کے خاتمے کے بعد روس سے گفتگو کو اولیت دے رہے ہیں۔ لہٰذا پوتن سے گفتگو ان کی پہلی چاہت ہے۔

حالانکہ اسرائیل کے رہنما نیتن یاہو کو پہلی فرصت میں امریکا بلایا ہے، کیونکہ اسرائیل کو بہت سی شکایتیں ہیں۔ ان کی کابینہ میں زیادہ تر عیسائی ہیں اور عیسائیوں کا وہ ٹولہ جس کی ہمدردیاں پی ایف ایل پی کے ہمنواؤں کے ساتھ رہیں اور وہ شام میں شامی فوج کے ہمراہ لڑ رہے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل اور بعض عرب ممالک کو محدود کرکے شرق اوسط میں امن قائم کیا جاسکتا ہے، مگر اسلحے کی انڈسٹری کا متبادل کیا ہوگا؟ کیونکہ امریکا کی سب سے بڑی اور کامیاب انڈسٹری ہے، اور پراکسی وار اسی لیے لڑی جاتی ہے۔

مگر پراکسی وار میں شام کی فتح نے امریکا کی وار انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا۔ امریکا امن کے ذریعے جنگ کا خسارہ کیسے پورا کرسکے گا۔ اس لیے امریکا میں بیمار فیکٹریوں کو پہلے درست کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ماضی میں ان کی حیثیت خواتین میں کافی خراب رہی ہے، اس لیے عوامی دباؤ بھی بہت ہے۔ حلف برداری کے دن امریکا میں بڑے مظاہرے ہوئے، خصوصاً خواتین نیویارک کی سڑکوں پر تھیں۔ برطانوی وزیراعظم نے بھی ایک موقع پر یہ کہا کہ وہ ٹرمپ کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں۔ یہ الفاظ ہیں میڈم تھریسا مے کے۔ ویسے بھی خالص سیاسی معاملات سے ٹرمپ دور ہی ہیں۔ ابھی سابق سوویت ریاست کے شہر آستانہ میں شام میں امن قائم کرنے کا جو پلان بنایا گیا اس میں کئی ممالک شامل ہوئے، جس میں ترکی بھی ہے اور امید ہے کہ اس کانفرنس میں کرد پارٹیاں بھی شامل ہوں گی۔

مگر امریکا کا کوئی نمایندہ اس میں شامل نہ ہوگا۔ اس طرح امریکا کی شہرت کو بہت نقصان پہنچے گا۔ امریکا میں 44 صدور حلف اٹھا چکے ہیں مگر کوئی متنازعہ نہ تھا، جب کہ پینتالیسویں صدر کا معاملہ بالکل الگ نکلا۔ٹرمپ نے امریکا میں میڈیا سے سردجنگ کا آغاز کردیا ہے۔ CNN اور BBC کے خلاف اور دیگر صحافیوں کے خلاف ان کا انداز اور ریمارکس دھمکی آمیز ہے۔ یہ ٹرم کے لیے پہلا نحس قدم ثابت ہوگا۔ ابھی چند ہی دن گزرے ہیں کہ میڈیا ماضی کے صدور اور روایات کا موازنہ کر رہا ہے جس سے ان کی عوامی مقبولیت میں مزید کمی آرہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ٹرمپ بلیو کالر مزدوری پیشہ اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیڈر ہیں۔

اس کے علاوہ خفیہ طور پر ٹرمپ نے سفید فام کی برتری کا نعرہ بھی گلی کوچوں میں لگوایا کہ کالے اور بھورے یا سانولے لوگوں سے نجات کی بات بھی کی گئی۔ سفید فام کی برتری اور امریکا کو ان کی ملکیت کہا گیا اور یہی ذہنیت آج بھی کارفرما ہے۔ اگر اصولی طور پر اور تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ مٹی ریڈ انڈین کی ہے جن کی کوئی حیثیت امریکا میں اب نہیں رہی بلکہ کالے ان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ امریکا میں مسجدوں کی تعمیر کے خلاف بھی درون خانہ مہم چلائی گئی۔

نسل پرستی اور مذہب کی آڑ لے کر مہم جوئی کی گئی اور ٹرمپ حلف برداری کے موقع پر ایسے بنے رہے جیسے کہ وہ تمام نسل اور مذاہب کے لوگوں کو برابر خیال کرتے ہی۔ یہ تربوزی انداز اوپر سے سبز اور اندر سے سرخ زیادہ عرصہ چھپائے نہ چھپے گا، اور حقیقت میں نسل پرستی غالب آکر رہے گی اور دنیا میں ان کی اصلیت نمایاں ہو گی، جس کا خمیازہ امریکا کو بھگتنا پڑے گا۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پوتن سے معاہدہ کرکے اور نیٹو کو برا کہہ کر دنیا میں اچھے کہلائیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جوانی اور اس کے بعد کے حالات دولت کمانے، ماڈلنگ، مقابلہ حسن اور اس سے منسلک شعبوں سے تعلق رہا ہے۔ مس یونیورس جیسے شعبوں کی سرپرستی کرتے رہے۔ مس یونیورس کا ادارہ انھوں نے 1952ء میں قائم کیا۔ انھوں نے حسن اور Beauty Pageants اس سے متعلق نمائشوں کا اہتمام کیا، مس یو ایس اے کا 2006ء میں اہتمام کیا مگر سیاست کا کوئی سبق نہ پڑھا۔ مگر وہ کون سی تدبیریں تھیں کہ ان کو امریکی انتخاب میں سرفہرست ری پبلکن پارٹی نے یہ مقام عطا کیا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ہمنوا رہی کہ وہ امریکا کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سنبھالا دیں گے۔

فی الحال ایسے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ٹرمپ ایک روایتی چیف گیسٹ کے طور پر مشہور تھے، مگر امریکی سی آئی اے نے ان کو کیونکر ولادی میر پوتن کے مقابل کھڑا کیا کیونکہ گوربا چیف کے زمانہ سوویت یونین میں پوتن روسی کے جی بی کے سربراہ تھے۔ وہ کافی ہوشیار ہیں مگر گوربا چیف کا نام تاریخ میں زندہ رہے گا، کیونکہ انھوں نے سوویت ریاستوں کو زبردستی دبانے کے بجائے نوک قلم سے آزادی عطا کی اور وسط ایشیا تک جانے کے لیے ہر ملک آج کوشش میں ہے، سی پیک بھی اسی کا مظہر ہے۔

موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے امریکا روس کے زیر نگیں ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ترکی جو نیٹو کا رکن ہے کبھی جہادیوں سے بڑے اچھے مراسم تھے جو شام کے خلاف اور سعودی حمایت میں تھے مگر اب ان کا عمل کچھ اور ہے صدر اردگان قازقستان میں پوتن کا ڈکٹیشن لینے آستانہ میں حاضر ہیں لہٰذا اب روس کا شرق اوسط میں راستہ صاف ہوگیا یہاں شام کے امن کے لیے روس کے سابق سیاسی ہم وطن موجود ہیں جو کبھی یہ ریاست سوویت یونین کے رکن تھے اور گوربہ چیف کے قلم نے قازقستان کو ایک آزاد ملک بنادیا یہی وہ عمل ہے جس سے تاریخ میں گوربہ چیف ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ مسلم ریاستیں بغیر ایک گولی چلائے قانونی طور پر آزاد ہوگئیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق تاریخ کیا فیصلہ کرے گی اس بات کے کافی منفی خیالات ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی تدبر کمزور ہے لہٰذا وہ امریکا کے لیے مناسب لیڈر ثابت نہ ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں