انصاف میں تاخیر خود بڑی ناانصافی
نچلی عدالتوں میں کرپشن بھی موجود ہے جس کا متعدد ججوں کی طرف سے بھی ایک نہیں کئی بار اعتراف کیا گیا
SUKKUR:
ججوں کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کے بعد تعلیم یافتہ اورمعزز وکلا کے خلاف پنجاب واحد صوبہ تھا، جہاں وکلا کی طرف سے بعض شہروں میں اختیارکیے گئے رویوں کی زیادہ شکایات منظر عام پر آئیں، جسے میڈیا میں وکلا گردی کا نام دیا گیا۔ جس کا نشانہ عدالتوں میں آئے ہوئے پولیس افسران اور شہری ہی نہیں بلکہ جج حضرات بھی بنے اور بعض شہروں میں یہ صورتحال اتنی تشویشناک ہوگئی کہ ججوں کو بھی بطور احتجاج عدالتی کام بند کرنے پڑے اور بعد میں سینئر وکلا کی مداخلت پر عدالتی صورتحال معمول پر آئی۔
کسی وجہ سے مشتعل اورجذباتی وکلا میں زیادہ تر نوجوان وکیلوں کی تھی جن پر الزام لگے کہ انھوں نے عدالتوں میں آئے، پولیس افسران پر تشدد کیا بلکہ بعض نے تھانوں میں جاکر جھگڑے کیے جس کے بعد پولیس کی طرف سے بعض وکیلوں کے خلاف مقدمہ درج اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں اور ہر جگہ سینئر وکلا نے ہی مداخلت کی اور معاملات کو سنبھالا اور جس کی غلطی تھی اسے سمجھایا بھی اورباز پرس بھی کی۔ بعض عدالتوں میں اپنے موکل کی ضمانت نہ ہونے،عدالتی عملے کے ناروا رویے اور تاریخوں کے مسئلے پر وکیلوں نے تکرار بھی کی اور ججوں کی طرف سے ان کے موکلین کی ضمانتیں مسترد کردینے کی وجہ سے بھری عدالتوں میں ججوں اور وکیلوں کے درمیان تلخ کلامی اور دھمکیوں کے تبادلے بھی ہوئے۔
نچلی عدالتوں میں کرپشن بھی موجود ہے جس کا متعدد ججوں کی طرف سے بھی ایک نہیں کئی بار اعتراف کیا گیا۔نچلی عدالتوں سے میڈیا کا واسطہ نہیں پڑتا اس لیے میڈیا کو نچلی عدالتوں میں ہونیوالے معاملات کا پتا نہیں چلتا اور توہین عدالت کی کارروائی کے خوف سے میڈیا والے ایسی خبروں سے گریز ہی میں بہتری سمجھتے ہیں جب کہ وکلا حضرات نچلی عدالتوں میں ہونیوالے تمام معاملات اور وہاں ہونے والی مبینہ کرپشن سے واقف ہی نہیں ہوتے بلکہ جونیئر وکیل حصہ بھی بن جاتے ہیں ،سب کو معاملات کا مکمل علم ہوتا ہے اور دانستہ یہ سب کچھ ہونے دیتے ہیں کیونکہ کوئی سائل اس سلسلے میں جج سے اس کے عملے کی طرف سے ہونے والی زیادتی کی شکایات نہیں کرتا اور عملے کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اور جب سائلین کو جان بوجھ کر تنگ کرنے کا عادی کسی وکیل کے ساتھ سائل جیسا ناروا رویہ اختیارکرتا ہے تو متعلقہ وکیل برہم ہوجاتا ہے اور عملے کو سنا دیتا ہے اور گرما گرمی زیادہ بڑھ جائے تو وکیل متعلقہ جج کے پاس شکایت کرنے سے گریز نہیں کرتے کیونکہ وہ قانونی معاملات سے واقف ہوتے ہیں جب کہ کبھی کبھی عدالت آکر پھنسنے والا سائل وکیلوں جیسی جرأت رکھتا ہے نہ وہ قانونی معاملات سے واقف ہوتا ہے۔
راقم کو اپنے آبائی شہر شکارپور میں ایک بار ایک پریس کانفرنس کی خبر پر اور دو تین بار پریس کلب کے معاملات پر متعلقہ عدالتوں سے واسطہ پڑا تھا مگر چھوٹے شہر میں مفت کے وکلا اور میڈیا کی وجہ سے میڈیا والوں کو ان مشکلات اور رشوت ستانی کا سامنا نہیں رہا جو عام سائلین کو درپیش ہوتا تھا۔ عدالتی عملہ پیشی ہونے تک عزت سے بٹھاتا بھی تھا اورفخر سے بتاتا تھا کہ صبح خالی جیب آتے ہیں اور شام کو نوٹوں سے بھری جیبوں کے ساتھ گھر جاتے اور دوسروں کا حصہ دے کر گھر جاکرگنتے ہیں کہ آج کتنے کمائے۔
راقم نے پیپلزپارٹی کے عہدیدار کی پریس کانفرنس کی خبر بطور رپورٹر مقامی اسپتال کے ایک میڈیکل آفیسرکے خلاف لگوائی تھی جس کے خلاف پی پی کے وزیر صحت بھی کچھ نہ کرسکے تھے اور سٹی مجسٹریٹ نے اپنے دوست متعلقہ ڈاکٹرکو خوش اور راقم کو خبر چھپوانے کے جرم میں عدالت آکر تاریخ پر تاریخ دینے کا سلسلہ مہینوں جاری رکھا تھا جب کہ اخبار کے ایڈیٹر نے نوٹس وصول نہیں کیا تھا۔ اس کیس میں ڈاکٹر نہیں آتا تھا اور راقم کو گھنٹوں انتظار کروا کر سٹی مجسٹریٹ بلاکر نئی تاریخ دے دیا کرتے تھے اور ایک وکیل کی مداخلت پر انھوں نے ہنس کر بتایا تھا کہ پریس کانفرنس کی کوریج کا کیس تو بنتا نہیں تھا بس ڈاکٹرکے کہنے پر آپ کو پریشان کرنا مقصود تھا۔ مشہور ہے کہ درخواست کے ساتھ روپے کا پہیہ لگے گا تو درخواست آگے بڑھے گی وگرنہ ردی کی ٹوکری میں جائے گی۔
نچلی عدالتوں میں پیش کار سے ریڈروں کی کارستانیوں سے وکلا بخوبی واقف ہیں اور پولیس اہلکاروں کے تنگ کرنے کے طریقوں کا بھی وکلا کو پتا ہے اور جب پولیس اور عدالتی عملہ انھیں بھی نہیں بخشتا تو وکلا بھی اپنے کالے کوٹوں کا بھرم دکھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ صورتحال کی بہتری کی بڑی گنجائش ہے، عدلیہ کا وقار پیش نظر رہنا چاہیے، آج کل وکیلوں کی بڑی تعداد جونیئر اور نوجوان وکلا کی ہے جو اپنی مرضی کا فیصلہ نہ ہونے پر ججز سے تلخ ہو جاتے ہیں۔کالے کوٹوں والوں کے سائلین، پولیس، عدالتی عملے اورججوں سے اختیار کیے گئے ناروا رویے کو میڈیا نے وکلا گردی کا نام تو دے دیا مگر دوسرا رخ پیش کرنے پر توجہ نہیں دی۔
راقم کی حال ہی میں لاہور کے وکلا چیمبرز میں بعض وکیلوں سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے وکلا گردی کے لفظ کو نامناسب اور افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وکالت تعلیم یافتہ اور باعزت پیشہ ہے اورکبھی کسی سینئر وکیل کے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی بلکہ ایسی شکایات بعض جونیئر اور نوجوان وکلا کے باعث ضرور ملی ہیں جو ملازمتیں نہ ملنے کے باعث بی اے کے بعد ایل ایل بی کرکے وکالت کے پیشے سے منسلک ہوگئے ہیں اور بعض اس معزز پیشے کی بدنامی کا باعث بنے ہیں اور ایسے معاملات میں سینئر وکلا نے اپنا مثبت کردار ادا کرکے معاملات کو سنبھالا بھی ہے ۔ بار نے بعض ایسے وکیلوں کے خلاف کارروائی بھی کی ہے مگر بعض جگہ ایسے وکلا اکثریت میں ہونے کے باعث قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
اعلیٰ عدالتیں بھی بار اور بینچ کو ایک ہی گاڑی کا پہیہ قرار دیتی رہی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے اور فاضل جج صاحبان بھی واضح کرتے رہتے ہیں کہ بار اور بینچ پر ایک دوسرے کا احترام اور قانون کی پاسداری لازم ہے جس پر عمل سے ہی حصول انصاف ممکن اور جلد یقینی ہوگا اور سائلین کی پریشانی بھی ختم ہوگی۔ فاضل ججوں کی طرف سے مقدمات میں تاخیرکی وجہ بھی وکلا کو قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بہت زیادہ بوجھ اورعدالتوں اور عملے کی بھی کمی ہے جس کی وجہ سے مہینوں میں ہونیوالے فیصلے برسوں میں بھی نہیں ہوتے اور اکثر وکلا بھی تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں جس سے عدالتوں پر کام کا بوجھ اور سائلین کی پریشانی بڑھتی ہے اور حصول انصاف میں تاخیر خود بڑی ناانصافی ہوتی ہے۔